سات دہائیوں اور سات سال کے تعلق کا فیصلہ، بلوچستان کےحالیہ سیاسی بحران پر سینئر صحافی” شاہد رند “کا چونکا دینے والا تجزیہ

تین اکتوبر گزرگئی تاحال وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال اپنے مسند پر برقرار ہیں پہلے دن سے میرا یہ ماننا ہے کہ یہ مہم جام کمال کو نکالنے کی نہیں بلکہ قابو کرنے کی تھی اسکی وجوحات طویل ہیں اسے سمجھنے کیلئے ابتداء میں یہ سمجھنا ہوگا کہ جام خاندان کا تعلق وفاق پاکستان ،قیام پاکستان سے الحاق پاکستان اور تین نسلوں کا ہے۔

اسکے مقابلے میں جام کمال سے اختلاف رکھنے والے گروپ کے وفاق پاکستان سے اتنے دیرینہ تعلقات نہیں ہیں اور انکی کشتی میں سوار اکثریت بھی ابھی نئی وفاقی سیاست کی طرف مائل ہوئی ہے اسلئے جام کمال کو گھر بھیجنے کا پلان لئے ناراض اراکین کو سات دہائیوں اور سات سال کے تعلق کے فرق کو بھی سمجھنا ہوگا اس لئے جام کمال کی تبدیلی کا فیصلہ اتنا آسان نہیں ہے اور اگر ایسا کرنا ہوتا تو معاملہ اتنا طول نہ پکڑتا ایک ملاقات کے بعد جام کمال استعفٰی دیتے اور گھر چلے جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کوئی معائدہ قدوس بزنجو یا جام کمال کی درمیان ثالثوں کی موجودگی میں ہوا تھا یا نہیں ؟؟اگر ہوا تھا تو جام کمال اس پر عمل کیوں نہیں کررہے ہیں یا پھر ثالثین اس پر عمل کیوں نہیں کروارہے ہیں میری اطلاع کے مطابق جام کمال اور قدوس بزنجو کے درمیان ثالثین کی موجودگی میں جو مزاکرات ہوئے تھے وہاں اپوزیشن کی عدم اعتماد کو کامیاب نہ ہونے دینے پر دونوں فریقین کو آمادہ کیا گیا تھا اسکے بعد جام کمال کو ہدایت کی گئی تھی کہ پندرہ روز کے اندر اندر وہ ناراض اراکین کے تحفظات کو دور کرینگے تاہم ناراض اراکین اور چند حلقوں نے یہ تائثر پیش کیا کہ جام کمال کو مستعفٰی ہونے کیلئے تین اکتوبر کی ڈیڈی لائن ثالثین کی جانب سے دیدی گئی ہے بلکہ دعوٰی تو یہ بھی تھا کہ استعفٰی لکھوا کر ثالثین نے جام کمال سے لے لیا ہے اگر پندرہ روز میں وہ تحفظات دور نہ ہوئے تو یہ استعفٰی جمع کروادیا جائیگا لیکن اب تک کچھ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہاہے یہاں تک کہ ثالثین کی موجودگی میں ناراض اراکین نے جو تحفظات ظاہر کئے وہ بھی انتہائی دلچسپ سے تھے کسی کو ماضی کے وزراء اعلٰی کی طرح وزیر اعلٰی ایک کال پر دستیاب نہیں تھے تو کسی کو علاقے میں اپنی مرضی کے افسران درکار تھے کسی ناراض رکن نے ایسی بات نہیں کی جس پر ثالث سنجیدگی سے ایسا سوچتے کہ اب جام کمال کی تبدیلی ناگزیر ہے جسکے بعد ثالثین نے اپنی حتمی رپورٹ تیار کی جسکے نتیجے میں بحران کو ٹالنے کیلئے پندرہ روز کا وقت دیا گیا جسکے بعد وزیر اعلٰی بلوچستان نے اسلام آباد اور پنڈی کے دورے کئے اور وزیر اعظم عمران خان کو صورتحال سے آگاہ کیا اسلام آباد سے واپسی پر قدوس بزنجو کے چاچا کی فاتحہ پر حب پہنچے جہاں ناراض اراکین سے پہلی ملاقات ہوئی اسکے بعد کوئٹہ آکر وزیر اعلٰی نے بحران کو قابو کرنے کے اقدامات شروع کئے کیونکہ اسلام آباد اور گردونواح کے دورے پر ابتدائی گرین سگنل مل چکا تھا اسلئے کوئٹہ واپسی پر جام کمال نے ٹویٹ میں دعوٰی کیا ہے کہ انکی چھ کے قریب ناراض اراکین سے ملاقاتیں ہوئی ہیں تو پھر یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ناراض اراکین نے ابتداء میں جو فیصلہ لیا تھا کہ جام کمال سے کوئی بھی فرداً فرداً نہیں ملے گا وہ اس فیصلے پر کھڑے نہیں رہے اب یہ ملاقاتیں ہورہی ہیں تو اسکا مطلب ہوا کچھ برف پگھل رہی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ناراض اراکین اب یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ انہوں نے جام کمال سے ملاقات ضرور کی ہے تاہم معاملات ابھی جوں کہ توں ہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ناراض بھی ہیں اورملاقاتیں بھی کرہے ہیں اگر معاملات انکے لئے پوائنٹ آف نو ریٹرن پر ہیں تو ملاقاتیں کیوں ہو رہی ہیں اور ان ملاقاتوں میں یہ تاثر کیوں دیا جارہا ہے کہ جام صاحب بجائے ہمیں انفرادی طور پر منانے کے قدوس بزنجو کی سربراہی میں بیٹھ کر معاملات کو حل کریں تاکہ تمام دوست ایک ساتھ واپس ہوں دوسری جانب اطلاعات کے مطابق ناراض اراکین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر جام کمال بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر رہے تو چاہے وہ مفاہمت کریں یا نہ کریں انہیں جام کمال کے عتاب کا شکار ہونا پڑسکتا ہے جسکے بعد اعتماد کی بحالی کیلئے جام کمال نے آئندہ ماہ پارٹی انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے صدارت سے کنارہ کش ہونے کا ٹویٹ کیا تاکہ ناراض اراکین کا اعتماد بحال ہو اور معاملات کو آگے بڑھایا جائے تاہم ناراض اراکین نے دو روز قبل یہ عندیہ دیا کہ اگر جام کمال مستعفٰی نہیں ہوتے تو چند دنوں میں کچھ ناراض اراکین اپنی وزارتوں سے استعفٰی دینگے جیسے ہی یہ خبر سامنے آئی تو کچھ اراکین جو ناراض گروپ کا حصہ ہیں انہوں نے اسکی شدت کیساتھ مخالفت کی اسکا مطلب یہ ہوا کہ ابھی اس فیصلے پر اتفاق رائے نہیں ہوا اور اگر یہاں ناراض اراکین مشترکہ طور پر مستعفیٰ ہوتے ہیں تو یقینا یہ بحران مزید شدت اختیار کریگا لیکن اگر ناراض اراکین جن کی تعداد تقریباً پندرہ کے قریب ہے ان میں اگر ایک بھی وزیر یا مشیر نے استعفٰی دینے سے معزرت کرلی تو ناراض اراکین کی یکجہتی کو شدید دھچکا لگے گا ایک دھچکا اس سے پہلے لگ چکا ہے جب ناراض گروپ کے ایک رکن جنکا تعلق پشتون علاقے سے خود کو اس معاملے میں نیوٹرل کرچکے ہیں جسکے بعد اب ناراض اراکین کا گروپ اس رکن کو مشکوک تصور کررہا ہے اس صورتحال کے بعد ناراض اراکین کو یہ بھی خدشہ ہے کہ وزراء اور مشیروں کے استعفٰی کے معاملے پر اگر ایک اور رکن انکی صفوں سے باہر نکلا تو اسکا فائدہ جام کمال کو ہوگا دوسری جانب اسپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو کے پیغام رساں نے اس دوران اپوزیشن کی جماعت جمعیت علماء اسلام سے رابطے کئے جس پر جمعیت کے صوبائی امیر نے اس بار واضح کہا کہ پہلے وزارتیں چھوڑیں جام کمال کیخلاف حکومتی ناراض اراکین عدم اعتماد لائیں پھر بات ہوگی دوسری جانب اپوزیشن کی دوسری جماعت سردار اختر مینگل نے حب میں میڈیا کو بتایا کہ اگر جام کمال کیخلاف کوئی تحریک آئی تو دھکا دینے یا کھینچنے کیلئے تیار ہیں اس سے لگتا ہے کہ سترہ ستمبر کی عدم اعتماد کا معاملہ اب ٹھنڈا پڑ چکا ہے اب اپوزیشن دیکھ رہی ہے کہ جن ناراض اراکین نے انہیں عدم اعتماد لانے اور اسے کامیاب بنانے کی یقین دھانی کروائی تھی وہ خود بھی کنفیوژن سے دوچار ہیں اس لئے اس بار عجلت نہ دکھائی جائے تو بہتر ہے دوسری جانب وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال کوئٹہ میں ناراض اراکین کیساتھ ساتھ اتحادیوں سے بھی ملاقاتیں کررہے ہیں زرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے جام کمال کو واضح بتایا ہے کہ انہوں نے انہیںانتخاب کا ووٹ دیا تھا اور آخر تک ساتھ کھڑے رہینگے اگر بی اے پی کی اکثریت خود کوئی اقدام اٹھاتی ہے اور کوئی نیا امیدوار بطور وزیر اعلٰی لاتی ہے تو اس صورتحال کو دیکھ کر پاکستان تحریک انصاف فیصلہ کریگی اور اسکے لئے جو ہدایات پارٹی چئیرمین دینگے اس پر عمل ہوگا اسکا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف موجودہ صورتحال میں جام کمال کیخلاف نہیں ہے اس سیاسی بحران کے دوران چئرمین سینیٹ صادق سنجرانی دو روز ہ دورے پر دوسری بار کوئٹہ پہنچے تھے ابھی قدوس بزنجو سے ملاقات جاری تھی کہ انہیں واپس اسلام آباد بلا لیا گیا جاتے ہوئے وہ قدوس بزنجو کو بھی ہمراہ لے گئے بتایا جارہا تھا کہ قدوس بزنجو اسلام آباد سے کراچی جائینگے جہاں سے انہیں پیر کے روز حب میں اپنے چاچا کی فاتحہ کیلئے جانا ہے جہاں سردار اختر مینگل کی آمد متوقع تھی سردار اختر مینگل تو حب پہنچ گئے لیکن قدوس بزنجو کا اسلام آباد کا قیام کچھ طویل ہوگیا اور وہ حب نہیں پہنچے اب قدوس بزنجو کی اسلام آباد یاترا کے بعد کیا صورتحال پیدا ہوتی ہے اس پر سیاسی حلقوں کی گہری نظر ہے میری اطلاع کے مطابق اکتوبر کے ابتدائی دس دنوں تک جام آف لسبیلہ کے وفاق سے سات دھائیوں اور تین نسلوں کے تعلق کا فیصلہ ہوجائیگا ۔۔۔۔۔

close