برمنگھم سے پی این آئی کے نمائندہ خصوصی خادم حسین شاہین کی فکرانگیز تحریر، آخری حصہ

برطانیہ میں تحریک آزادی کشمیر کا یہ تیسرا اور آخری حصہ ہے ج جو پہلے دو حصوں سے کچھ طویل ہے کیونکہ اب بات سمیٹنے کا مرحلہ ہے، تو بات کا سلسلہ وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں اسے چھوڑا تھا، اس وقت برطانیہ میں 14سے 15 لاکھ پاکستانی اور کشمیر ی آباد ہیں جن میں سے زیادہ تعداد کشمیریوں کی ہے۔

کشمیریوں کی تعداد زیادہ کیوں ہےاس کی دو وجوہات ہیں ۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت برطانیہ میں مزدوروں کی سخت کمی تھی۔کیونکہ انگریز مردوں کی ایک بڑی تعداد جنگو ں میں کام آچُکی تھی ۔افرادی قوت کی کمی پوری کرنے کے لئے برطانوی حکومت نے دولت مشترکہ کے کچھ ممالک میں ٹریننگ سینٹر کھولے تاکہ لوگ تربیت حاصل کر کے برطانیہ میں آ سکیں ۔اس وقت ویزا کی ضرورت نہیں تھی ۔جس کے پاس پاسپورٹ ہو اسے کسی روک ٹوک کے بغیر برطانیہ آنے کی اجازت تھی۔جبکہ دوسری وجہ متاثرین منگلاڈیم کی ایک سمجھوتے کے تحت برطانیہ میں آمد ہے۔تاہم میرپور کے لوگ قیام پاکستان سے پہلے سے برطانیہ میں مقیم تھے جن میں نمایاں شخصیات میں سے چوہدری زمان علی (ستارہ امتیاز پاکستان )تھے ۔جو ایک سچے محب وطن تھے ۔جنہوں نے اپنے ہم وطنوں کی اعانت سے حکومت پاکستان کو ایمبولنس کا تحفہ دیا ۔یہ تحفہ جنرل برکی نے وصول کیا۔جنرل برکی نے چوہدری زمان علی کی اس حب الوطنی کی تعریف کی اور حکومت پاکستان کی طرف سے مدد کی پیش کش کی ،چوہدری زمان علی نے ذاتی مدد لینے سے انکار کر دیا۔لیکن میرپور کے غریب اور متاثرین منگلا ڈیم کی فلاح و بہبود کی طرف حکومت پاکستان کی توجہ دلوائی ۔چنانچہ حب الوطنی کے صلہ میں حکومت پاکستان نے چوہدری زمان علی کو پانچ سو پاسپورٹ حاصل کرنے کی اجازت دی۔چوہدری زمان علی خود پاکستان گئے اوراپنے علاقے کے غریب لوگوں کو بلا امتیاز ذات و نسل پاسپورٹ بنوا کر برطانیہ پہنچا دیا۔بلکہ بعض غریب لوگوں کا خرچہ بھی اپنی جیب سے ادا کیا ۔چونکہ ہمارا یہ موضوع نہیں ہے ورنہ ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ بر طانیہ میں آباد کشمیری اور پاکستانی لوگوں نے ایسے ایسے کارنامے سرانجام دئیےہیں کہ جس سے کشمیریوں اور پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہے۔سب سے زیادہ پاکستانی لندن میں آباد ہیں جو برطانیہ کا دارالخلافہ ہےاور تقریباً دولاکھ برمنگھم میں آباد ہیں جو کہ برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔دیگر شہروں میں بریڈ فورڈ ،لیڈز،شیفیلڈ ،رادھرم ،اولڈہم اور مانچسٹر وغیرہ شامل ہیں جو اپنے اپنے شہروں میں ہر سطح پر اپنے کشمیری بہن بھائیوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں ۔برطانیہ میں آبادکشمیریوں اور پاکستانیوں کے کئی تاریخ ساز کارنامے ہیں جن کی وجہ سے ہر کشمیری اورپاکستانی کاسر فخر سے بلند ہے۔

قاضی حسین احمد، سید علی گیلانی

بلا شبہ آج کشمیری قیادت اسی جوش و جذبے کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں جس کا اظہار تحریک آزادی کے علمبرداروں بشمول سید علی گیلانی اور قاضی حسین احمد نے کیا ۔سید علی گیلانی کے کشمیری حریت پسندوں کو فکری رہنمائے فراہم کی جبکہ قاضی حسین احمد کے وژن نے 5 فروری یوم یکجہتی کے دن کی ایک ایسی روایت قائم کی جس نے کشمیر کی تحریک کو زندہ کر دیا

مولانا بوستان قادری اور چوہدری محمد عظیم کی ایک یادگار تصویر

اس وقت برطانیہ میں تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے جو شخصیات یا جماعتیں سب سے زیادہ متحرک ہیں ان میں ایک نام چوہدری محمد عظیم کا ہے جو کل جماعتی بین الاقوامی کشمیر کمیٹی کے چئیرمین کی حیثیت سے اپنے دیرینہ ساتھیوں اور نوجوان قیادت سمیت ایک بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔چوہدری محمد عظیم آزاد کشمیر کے ضلع میرپور کے ایک نواحی گاوں تھب میں پیدا ہوئے ۔ چوہدری عظیم صاحب بتاتے ہیں کہ آزادی سے قبل ان کے والد (چوہدری محمد حسین ) برٹش آرمی میں تھے۔چوہدری عظیم صاحب 1961 میں انگریزوں کے دیس میں تشریف لائے اور تب سے لے کر اب تک برطانیہ میں ہر فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔چوہدری عظیم صاحب بتا رہے تھے کہ انہوں نے مقامی سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا اور 25 برس تک لیبر پارٹی کے ممبر رہے اور کشمیر کی آزادی کے سلسلہ میں برطانیہ کے سابق پرائم منسٹر مسٹر ٹونی بلیئر سے بھی رابطے میں رہے۔اور موجودہ قیادت سے بھی رابطے میں ہیں ۔چوہدری صاحب نے بتایا کہ انہوں نے 23 برس تک ایک فیکٹری میں کام کیا اور اپنا کاروبار بھی کیا مگر تحریک آزادی کشمیر کو ہمیشہ مقدم جانا۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کی خاطر اپنے کاروبار کو خیرآباد کہہ دیا اور جز وقتی کی بجائے کل وقتی اپنی کمیونٹی کی خدمت شروع کر دی اور بیک وقت کئی تنظیموں کی قیادت کی یا ان کے اہم ممبر رہے اور اب بھی ہیں ۔

الحاج مولانا محمد بوستان القادری چوہدری عظیم کے دیرینہ ساتھیوں میں سے ایک تاریخ ساز اور ہمہ جہت شخصیت ہیں ۔دیار مغرب کے ظلمت کدہ میں نور اسلام کی کرنیں پھیلانے والی شخصیات میں ایک نمایاں اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی حقیقی معنوں میں ترویج وتوقیراسلام کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ان خیالات کا اظہار ان کے جانشین اور فرزند ارجمند صاحبزادہ فاروق احمد القادری صاحب جو کل جماعتی بین الاقوامی کشمیر کمیٹی کے بانی اراکین میں سے ہیںنے ایک غیر رسمی گفتگو کے دوران کیا۔ مولانا بوستان قادری کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع میرپور کے مشہور قصبہ چکسواری سے ہے۔ان کاگھرانہ گزشتہ تین صدیوں سے دین حق کی تبلیغ و ترویج میں مصروف ہے۔مولانا بوستان القادری گزشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصہ برطانیہ میں مقیم رہے اور تا دم آخریں دینی مذہبی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے دور میں مشیر مذہبی امور بھی رہے ان کے خیال میں یگانگت اور بھائی چارے کی جو فضا برمنگھم میں موجود ہے وہ برطانیہ کے کسی دوسرے شہر میں موجود نہیں۔برمنگھم اور اس کے قرب و جوار میں دو سو کے لگ بھگ مساجد ہیں صرف برمنگھم میں ایک سو سے زائد مساجد ہیں ان میں دیو بندی بریلوی اہل حدیث اور اہل تشیعہ حضرات بھی شامل ہیں ۔

لارڈ نذیر احمد

لارڈ نذیراحمد آزاد جموں و کشمیر کے ضلع میرپور میں پیدا ہوئے ۔چھ برس کی عمر میں والدین کے ساتھ برطانیہ آئے۔برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز میں 1998 سے تا حیات ممبر ہیں ۔برطانیہ کے سابق وزیر اعظم منسٹر مسٹر ٹونی بلیئرنے اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے ان کو منتخب کیا ۔لارڈ نذیراحمد1990سے برطانیہ کی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔انہوں نے صرف 81 برس کی عمر میں 1975 میں برطانیہ کی لیبر پارٹی جوائن کر لی تھی۔یہ اپنے دور میں رادھرم کے پہلے ایشین کونسلر اور کم عمر ترین ٹاون میجسٹریٹ تھے۔لارڈ نذیر احمد برٹش پارلیمنٹ میں کشمیر کے حوالے سے سب سے متحرک جانے جاتے ہیں ان کا دعوی ہے کہ برطانیہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ ان کی کوششوں سے فلور آف دی ہاؤس میں کشمیر کا مسلہ زیر بحث لایا گیا۔

لارڈ قربان حسین

لارڈ قربان حسین آزاد جموں و کشمیرکے ضلع کوٹلی میں پیدا ہوئے۔برطانیہ کے شہر لوٹن میں اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔یہ پہلے 1996 سے لے کر 2003تک لیبر پارٹی کے ممبر رہے اور پھر2003میں عراق پر حملے کی وجہ سے لیبر پارٹی کو چھوڑ کر لبرل ڈیموکریٹ میں شامل ہوگئے۔اورپھر 2015 میں لبرل ڈیموکریٹ سے بھی بوجوہ علیحدگی اختیار کر لی۔

کونسلر محمد عجیب

کونسلرمحمد عجیب پہلے ایشیائی مسلمان ہیں جنہیں 1985 میں بریڈ فورڈ کا لارڈ میئر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔کونسلر محمد عجیب کا تعلق آزاد کشمیر کے مشہور ضلع میرپور کے ایک مضافاتی گاوں چھتروع سے ہے۔

محمد غالب

برطانیہ میں تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ کا تذکرہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک تحریک کشمیر یورپ کےصدر محمد غالب اور تحریک کشمیر برطانیہ کے صدر فہیم کیانی کا ذکر نہ ہو ۔ہر دو شخصیات کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع میرپور کی تحصیل ڈدیال سے ہے اور دونوں ہی شخصیات انتہائی متحرک ہیں، صرف برطانیہ میں ہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں مسئلہ کشمیر کو مختلف سیمینارزاور ریلیوں کی صورت میں اجاگر کر رہے ہیں اور برطانیہ اور یورپ کی پارلیمنٹس میں ہی نہیں بلکہ سڑکوں پر بھی بھارت کا ناک میں دم کر رکھا ہے بالخصوص 5 اگست 2019 کے بعد یہ دونوں شخصیات برطانیہ اور یورپ کے گلی کوچوں میں چوبیس گھنٹے ساتوں دن کئی کئی میل پیدل چل کر کشمیری قیادت اور عام لوگوں تک مقبوضہ کشمیر کے مظلوم بھائی بھینوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کا پیغام پورے جوش اور جذبے کے ساتھ پہنچا رہے ہیں اور ان کو متحرک کر رہے ہیں اوربالخصوص نوجوان نسل تک کشمیر کی جدوجہد آزادی کا پیغام پہنچا رہے ہیںکیونکہ آج کا نوجوان انٹر نیشنل کمیونٹی کو انتہائی موثر انداز میں اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے ۔وہ چاہے برطانیہ اور یورپ کی الیکشن کمپین کی صورت میں ہویا الیکشن جیت کر برطانیہ اور یورپ کی پارلیمنٹ کا حصہ بننے کی صورت میں ہو ۔حالیہ دنوں میں برطانیہ کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ساتھ پچاس ممبرز آف پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے فلور پر کشمیر کے مسئلے پر بحث کی اور ان کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور اس کی کھل کر حمایت کی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق دینے کی بات کی ۔مگر بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی ہے کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔تحریک کشمیر یورپ کے صدر محمد غالب کا یہ کہنا ہے کہ آج سے تیس برس قبل تک تحریک آزادی کشمیر ایک پرامن تحریک تھی مگر 21 جنوری 1990 کے واقعہ کے بعد جس میں ہندوستانی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے 70 کے قریب معصوم شہریوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کردیاتھا اس دن کے بعد اس تحریک میں شدت آ گئی ہے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب مظلوم کشمیری پاکستان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ کوئی ان کی مدد کے لئے پہنچے۔محمد غالب نے کہا کہ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔یہی وجہ ہے کہ 1990 کے اس اندوہناک واقعہ کے بعد قاضی حسین احمد مرحوم نے 5 فروری کو یوم یک جہتی کشمیر کا اعلان کیا جو کہ اب ہر سال حکومتی سطح پر بھی منایا جاتا ہے اور عوامی سطح پر بھی۔جس سے نہ صرف مقبوضہ کشمیر کے مظلوم لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ سفارتی اور سیاسی محاظ پر بھی مسلئہ کشمیر کو اجاگر کیا جاتا ہے۔محمد غالب 1966 میں برطانیہ آئے،1970تک برطانیہ میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور اسی سال ویسٹ مڈلینڈ ٹرانسپورٹ میں ملازمت اختیار کر لی۔1975میں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز برطانیہ کی کیمونسٹ پارٹی میں شمولیت سے کیااور8 برس تک اس کے ممبر رہے۔محمد غالب کیمونزم سے بےحد متاثر ہیں ۔سید ابوالاعلی مودودی سمیت کئی مسلم رائٹرز کی کتابیں پڑ ھیں اور یہ سیکھا کہ صرف اسلام ہی مساوات اور انصاف پر مبنی نظام پیش کرتا ہے ۔اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سے راہنمائی حاصل کی اور اسلامک کمیونزم سسٹم کو سمجھا۔1981 میں پاکستان گئے تو محسوس کیا کہ دنیا کے ایک بڑے حصہ پر مسلمان حکمران ہیں لیکن حیرت ہے کہ کہیں بھی یہ سسٹم لاگو نہیں ہے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نےکہاکہ 1984 میں مقبوضہ کشمیر کے ایڈووکیٹ حسام الدین سے ملاقات کے دوران محسوس کیا کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے برطانیہ میں اجتماعی کام کی اشد ضرورت ہے ۔چنانچہ ایڈووکیٹ حسام الدین اور سید منور حسین مشہدی سے مشاورت کے بعد 1985 میں کشمیر موومنٹ کا آغاز کیا اور تحریک کشمیر برطانیہ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کے پہلے صدر سید منور حسین مشہدی تھے۔تحریک کشمیر برطانیہ نے 1986 میں برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ایک انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں تمام کشمیری تنظیموں نے آزاد کشمیر سمیت امریکہ ،یورپ،مڈل ایسٹ اور دنیا کے بیشتر حصوں سے کشمیری قیادت نے حصہ لیا لیکن ہندوستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر سے کسی کو شمولیت کی اجازت نہ مل سکی۔اس کانفرنس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ آل پارٹیز انٹرنیشنل کشمیر کوآرڈینیٹنگ کمیٹی عمل میں لائی جائے جس میں تمام مذہبی اور سیاسی تنظیموں کو جو برطانیہ میں کشمیر کازکے لئے کام کر رہی ہیں ایک پلیٹ پر جمع کیا جائے۔محمد غالب نے کہا کہ تب انہوں نے ایک ورکر کی حیثیت سے تحریک کشمیر کے ساتھ کام کیا ۔بعد میں نائب صدر خزانچی اور جنرل سیکریٹری کی حیثیت میں بھی کام کیا۔ صدر تحریک کشمیر سید منور حسین مشہدی کی علالت کے باعث مجلس شوری نے انہیں صدر نامزد کیا اور 1999 میں وہ تحریک کشمیر برطانیہ کے صدر منتخب ہوئے۔آج کل وہ صدر تحریک کشمیر یورپ ہیں۔

فہیم کیانی

تحریک کشمیر برطانیہ کی صدارت نوجوان قیادت راجہ فہیم کیانی کے سپرد ہے۔ہر دو شخصیات نے کشمیر کازکے لئے اپنا دن رات ایک کر رکھا ہے۔جس کا اعتراف مقبوضہ کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی بھی اپنے ایک انٹرویو میں کر چکے ہیں ۔اس تنظیم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ برطانیہ اور یورپ میں مسئلہ کشمیر کو ہر سطح پر اجاگر کیا ہے۔برطانیہ اور یورپ کی پارلیمنٹ سے لے کر عام پبلک تک مسلہ کشمیر کے متعلق اہم معلومات بہم پہنچائی ہیں جو کہ ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے اور اس میں تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا ساتھ شامل ہے ۔صرف پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کو ہی نہیں دوسری کمیونٹیوں کو بھی اس موبلائزیشن میں شامل کیا ہے بالخصوص برٹش اور سکھ کمیونٹی ہر ریلی میں تحریک کشمیر برطانیہ کے ساتھ شامل ہے اور کشمیر کی آزادی کے لئے آواز اٹھا رہی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر برطانیہ کے صدر فہیم کیانی کا کہنا ہے کہ5891 میں تحریک کے قیام کا مقصد سیاسی و مسلک کی سرگرمیوں سے بالا تر ہو کر کشمیر کی آزادی و خود مختاری کے لیے کام کرنا ہے، اس کا قیام مقبوضہ، آزاد کشمیر کی قیادت کے اتفاق رائے سے عمل میں لایا گیا۔ مقبوضہ کشمیر سے سید حسام الدین شہید نے اس میں اہم کردار ادا کیا، تحریک کشمیر کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر وہ شخص بلا تمیز رنگ و نسل و مذہب اس تحریک کا رکن یا صدر بن سکتا ہے جو کشمیر یوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتا ہو ، یہ تمام کشمیری تنظیموں اور جماعتوں کی نمائندہ جماعت ہے، فہیم کیانی کا کہنا ہے کہ برطانیہ سمیت یورپ کے تمام ملکوں میں تحریک کشمیر جلسے، جلوس، کانفرنس اور سیمینارز کے ذریعے کشمیر کاز کو آگے بڑھاتی ہے،یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ 27 سالوں میں بھارت کی تمام تر سفارتی کوششوں کے باوجود ایک بھی ملک ایسانہیں ہے جو یہ کہہ دے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، یہ ہماری کامیابی ہے، سمندر پار مقیم کشمیریوں میں کشمیر کاز کی اگہی کے حوالے سے فہیم کیانی کا کہنا تھا کہ 5 اگست 9102 کو نریندر مودی سرکار نے بھارت کے آئین میں کشمیر کے حوالے سے خصوصی آرٹیکل 073 اے کو ختم کیا تو 9 اگست کو برطانیہ کے دوسرے بڑے شہر میں تاریخی احتجاج ہوا اور پھر 51 اگست کو بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہوئے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر مودی سرکار کے خلاف تاریخی احتجاج کیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ یورپ کا کوئی ایسا شہر نہیں تھا جہاں احتجاج نہ کیا گیا ہو، 3 ستمبر کو برطانوی پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہوا تو 02 ارکان پارلیمنٹ نے سوالات پوچھے، ان 02 میں سے 51 ارکان پارلیمنٹ کے سوالات کشمیر کے بارے میں تھے جس پر برطانوی وزیر خارجہ کو کشمیر پر بات کرنا پڑی،اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور کینیڈا میں بھی ہماری ساتھی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں اور ہم سب کا مقصد تحریک کشمیر کو آگے بڑہانا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب بھارت کو کشمیریوں کا حق تسلیم کرنا پڑے گا ۔۔۔

close