انتخابات 2021، پی ٹی آئی کیوں نہیں؟تحریر: گلزار فاطمہ، جنرل سیکرٹری انصاف ویمن ونگ، آزاد کشمیر

قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں چند ماہ کاعرصہ باقی ہے۔پانچ سال کے بعد ہرحکمران جماعت کی طرح آزادکشمیر کی موجودہ حکمران جماعت کو اس شعر جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہےپیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے۔ حکمران جماعت کے لئے انتخابات میں شامل

ہونا کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا کیونکہ عوام حکومت کے دعوؤں اور وعدوں کی بجائے اسے گزرے ہوئے وقت کی کارکردگی کی میزان پر تولتے ہیں۔جناب وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے خود کو آزادکشمیر کا آخری وزیراعظم قرار دے کر آزاد علاقے کے سیاسی حلقوں میں ایک سراسیمگی پیدا کی تھی مگر یہ محض ایک خدشہ اور تاثر ہی ثابت ہوا اور اب آزادکشمیر کے عوام اور خطہ پرامن انتقال اقتدار کی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔جمہوری اصولوں کے عین مطابق اور آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 74 کے تفویض کردہ اختیارات کے تحت آزادکشمیر الیکشن کمیشن نے انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مندجماعتوں کی رجسٹریشن سمیت تمام ضروری کارروائی جا ری رکھی ہے۔سیاسی جماعتوں نے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے اپنی تنظیم نواور صف بندی کا عمل آہستہ روی سے جاری رکھا ہوا ہے۔پی ٹی آئی آزاد کشمیر نے بھی سال بھر سے گراس روٹ لیول تک تنظیم سازی کا عمل شروع کر رکھا ہے۔مدر باڈی کے علاوہ تمام شعبوں کے الگ ونگز کی مرکزی تنظیموں کے بعد ڈویژن،ضلع،تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر تنظیمیں تشکیل دی جا چکی ہیں۔خواتین،لیبر، ٹریڈر،لائر،یوتھ،آئی ایس ایف سمیت نچلی سطح تک تنظیمیں مکمل ہو چکی ہیں اور پرجوش عہدیدار آزادکشمیر کی رائے عامہ تک عمران خان کا دیانت،امانت،احتساب،ترقی اور

تبدیلی کا پیغام پہنچانے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔پارٹی کی منشور کمیٹی بہت سرعت کے ساتھ آزادکشمیر کے عوام بالخصوص نوجوانوں کے لئے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور ایک پرکشش منشور کی تیاری میں مصروف ہے۔2016کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی نے سب سے پہلے تحریری شکل میں ایک جامع منشور عوام کے سامنے پیش کیا تھاجس کی تیاری میں راقمہ نے بھی بطور ممبر منشور کمیٹی اپنا معمولی سا حصہ ڈالا۔پی ٹی آئی آزادکشمیر کے صدرجناب بیرسٹرسلطان محمود چوہدری اور سیکرٹری جنرل عبدالماجد خان دونوں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن ہیں،پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل دیوان غلام محی الدین بھی قانون ساز اسمبلی کے رکن ہیں۔اس طرح پی ٹی آئی اس وقت آزادکشمیر کی اہم پارلیمانی پارٹی ہے۔پی ٹی آئی دوسری مرتبہ پارلیمان کا حصہ ہے۔پارٹی کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری آزادکشمیر کے سابق وزیر اعظم،سابق قائد حزب اختلاف کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔1985سے آزادکشمیر کی پارلیمانی سیاست میں فعال ہیں۔پی ٹی آئی کے کارواں میں جہاں پرجوش نوجوان ہیں وہیں تجربہ کار اور سیاست کے نشیب وفراز کو دیکھنے والے سیاست دان بھی شامل ہیں جن میں سابق وزراء اور ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں۔یوں پی ٹی آئی جوش اور ہوش کا امتزاج ہے۔تنظیم منشور،پرجوش کارکن کسی بھی سیاسی جماعت کی انتخابی کامیابی کی

ضمانت ہوتے ہیں۔تنظیم اور کارکن پارٹی کے پیغام اور منشور کو عوام تک پہنچاتے ہیں اگر کامیابی کے یہی لوازم ہیں تو پی ٹی آئی پورے اعتماد کے ساتھ انتخابی میدان میں اُتر رہی ہے۔ہر سیاسی جماعت کی طرح پی ٹی آئی میں انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی لمبی قطار موجود ہے۔ہر حلقے میں کئی کئی امیدوار ہیں اور یہ پارٹی کے انتشار کو نہیں مقبولیت کو ظاہر کر رہی ہے۔سیاسی جماعتوں میں خود کو امیدوار ظاہر کرنے اور قیادت کے سامنے پیش کرنے کا حق ہوتا ہے۔پارٹی کا قائم کردہ پارلیمانی بورڈ ان امیدواروں کوسنتا ہے۔کامیابی کے امکانات کا جائزہ لیتا ہے۔امیدواروں کے دعوؤں کو آزاد ذرائع کی رپورٹس کی چھلنی پر چھانتا ہے اور اس کے بعد ٹکٹ جاری کرتا ہے۔ٹکٹ ملنے کے بعد سب کارکن پارٹی ڈسپلن کے تحت امیدوار کی حمایت کے پابند ہوتے ہیں۔جو پارٹی لائن سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرے پارٹی اس کے خلاف تادیبی کارروائی کا حق رکھتی ہے۔اس بار پی ٹی آئی آزادکشمیر کو اس روایتی نفسیاتی تاثر کا فطری فائدہ حاصل ہو رہا ہے جس سے تاریخ کے ہر دور میں آزادکشمیر کی قد آور سیاسی شخصیات اور سیاسی جماعتوں نے فائدہ حاصل کیا۔اس تاثر کی حوصلہ افزائی بھی ماضی کی قیادت کی جانب سے ہوتی رہی اور اب یہ آزادکشمیر کی سیاست اور ووٹر کا مزاج بن گیا ہے۔آزادکشمیر کا ووٹر اسلام آباد کے موافق حکومت کے قیام کے حق میں اپنا

فیصلہ سناتا رہا ہے۔ آزادکشمیر کابالغ نظر اور باشعور ووٹر اسلام آباد کے بادنما پر نظریں جمائے رکھتاہے کیونکہ اسے اندازہ ہوتا ہے کہ مظفرآباد میں اسلام آباد کے مخالف حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔ایسی حکومت وفاق کے ساتھ کھٹ پٹ میں ہی وقت گزار دے گی۔اس لئے آزادکشمیر کے عوام اسلام آباد کے بادنما کے پیغامات کو سیاسی طور پر قبول کرتے ہیں۔ماضی میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی جب مظفرآباد کی حکومت اسلام آباد میں قائم کسی بھی حکومت کی سوچ کے برعکس قائم ہوئی ہو۔ 1985کے پہلے پارلیمانی انتخابات میں مسلم کانفرنس نے کامیاب ہو کر حکومت بنائی اس وقت اسلام آباد میں مسلم لیگ کی حکومت قائم تھی اور مسلم کانفرنس کو آزادکشمیر میں مسلم لیگ کا کشمیری ایڈیشن کہا جاتا تھا۔ آزادکشمیر کے انتخابات سے پہلے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے مرشد پیر صاحب آف پگارہ شریف خصوصی طور پر مسلم کانفرنس کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شریک ہوکر مستقبل کی سیاست کا نقشہ واضح کر گئے تھے۔انتخابات میں اس وقت کے وزیر امور کشمیر سید قاسم شاہ کی دلچسپی اور سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں ان انتخابات میں سردار سکندر حیات خان صاحب وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ 1990میں آزادکشمیر میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور جناب ممتاز حسین راٹھور وزیر اعظم منتخب ہوئے۔اس وقت اسلام آباد میں

محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان تھیں اور حنیف خان وزیر امور کشمیر کے طور پر نمایاں تھے۔آزادکشمیر حکومت کے قیام کے نو ماہ بعد ہی اسلام آباد میں محترمہ بے نظیر بھٹو حکومت برطرف کردی گئی اورنئے انتخابات میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی۔میاں نواز شریف اس وقت پیپلزپارٹی کے خلاف تھے اور انہیں آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت گوار ا نہیں تھی انہوں نے وزیر امور کشمیر مہتاب عباسی کی قیادت میں مختلف طریقوں سے جناب راٹھور کو اسمبلی توڑنے پر مجبور کیا اور نو ماہ بعد ہی 1991کے انتخابات میں مسلم کانفرنس کامیاب ہوئی اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان وزیر اعظم منتخب ہوئے۔1996کے انتخابات میں آزادکشمیر میں اس وقت پیپلزپارٹی کامیاب ہوئی جب اسلام آباد میں ایک بار پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم تھی۔اس حکومت کے وزیر اعظم جناب بیرسٹر سلطان محمود چوہدری منتخب ہوئے۔2001میں آزادکشمیر کے انتخابات ہوئے اس وقت اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔آزادکشمیر میں دو جماعتی نظام تھا۔پرویزمشرف پیپلزپارٹی کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے اور یوں ان کی چوائس ریاستی جماعت مسلم کانفرنس ہی بنی۔ ان انتخابات کے بعد سردارسکندر حیات خان صاحب وزیر اعظم بنے۔2006کے انتخابات میں آزادکشمیر کے عوام کووفاقی حکومت کی آزادکشمیر میں دلچسپی کا بخوبی

اندازہ ہوا۔اس تاثر کے مضبوط ہونے میں اگر کوئی کمی تھی بھی تو ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے ہاتھوں سے مسلم کانفرنس کے امیدواروں نے قطار اندر قطار ٹکٹ وصول کرکے یہ کمی دور کر دی۔اس وقت کی مسلم کانفرنس کا مطلب آج کی مسلم لیگ ن ہے کیونکہ چند برس بعد ہی نوے فیصد مسلم کانفرنس مسلم لیگ ن میں ڈھل گئی۔اس وقت کسی بھی مردِ حر نے کھڑے ہوکر ریاستی تشخص اور اسلام آباد کی مداخلت پر احتجاج کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین سے ٹکٹ لینے سے انکار کی جرات نہیں دکھائی۔2011کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی اور چوہدری مجید وزیر اعظم منتخب ہوئے۔اس وقت اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے۔آزادکشمیر کے عوام نے وفاق کے موافق فیصلہ دینے کا اپنا ریکارڈ برقر اررکھا۔2016میں نوزائیدہ مسلم لیگ ن نے اپنے قیام کے بعد دوسرے ہی الیکشن میں اس وقت کامیابی حاصل کی جب اسلام آباد میں مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کی حکومت تھی۔وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر اور آصف کرمانی مسلم لیگ ن کی پالیسی سازی اور حکمت کاری کی ذمہ د اری نبھاتے رہے۔ٹی وی پر بیٹھ کر گھنٹوں آزادکشمیر کے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے رہے۔انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے رہے۔اس سے آزادکشمیر کے عوام کو وفاق کی پسند وناپسند کا سبق ازبر ہوا اور

انہوں نے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو کامیاب بنایا اور جناب راجہ فاروق حیدر خان وزیر اعظم منتخب ہوئے۔اب ماضی کے قد آور قائدین اور جماعتوں کی طرف سے مضبوط کئے گئے نفسیاتی تاثر کا فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچنے لگا ہے تو اس کو ڈرامہ اور مداخلت قر ار دیا جارہا ہے۔جس طرح مسلم لیگ نے دوسرے الیکشن میں ہی حکومت بنائی اسی طرح آمدہ الیکشن پی ٹی آئی کا دوسرا الیکشن ہے۔ آزادکشمیر کے عوام میں عمران خان اورپی ٹی آئی کا پیغام تیزی سے مقبولیت حاصل کررہا ہے۔دوسرے ملکوںکےْْ انوکھے لاڈلوںٗٗ کی ناراضگی اور فرمائشوں کا مقدمہ اپنی سڑکوں پر لڑنے کی خاطر بنایا گیا سیاسی اتحاد پی ڈی ایم چراغ سحر بن کر ٹمٹما رہا ہے۔عمران خان نے پاکستان کو ایک پیراسائٹ اور باجگزار ریاست کی بجائے ایک آزاد اور باوقار اسلامی ملک بنانے کا مشکل اور طویل راستہ اپنایا ہے۔دوسری سیاسی جماعتوں کے نیک نام اور فعال سیاسی کارکن اور راہنما تیزی سے پی ٹی آئی کے قافلے میں شامل ہو رہے ہیں۔پی ٹی آئی کو انتخابات میں کسی عملی مداخلت اور حمایت کی ضرورت نہیں۔پارٹی یہ انتخاب اپنے زور باز و پر لڑے گی۔تنظیمی تعلق کی بنا پر انتخابی اورسیاسی مشاورت پی ٹی آئی کی مرکزی اور آزادکشمیر کی قیادت کا حق ہے۔ اس مشاورت پر مبنی کسی تصویر اور سیاسی سرگرمی سے اگر ماضی کی روایات اور آزادکشمیر کے سیاسی کلچر کے مطابق پی ٹی آئی

کو سیاسی فائدہ پہنچ رہاہے اور آزادکشمیر کا ووٹر اور فعال سیاسی کارکن اس جانب متوجہ ہو رہا ہے تو اس حقیقت کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اسے کھلے دل سے تسلیم کرلینا ہی بہتر ہے۔ اس پر فقط یہی کہا جا سکتا ہے کہتمھاری زُلف میں پہنچی تو حُسن کہلائیوہ تیرگی جو میرے نامہ ئ سیاہ میں ہےتحریک آزادی کا موجودہ فیز 1988سے جاری ہے۔اس عرصے میں اسلام آباد اور مظفرآباد میں آٹھ حکومتیں اور درجن بھر چہرے منظر پر اُبھرتے ڈوبتے رہے مگر تحریک آزادی اپنی پوری قوت اور رفتار سے جاری رہی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ داخلی تحریک ہے اور اس کی قوت اور توانائی کا راز سات سو مزار شہدا میں آسودہ ئ خاک وہ نوجوان ہیں جنہوں نے مقتل کی رونقوں اور بھیڑ کو کبھی کم نہیں ہونے دیا۔آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت سے انشاء اللہ اس تحریک کو مہمیز ہی ملے گی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ عمران خان وہ حکمران ہیں جنہوں نے کشمیر پر ساتھ نہ دینے پر معاشی نقصان کی پروا کئے بغیر اپنا راستہ اپنایا۔۔۔۔

close