سیاحوں پر جو گزری سو گزری، سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

مری میں سیاحوں کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا، غیر متوقع نہ تھا۔ کئی دنوں سے سرکاری ادارے سوشل اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے مسلسل خبردار کرتے رہے کہ ان دنوں مری کا سفر نہ کریں۔ موسم خراب ہے اور کوئی بڑا طوفان منڈلا رہا ہے۔ان کی تنبہہ سنی ان سنی کردی گئی۔ انتظامیہ کی نااہلی اور استعداد میں کمی کا پورا ملک رونا رو رہا ہے اور درست کر رہا ہے لیکن کچھ غور ہمیں اپنے سماجی رویوں اور اداؤں پر بھی کرنا چاہیے۔ انتظامیہ کی جاری کردہ ہدایات پر عمل درآمد کے لیے ہم عمومی طور پر رضا مند نہیں ہوتے ۔

ہر کوئی مہم جوئی کرنا چاہتاہے۔ چانس لینا چاہتا ہے کہ ممکن ہے وہ نکل یا بچ جائے۔ ایک دوسرے کی دیکھادیکھی ہم سب بھیڑ چال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ایک غلطی کرتاہے تو اسے روکنے کے بجائے ہم اس کی پیروی کرتے ہیں۔پولیس اور ٹریفک اہلکاروں کے لیے لوگوں کو سنبھالنے سے زیادہ اپنی جان بچانا مسئلہ بن جاتاہے۔
اوسلو میں اسی کی دہائی سے مقیم ہمارے کزن سردار علی شاہ نواز بتاتے ہیں کہ حکومت اگر ہدایت جاری کردے کہ شہریوں نے گھر سے باہر نہیں نکلنا تو کوئی بھول کر بھی قدم دروازے سے باہر نہیں رکھتا۔ حکومت کے احکامات پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاتاہے۔ انتظامیہ طاقت کا استعمال شاذ ہی کرتی ہے ۔

شہری رضاکارانہ طور پر نظم وضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اور تو اور عرب ممالک میں بھی شہری انتظامیہ کی ہدایات کو نظر انداز کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وسطی ایشیائی ریاستیں جہاں دہائیوں تک سابق سوویت یونین کا سرخ جھنڈا لہراتا رہا وہاں بھی متعدد بار جانے کا موقع ملا۔ مہذب معاشرے کی تمام صفات ان میں پائی جاتی ہیں۔ نظم وضبط، قطار میں کھڑے ہونا۔ ٹریفک قوانین کا احترام کرنا۔ سرکاری نرخوں پر خریدوفروخت کرنا۔قانون کا سکہ ہرطرف چلتاہے۔اس گفتگو کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ سرکار کے ساتھ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ریاستی قوانین کی اطاعت اس کی روح کے مطابق کی جانی چاہیے۔

اگر ہم ایسا کریں گے تو ستر فی صد ہمارے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔ انتظامیہ اور شہری اگر باہم تعاون کریں ایک دوسرے کے دست وبازو بنیں تو جرائم میں بھی نمایاں کمی آسکتی ہے اور عمومی طور پر امن و امان کی صورت حال بھی بہتر ہوسکتی ہے۔
مری میں جو ہوا وہ دل دہلانے والا ہے لیکن ایک اور پہلو جس کی طرف بعض لوگ دبے دبے لفظوں میں اظہار کررہے ہیں ،وہ ہے مقامی ہوٹل مالکان کاکاروباری طرزعمل۔آفات اور مصیبت سے بھی فائدہ اٹھانے کی ہوس انسان اور جانور میں امتیاز مٹا دیتی ہے۔ مری عشروں سے سیاحت کا بہت بڑا مرکز ہے ،لہٰذا یہاں کاروبار کرنے والے باہر سے آنے والے ہر شخص کو ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بھاؤبتاؤ بھی اس کی شکل و صورت ، گاڑی، گھڑی اور موبائل دیکھ کر تے ہیں۔

ہوٹل مالکان اگر مقامی آباد ی کے تعاون سے اپنے ہوٹلوں اور گھروںکے دروازے کھول دیتے ہیں توصورت حال مختلف ہوتی۔ بے شمار علاقوں میں مقامی آبادی حادثات کا شکارہونے والوں کا دست وبازو بن جاتی ہے۔ سیاحت سے وابستہ صنعت کو انسانی ہمدردی اور مشکلات میں پھنسے ہوئے لوگوں کا سہارہ بننے کی تربیت فراہم کرنے کی ضرورت کا بھی ہمیں احساس کرنا ہوگا۔
پاکستان میں مقامی سیاحت کی صنعت نئی نئی ہے۔ گزشتہ دس پندرہ برسوں سے خلقت کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ پاکستان کے شمالی علاقوں، مری، سوات، چترال، گلگت بلتستان، راولاکوٹ اور نیلم ویلی کی سیاحت کو نکلتے ہیں۔لیکن انہیں نہیں معلوم کہ موسم سرما میں ان علاقوں میں سفر کے لیے کیسی گاڑیاں درکار ہوتی ہیں۔

خاص طو رپر گاڑی کے ٹائرز کا جمی ہوئی برف پر چلنے کے قابل ہونا ضروری ہے۔ یورپ میں دسمبر کے اوائل میں ہی لوگ گاڑیوں کے ٹائر بدل لیتے ہیں تاکہ برف اور طوفان میں بھی وہ چلتی رہیں۔ پاکستان میں برف باری دیکھنے کے شوقین سیاحوں کا تعلق زیادہ تر پنجاب کے خشک اور میدانی علاقوں سے ہوتا ہے یا پھر کراچی سے بڑی تعداد میں لوگ ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں ۔ خاص طور پر بچے اور عورتیں برف گرنے کے مناظر اپنے کیمرے اور ویڈیومیں محفوظ کرنے کے شوقین ہوتے ہیں ۔ نئے شادی شدہ جوڑے بھی برفانی علاقوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے کئی کئی ماہ انتظار کرتے ہیں۔

وسطی ایشیائی ممالک ، روس ، یورپ میں لاکھوں نہیں بلامبالغہ کروڑوں لوگ سردیوں میں تفریح مقامات کا رخ کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی اب یہ رواج چل پڑا ہے۔حالانکہ سرما کے ٹورازم کا کچھ برس پہلے تک ہمارے ہاں تصور بھی نہ تھا ۔ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ سیاح شمالی علاقوں میں تفریح کی غرض سے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے امراء جو کل تلک یورپ یا مشرق بعید کے علاقوں میں موسم گرما کی شدت سے بچنے کے لیے جاتے تھے ۔ اب کورونا وائرس کی بدولت ملک کے اندر ہی تفریح کرنے نکل پڑے ہیں ۔ اس ٹرینڈ کی وجہ سے بے شمار اعلیٰ معیار کی رہائش گاہیں اور ہوٹل پہاڑی علاقوں میں تعمیر ہوئے جو مہنگے ضرور ہیں لیکن بین الاقوامی معیار کی سروس فراہم کرتے ہیں۔

سکردو ایئر پورٹ میں توسیع اور اسے بین الاقوامی پروازوں کے لیے کھولنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ٹورسٹ کمپنیاں جو پہلے پاکستانیوں کو بیرون ملک سیر وتفریح کے پیکیجز پر لے جاتیں تھیں،اب وہ انہیں ملک کے اندر گھوما پھرارہی ہیں۔کراچی سے سکردو ائیر پورٹ پر اب براہ راست پروازیں اتر رہی ہیں جو اس خطے کا معاشی نقشہ بدل د یں گی۔وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ تین برسوں میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بہت سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ذاتی طورپر تفریح گاہیں متعارف کرائیں۔ پاکستانی کلچر، ثقافت اور تاریخی ورثے کی طرف دنیا کو متوجہ کیا ۔ خوبصورت علاقوں کو برانڈ بنا کر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔

بیرون ملک سے آنے والوں سیاحو ں کے لیے آمدورفت کی سہولتوں میں آسانی پیدا کی ۔ چنانچہ اب پاکستان میں بین الاقوامی کے علاوہ مقامی سیاحوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوچکا ہے ۔ اس طرح یہ صنعت پھل پھول رہی ہے۔
پاکستان میں جو بھی ٹرینڈ چلتاہے مخلوق خدا دیوانہ وار اس کے پیچھے دوڑتی ہے لیکن اس کے حوالے سے جو تکنیکی مہارت درکار ہوتی ہے،اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔ من مانے کرائے اور مہنگے داموں سروس فراہم کی جاتی ہے کیونکہ سرکاری ادارے ابھی تک پوری طرح اس انڈسٹری کو ریگولیٹ نہیں کرسکے۔ روایتی سستی کی شکار بیوروکریسی بعض اوقات اس ماحول سے خود بھی استفادہ کرتی ہے لہٰذا عمومی طور پرکوئی نظام بنانا ، اس پر عمل کرانا ان کے اپنے مفاد میں نہیں ہوتا۔
صوبائی حکومتوں کو سیاحت کی انڈسٹری کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاحوں اور ٹورسٹ آپریٹرز کو بھی تربیت فراہم کرنا ہوگی تاکہ وہ لوگوں کو ضروری رہنمائی فراہم کرسکیں۔سانحہ مری سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔

close