ایوبی آمریت کے خلاف جدوجہد
ایوب خان کی حکومت کی گرفت جنگ 1965ء کے بعد آہستہ آہستہ کمزور ہونی شروع ہوگئی اور جب بھٹو عوام میں پاپولر راہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تو انہوں نے بوسیدہ نظام کی حقیقت کو بھی بے نقاب کردیا لیکن جیسے کوئی مریض بیمار ہو تو وہ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے بالکل ٹھیک ہوجاتا ہے اسی طرح ایوب حکومت نے اپنی بقا کے لیے طاقت کے مختلف حربے استعمال کرکے اپنی حکومت کی ’’زندگی اور مضبوطی‘‘ کی نام نہاد نوید سنانے کی کوششیں کی۔ اگلے صدارتی انتخابات 1969ء کے آخر میں پروگرام کے مطابق منعقد ہونے تھے لیکن ملک کی کشیدہ سیاسی صورتحال نے مجوزہ صدارتی انتخابات جو Basic Democracy کے نظام کے تحت منعقد ہونے تھے ان کے انعقاد کو ہر گزرتے دن کے ساتھ شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔
ایوب خان غیرمقبول ہی نہیں بلکہ عوامی نفرت کا نشانہ بن چکا تھا۔ ایوب کے بیٹے گوہر ایوب جس کو فوج سے ریٹائرڈ کروا کر سیاست میں داخل کروایا گیا تھا‘ کی بدعنوانیاں ملک بھر میں گونج رہی تھیں۔ اسی طرح گوہرایوب کے سسر جنرل حبیب اللہ کے کاروباری مفادات کے چرچے بھی عام تھے۔ ان واقعات نے ایوب کے خلاف ایک فضا قائم کردی اور عوام اب تبدیلی چاہتے تھے۔ دولت سکڑ کر چند خاندانوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوچکی تھی جیسا کہ حکومت کے چیف اکانومسٹ برائے پلاننگ کمیشن ڈاکٹر محبوب الحق نے 1968ء میں یہ حقیقت بے نقاب کی کہ ملک کے 80 فیصد صنعتی سرمائے اور 97 فیصد بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کے سرمائے پر صرف 22 خاندانوں کا قبضہ ہے۔
ان اطلاعات پر عوام میں ایوب حکومت کے خاتمے کا مطالبہ شدت اختیار کرتا چلا جارہا تھا جبکہ حکومت اپنی ’’دس سالہ ترقی‘‘ کا جشن منا رہی تھی اس کو وہ اکتوبر انقلاب (1958ء کی فوجی بغاوت) قرار دے رہی تھی۔ایوبی حکومت نے اپنے دس سالہ ترقی کا جشن منانے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں ایک ٹرین پورے ملک میں چلائی گئی، مگر Decade of Development کی یہ ٹرین جس بھی شہر گئی مشتعل طلبہ نے اس کو توڑ دیا۔ ملک بھر میں بغاوت کی چنگاریاں زور پکڑنے لگیں۔ صدارتی نظام، بنیادی جمہوریت، ون یونٹ اور امریکہ نوازی کے خلاف عوام ،دانشور اور سیاسی حلقے بیدار ہوچکے تھے۔ پاکستان میں ایک انقلاب جنم لے چکا تھا۔ آزادیٔ پاکستان کی تحریک کے بعد یہ بڑی عوامی بیداری کی لہر تھی۔ چندسال بعد 1979ء میں پڑوسی ملک ایران میں جو انقلاب پھوٹا وہ پاکستان کی اس عوامی تحریک جیسا ہی ایک عوامی ردِعمل تھا اور یہ سیاسی بیداری کسی طرح بھی ایک قبل از انقلاب کی صورتحال سے مختلف نہ تھی۔
مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن ایک مقبول اور قوم پرست راہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آچکے تھے۔ مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی مشرقی پاکستان میں روز بروز عوام میں اپنا اثر کم کرتی چلی جارہی تھی۔ مشرقی پاکستان کے عوام قومی سوال پر مغربی پاکستان کے خلاف رائے بنا رہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن کا چھ نکاتی پروگرام مشرقی پاکستان کے لوگوں کے نزدیک راہِ نجات تصور کیا جانے لگا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کو بھارتی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر اگرتلہ سازش کے الزام میں گرفتار کرکے ایوب حکومت نے پابندِ سلاسل کردیا تھا جو کہ مجیب کے مؤقف کو مضبوط اور درست ثابت کرنے کی ایک احمقانہ حکمت تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات پاکستان کے مغربی حصے میں علیحدگی کی بنیاد سمجھے گئے۔ اسی لیے وہ مغربی پاکستان میں سیاسی مقبولیت حاصل نہ کرسکے جبکہ مشرقی پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو کوئی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے حالانکہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں اپنی پارٹی کی تنظیم کی کوششیں کی تھیں۔
پاکستان میں پہلی عوامی تحریک (Mass Movement)طلبا کے ایک جلوس سے پھوٹی۔ عوامی تحریک کا پہلا مورچہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے چند میل دو راولپنڈی میں لگا۔ پی پی پی کی تشکیل کے ایک سال بعد عوامی لاوا پھوٹ پڑا۔ جب ذوالفقارعلی بھٹو پارٹی کے بانی ساتھی حیات محمد خان کے گائوں شیرپائو سے خطاب کرنے کے بعد پشاور سے راولپنڈی پہنچے تو عوام کے جمِ غفیر نے اپنے قائد کا تاریخ ساز استقبال کیا جن میں طلبا پیش پیش تھے۔ راولپنڈی کے پولی ٹیکنیک کالج کے طلبا کا ایک جلوس ذوالفقارعلی بھٹو سے ملاقات کے لیے سابق انٹرکونٹی نینٹل ہوٹل راولپنڈی پہنچ گیا۔ 7 نومبر 1968ء کو طلبا کے اس جلوس نے پاکستان کی جدید سیاسی تاریخ میں ایک نمایاں سنگِ میل کی حیثیت اختیار کرلی۔ پرجوش طالبِ علم
’’ایوبی آمریت مردہ باد‘‘
’’جمہوریت زندہ باد‘‘
’’ذوالفقارعلی بھٹو زندہ باد‘‘
کے نعرے بلند کرتے ہوئے پولیس کی تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے ہوٹل کی جانب بڑھنے لگے تو پولیس نے لاٹھیوں اور آنسو گیس کے شیل برسانے شروع کردیئے۔ طلبا نے پی پی پی کے سرخ، سیاہ اور سبز رنگ کے پرچم کو ہوٹل پر نصب کردیا اور ان کا مطالبہ تھا کہ ہم اپنے قائد سے ملاقات کرنے آرہے ہیں، ہمیں اپنے قائد کو خراجِ عقیدت پیش کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پولیس نے لاٹھیوں اور آنسو گیس کے شیلوں سے طلبا کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد طلبا کے نہتے جلوس پر فائرنگ کردی جس سے ایک گولی پولی ٹیکنیک کالج کے طالبِ علم عبدالحمید کی شہادت کا سبب بن گئی۔ جب مسٹر بھٹو وہاں پہنچے تو ہوٹل کے اردگرد کا علاقہ قیامت کا سماں پیدا کررہا تھا۔
بھٹو نے شہید طالبِ علم عبدالحمید کی خون سے لت پت لاش کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور تشدد کرنے والی حکومت کے خلاف مزاحمت کا اعلان کردیا۔ دوسرے دن راولپنڈی کی سڑکوں پر فوج نے گشت شروع کردیا اور شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ راولپنڈی کے سانحے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور جو نہی یہ خبر ملک کے دیگر حصوں میں پہنچی تو عوامی مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا۔ کرفیو کے باوجود دوسرے دن بھی راولپنڈی میں مظاہرے مزید شدت اور جوش و جذبے کے ساتھ منظم کیے گئے جن میں خورشید حسن میر پیش پیش تھے۔ دوسرے دن کے مظاہروں کے دوران مزید دو افراد شہید ہوگئے۔ سیاسی کارکنوں اور طلباکی گرفتاریوں کا آغاز کردیا گیا۔ 9 نومبر 1968ء کو ذوالفقارعلی بھٹو مغربی پاکستان کے ثقافتی، سیاسی اور ادبی مرکز لاہور کی طرف ٹرین کے ذریعے روانہ ہوئے جہاں انہوں نے ایک سال قبل اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ مسٹر بھٹو نے حکومت کے خلاف مزاحمت کا اعلان کرکے ایک حقیقی عوامی قائد کی حیثیت سے تاریخی فریضہ سرانجام دینا شروع کردیا۔
ٹرین کے لاہور پہنچنے پر لاہور شہر میں میلے کا سماں تھا۔ ہر قدم ریلوے سٹیشن کی جانب رواں تھا جہاں عوامی تحریک کا قائد ایک طویل جدوجہد کا اعلان کرنے آرہا تھا۔ 10 نومبر کو جب ذوالفقارعلی بھٹو لاہور پہنچ رہے تھے اسی روز فیلڈ مارشل ایوب خان کی سرکاری کنونشن مسلم لیگ کے جلسے میں ایک نوجوان نے ایوب خان پر دو فائر کردیئے۔ اس واقعہ نے اقتدار پر براجمان آمروں کو فرسٹریٹ کردیا۔ اس حملے میں ایوب خان کی جان تو محفوظ رہی البتہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن خصوصاً مسٹر بھٹو کے خلاف پراپیگنڈا محاذکا دائرہ وسیع کر دیا گیا۔
لاہور پہنچنے کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو ملک بھر میں عوامی تحریک کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے کہ 13 نومبر 1968ء کو رات کے ڈیڑھ بجے پولیس نے ان کو ڈاکٹر مبشرحسن کے گھر سے گرفتار کرلیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے علاوہ ممتاز علی بھٹو، غلام مصطفی کھر، ارباب سکندر خان، رسول بخش تالپور، ڈاکٹر مبشرحسن، اجمل خٹک، ملک اسلم حیات، محمد حیات شیرپائو، شوکت لودھی، امان اللہ خان اور احمد رضا خان کو بھی گرفتار کیا۔ اس سے دوسرے روز مزید دس راہنمائوں کو گرفتار کیا گیا جن میں محمودالحق عثمانی (سیکرٹری جنرل نیپ) زاہدعلی، نواز بٹ، الطاف آزاد، امیرفیصل درانی، اللہ بخش رند، عزیز اللہ ہاشمی، اظہرعباس، منظرحسین اور زین الدین خان شامل تھے۔ پی پی پی کے چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو چونکہ اس وقت پاکستانی سیاست کا محور بن چکے تھے اس لیے ان کی گرفتاری نے عوامی بیداری کی چنگاری کو شعلوں میں بدل دیا۔ مغربی پاکستان میں طلبا اور نوجوان طبقے نے مزدوروں کے ساتھ مل کر شہروں اور قصبات میں تحریک کی قیادت کا فریضہ سرانجام دینا شروع کردیا۔
روز بروز ریاستی تشدد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان واقعات نے ریٹائرڈ فوجی افسروں کو بھی عوامی جدوجہد کے دھارے میں شامل ہونے پر مجبور کیا۔ ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغرخان جو پاکستان کی فوجی افسرشاہی میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے انہوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کی گرفتاری کے واقعہ کے بعد سیاست میں آنے کا اعلان کردیا۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ پہلے مشرقی پاکستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ایس ایم مرشد نے بھی ایوب خان کے خلاف آواز بلند کردی۔ جنرل ریٹائرڈ اعظم خان بھی اصغر خان کی طرح ایوبی آمریت کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ ان واقعات نے ذوالفقارعلی بھٹو کے مؤقف کو مزید تقویت پہنچائی جبکہ آٹھ اپوزیشن جماعتوں نے ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (D.A.C) کے نام سے ایک نیا محاذ بنا لیا۔ ڈی اے سی نے بھی ایوب حکومت کے نظام کو مسترد کرکے مکمل جمہوریت کا مطالبہ کردیا
۔ ڈی اے سی نے اگلے صدارتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی آٹھ مطالبات پیش کردیئے:
(1) وفاقی پارلیمانی نظامِ حکومت۔
(2) براہِ راست طریقۂ انتخاب، بالغ رائے دہی کی بنیاد پر۔
(3) فوری طور پر سٹیٹ ایمرجنسی کا خاتمہ (یہ 1965ء کی جنگ سے چلی آرہی تھی)۔
(4) فوری طور پر بنیادی حقوق کی بحالی، تمام کالے قوانین کی منسوخی، خصوصی طور پر بغیر مقدمہ چلائے نظربندی کے قانون کا خاتمہ اور یونیورسٹی آرڈیننس کا خاتمہ۔
(5) تمام سیاسی قیدی، طالبِ علم، صحافی، صنعتی کارکن، بشمول خان ولی خان، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقارعلی بھٹو کی فوری رہائی، تمام سیاسی قیدیوں پر قائم مقدمات کا فوری خاتمہ۔
(6) سیکشن 144 کا خاتمہ۔
(7) صنعتی مزدوروں کو ہڑتال کا حق۔
(8) صحافت پر عاید تمام پابندیوں کا خاتمہ ’’چٹان‘‘ اور دیگر جرائد کے ڈیکلریشن کی منسوخی کا خاتمہ۔
ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (ڈی اے سی) میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ سمیت سیکولر اور مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔ اب شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان کی قومی آزادی کے رہبر کے طورپر اپنا مقام بنا چکے تھے جبکہ مشرقی پاکستان کے دوسرے اہم راہنما مولانا عبدالحمید بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی نے بھی آئندہ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ مولانا بھاشانی نے جو مطالبات پیش کیے وہ درجِ ذیل ہیں:
(1) بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کروائے جائیں۔
(2) مشرقی پاکستان کو صوبائی خودمختاری دی جائے۔
(3) ون یونٹ سکیم کا خاتمہ کیا جائے۔
مولانا بھاشانی کی یہ رائے بھی تھی کہ دفاع، کرنسی اور خارجہ تعلقات بدستور مرکز کے پاس رہنے چاہئیں۔ نیشنل عوامی پارٹی (مولانا بھاشانی گروپ) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (ڈی اے سی) میں شمولیت اختیار کیے بغیر ایوب حکومت کے خاتمے کے مطالبے کو بنیادی حیثیت دی اور اگلے انتخابات کا دونوں جماعتوں نے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح ان دونوں جماعتوں نے ون یونٹ کے خاتمے کا مطالبہ بھی سرِفہرست رکھا جبکہ ڈی اے سی نے اپنے مطالبات کے علاوہ بھرپور انداز میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور جدید عوامی جمہوریت ،سماجی ،معاشی اور اقتصادی انصاف کا نعرہ بلند کیا۔
ذوالفقارعلی بھٹو کی گرفتاری کے بعد ان کی شریکِ حیات محترمہ نصرت بھٹو نے عوامی جلوسوں کی قیادت کا فیصلہ کیا۔ نصرت بھٹو کے اس فیصلے نے عوام کے مورال کو مزید بلند کردیا۔ مسٹر بھٹو کی گرفتاری کے بعد بیگم نصرت بھٹو کی قیادت میں لاہور میں نکلنے والے جلوس نے حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ ان جلوسوں میں طلبا و نوجوان، مزدور، محنت کش، شاعر، ادیب، دانشور، صحافی اور تانگہ بان و رکشا ڈرائیور شامل تھے۔ اب حکومتی ہتھکنڈے بے معنی ثابت ہوئے۔ دفعہ 144 کا نفاذ، لاٹھی، گولی، آنسو گیس اور روایتی تشدد کے حربے عوامی جدوجہد کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ عوامی تحریک نے مغربی و مشرقی پاکستان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔
ذوالفقارعلی بھٹو کی گرفتاری کے بعد مغربی پاکستان ہائیکورٹ میں نصرت بھٹو نے ایک رٹ پٹیشن دائر کی جسے جسٹس مولوی مشتاق حسین اور جسٹس قاضی محمدگل پر مشتمل ایک سپیشل بنچ نے سماعت کے لیے منظور کرلیا جبکہ جیل میں مسٹر بھٹو کو قواعدوضوابط کے مطابق سہولیات فراہم نہ کی گئیں تاکہ مسٹر بھٹو کے عزم کو کمزور کیا جاسکے لیکن حکومت کے ان اقدامات نے بھٹو اور عوام کے جوش و جذبے میں کمی کے بجائے مزید اضافہ کیا۔ اب اس مقدمے پر عوامی نگاہیں مرکوز ہوگئیں اور ذوالفقارعلی بھٹو پاکستانی سیاست کا محور بن گئے۔ مسٹر بھٹو نے نہایت خوبصورت انداز میں عدالت میں اپنے مقدمے کو Politicize کرکے اپنی سیاسی اور آئینی جنگ کو عوامی حمایت کے ساتھ جوڑ دیا۔ انہوں نے عدالت میں ایک حلفی بیان دیا جس میں ٹوٹتے نظام کے جبر اور فرسودہ روایت پر مبنی نوآبادیاتی ڈھانچے کے عوام دشمن کالے قوانین بشمول ڈیفنس رولز آف پاکستان پر سخت تنقید کی۔ مقدمے کی کارروائی نے عوامی تحریک کی شدت میں اضافہ کیا۔ مسٹر بھٹو نے بیانِ حلفی کے آخری پیراگراف میں کہا:
’’میری جدوجہد کا منتہیٰ قومی احیاء ہے۔ میں قائدِاعظم اور اقبال کا جھنڈا سربلند رکھنا چاہتا ہوں تاکہ دنیا پر ثابت کردیا جائے کہ بارہ کروڑ جیالے عوام کی یہ اسلامی ریاست اوجِ کمال کو پہنچ سکتی ہے اور جس آزادی اور مساوات (Equality)سے اسلام نے تہذیب کا چراغ روشن کیا اس سے بہرہ ور انسانوں کے آدرش کو لباسِ مراد پہنا سکتی ہے۔ میری آواز ہے کہ عدل و انصاف کا وہی نور ایک بار پھر دل افروز تقاضوں کے اجتماع کو سندر کردے۔ میری آرزو ہے کہ ہمارے عوام اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ شاہراہ ِترقی پر گامزن ہوں اور مساوات کی آب و تاب میں یکساں حصہ داررہیں۔ وقت آئے گا کہ قسمت کا پہیہ گردش کرے گا اور اس کی گردش کے انقلاب سے ایک بہتر مستقبل طلوع ہوگا۔‘‘
مقدمے کے دوران مسٹر بھٹو نے عدالت میں مرکزی حکومت کے ہوم سیکرٹری اے بی اعوان، مرکزی خفیہ پولیس کے ڈائریکٹر ایس اے رضوی اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کمانڈر انور آفریدی پر خود جرح کی۔ مسٹر بھٹو کے اس انداز نے ان کو نئے دور کے عوامی لیڈر کے طور پر متعارف کروایا۔
ایوب حکومت نے عوامی تحریک کو De-fuse کرنے کے لیے گول میز کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا اور تمام سیاسی جما عتوں کو مذاکرات کی دعوت دی۔ عوامی لیگ (نوابزادہ نصراللہ گروپ) کے قائد نوابزادہ نصراللہ خان مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے یکایک متحرک ہوگئے۔ گول میز کانفرنس عوام میں خاص اہمیت نہ پاسکی کیونکہ عوام نام نہاد آئینی و سیاسی اصلاحات سے زیادہ بنیادی انقلابی تبدیلی کے خواہاں تھے جبکہ ایوب حکومت عوام کی انقلابی جدوجہد کے بعد ان پر ’’آئینی احسانات‘‘ کا اعلان کررہی تھی۔ 10 فروری 1969ء کو عدالت نے حکم دیا کہ مسٹر بھٹو کو تاحکمِ ثانی ان کے آبائی مکان المرتضیٰ لاڑکانہ میں نظر بند کردیا جائے۔ مسٹر بھٹو کے ساتھیوں اور نصرت بھٹو کے مشوروں کے مطابق انہوں نے جہاز کے بجائے ٹرین کے ذریعے لاڑکانہ جانے کو ترجیح دی۔ 11 فروری کو مسٹر بھٹو بذریعہ ٹرین لاڑکانہ روانہ ہوئے۔
المرتضیٰ پہنچنے کے بعد مسٹر بھٹو اپنے ساتھیوں عبدالوحید کٹپٹر اور شاکرعلی جونیجو کے ہمراہ ڈیفنس آف پاکستان رولز اور ایمرجنسی کے خاتمے کے مطالبے پر بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں عوام مردانہ وار ریاستی طاقت کے خلاف عوامی انقلابی جدوجہد میں مصروف رہے۔ سینکڑوں جانیں ایوبی آمریت کے اوچھے ہتھکندوں کا شکار ہورہی تھیں۔ اپوزیشن کے کئی راہنما حکومت سے مذاکرات کے ذریعے ایک طے شدہ کھیل کے مطابق حکومت حاصل کرنے میں مصروفِ عمل تھے جبکہ حکومت گول میز کانفرنس کے ذریعے ایک ابھرتے ہوئے انقلاب کو سبوتاژ کرنے میں مصروف تھی۔
14 فروری 1969ء کو حکومت نے اعلان کیا کہ 17 فروری کو ہنگامی حالت ختم کردی جائے گی اور اسی کے ساتھ ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار تمام راہنمائوں کی رہائی کا اعلان کیا گیا جس کے مطابق شام 6:45 پر چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو کو رہا کردیا گیا لیکن مسٹر بھٹو نے بھوک ہڑتال جاری رکھنے کا ارادہ برقرار رکھا۔ یہ حکومتی اعلان ایوب آمریت کی پہلی شکست تھی جبکہ مولانا بھاشانی اور ذوالفقارعلی بھٹو نے حکومت کی گول میز کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا۔ جب اپوزیشن کے دیگر راہنما ایوب خان سے گول میز کانفرنس میں مذاکرات کے لیے بے چین تھے تو مسٹر بھٹو کراچی میں عوامی ریلے کے ساتھ قائدِاعظم کے مزار کی جانب گامزن تھے۔ اس موقع پر مسٹر بھٹو نے کہا:
’’سیاستدان ابھی تک گول میز کانفرنس میں دستور بنانے اور نظامِ حکومت پر گفتگو میں مصروف ہیں۔ قائدِاعظم نے کہا تھا کہ اس ملک کا دستور عوام کی خواہش کے مطابق ہوگا لیکن بابائے قوم کا یہ فرمان ابھی تک پورا نہیں کیا گیا۔ موجودہ جدوجہد کو تحریک کہنا غلط ہے۔ یہ تحریک نہیں انقلاب ہے اور عوامی انقلاب کا تمام تر سہرا عوام کے سر ہے۔
میں قائدِاعظم کے مزار پر عہد کرتا ہوں میں ذاتی مفاد کو کبھی عوام کے مفاد پر ترجیح نہیں دوں گا اور ان کے نام پر کوئی سودے بازی نہیں کروں گا۔ عوام کی جدوجہد میرا ایمان ہے۔ میں اس ملک سے سامراج کے پٹھوئوں کو ختم کرنے کی آخری دم تک جدوجہد کرتا رہوں گا۔‘‘
شروع میں حکومت نے شیخ مجیب کو پیرول پر رہا کرکے گول میز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جو مجیب نے مسترد کردی۔ شیخ مجیب نے غیرمشروط طور پر رہائی اور اگرتلہ سازش کیس کے خاتمہ اور دیگر 34 افراد جو اگرتلہ سازش میں ملوث تھے کی رہائی کی شرائط پر گول میز مذاکرات میں شمولیت کا مطالبہ کیا۔ 22 فروری 1969ء کو شیخ مجیب سمیت اگرتلہ سازش کیس میں ملوث دیگر 34 افراد کو حکومت نے رہا کرنے کا اعلان کردیا اور اس کے ساتھ اگرتلہ سازش کیس ختم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ 26 فروری 1969ء کو گول میز کانفرنس کے تحت حکومت اوراپوزیشن کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ گول میز کانفرنس میں:
(1) نوابزادہ نصراللہ خان (ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی)
(2) عبدالسلام ( عوامی لیگ، پی ڈی ایم گروپ کا حامی)
(3) شیخ مجیب الرحمن اور سید نذرالاسلام(عوامی لیگ)
(4) نورالامین اور حمیدالحق چودھری (این ڈی ایف)
(5) میاں ممتازدولتانہ اور خواجہ خیرالدین (کونسل مسلم لیگ)
(6) چودھری محمدعلی اورمولوی فرید احمد (نظامِ اسلام)
(7) مولانا مودودی اورپروفیسر غلام اعظم (جماعتِ اسلامی)
(8) مفتی محمود اورپیر محسن الدین (جمعیتِ علمائے اسلام)
(9)خان عبدالولی خان اورپروفیسر مظفراحمد (نیشنل عوامی پارٹی ولی گروپ)
نے اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے شرکت کی۔ اس کے علاوہ آزاد حیثیت میں ایئرمارشل ریٹائرڈاصغر خان، جسٹس ریٹائرڈ ایس ایم مرشد اور جنرل ریٹائرڈ اعظم خان نے بھی حکومت کی گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ اسی دن ذوالفقارعلی بھٹو راولپنڈی میں عوام سے خطاب کے لیے تشریف لائے تو عوام نے اپنے قائد کا تاریخی استقبال کرکے ان کے مؤقف کی حمایت کا مظاہرہ کیا۔ لیاقت باغ راولپنڈی میں مسٹر بھٹو نے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’گول میز کانفرنس قومی بحران کا حل نہیں۔‘‘
گول میز کانفرنس کسی ایک نقطے پر پہنچنے کے بجائے مختلف مطالبات اور خواہشات کا شکار ہوچکی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن چھ نکات کے مطالبے پر بضد تھے۔ مفتی محمود نفاذِ شریعت پر، جماعتِ اسلامی اپنے اندازِ فکر کے مطابق نظامِ اسلام پر اور اسی طرح دیگر راہنما اپنی اپنی سیاسی فکر کے حوالے سے آوازیں بلند کررہے تھے۔ گول میز کانفرنس کا پہلا رائونڈ عملی طور پر نفسانفسی کا شکار ہوکر ناکام ہوچکا تھا اور یہ طے پایا کہ گول میز کانفرنس کا اگلا رائونڈ 10 مارچ 1969ء کو کیا جائے جبکہ ذوالفقارعلی بھٹو مسلسل عوامی رابطے کی مہم کے ذریعے حکومت کی طرف سے انقلابی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کے خلاف شہر سے قصبات تک عوامی جدوجہد کے پرچم کو بلند کیے ہوئے تھے۔ 10 مارچ کو گول میز کانفرنس دوبارہ بری طرح ناکامی کا شکار ہوگئی چونکہ اسی دوران اگرتلہ سازش میں ملوث ایک فلائٹ سارجنٹ ظہورالحق کو گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ وہ فوج کی تحویل سے بھاگنے کی کوشش میں مصروف تھا لیکن کسی نے بھی اس کہانی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس حادثے کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان میں عوامی ردِعمل کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوگیا۔ ڈھاکہ میں دو مرکزی وزیروں کے گھر جلا دیئے گئے، سٹیٹ گیسٹ ہائوس اور کنونشن مسلم لیگ کے دفتر کو بھی نذرِآتش کردیا۔ پورا شہر تشدد کی لہر کی لپیٹ میں آگیا جس کے بعد شہر میں کرفیو نافذ کرکے شہر کو فوج کے حوالے کردیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں ان واقعات کے بعد مغربی پاکستان کے خلاف نفرت اپنے عروج کوپہنچ گئی۔ شیخ مجیب نے کھلے عام کہنا شروع کردیاکہ اب پاکستان ٹوٹ جانا چاہیے۔ شیخ مجیب نے اپنے اس مطالبے کے حوالے سے کہا کہ:
’’میں اپنے الفاظ واپس نہیں لوں گا، یہ میرے نہیں عوام کے الفاظ ہیں، یہ عوام کا مطالبہ ہے، ہم نے بیس سال تک انتظار کیا ہم ابھی اس پر عمل چاہتے ہیں۔‘‘
ایوب خان کے خلاف مغربی پاکستان میں عوامی تحریک میں جو جانی نقصان ہوا ایک تحقیق کے مطابق وہ درجِ ذیل ہے:
نومبر 1968ء
4 افراد ہلاک
1000 افراد گرفتار
دسمبر1968ء
11 افراد ہلاک
1530 افراد گرفتار
جنوری 1969ء
57 افراد ہلاک
4710 افراد گرفتار
فروری 1969ء
47 افراد ہلاک
100 افراد گرفتار
مارچ 1969ء
90 افراد ہلاک
356 افراد گرفتار
جبکہ ہزاروں افراد ان پانچ مہینوں میں زخمی ہوئے۔ اسی طرح درجنوں پولیس ملازمین عوامی جھڑپوں میں ہلاک ہوئے اور لاتعداد پولیس سٹیشن اور سرکاری عمارات نذرِآتش ہوگئیں جس کے بعد پولیس شہروں میں غیرمؤثر ہوتی چلی گئی اور سرکاری ملازمین نے حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کردیا جبکہ صدر ایوب خان کا طویل عرصہ سے خرابیٔ صحت کی بنا پر حکومتی مشینری میں اثرورسوخ دن بدن ختم ہوتا جا رہا تھا۔ امن و امان کا مسئلہ بری طرح متاثر ہوچکا تھا۔ اس عوامی بے چینی اور بیداری اور حکومتی ڈھانچے میں کمزوری کے باوجود حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر مسلسل قائم تھی لیکن کھوکھلا نظام تاحال عوامی طاقت کے فیصلوں کو قبول کرنے سے انکار کررہا تھا۔ حکمران طبقے کو علم تھا کہ یہ ایک انقلاب ہے۔
اس کی مکمل کامیابی کا مطلب ہے کہ سرمایہ داری، جاگیرداری، سول و فوجی افسرشاہی کی بنیادوں پر قائم نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ اور ایک ترقی پسند نظام کی نئی بنیادیں جو کہ حکمران طبقے کو کسی طرح بھی قبول نہ تھیں۔ اس لیے کھوکھلے نظام نے نئی بیساکھیوں کا سہارا لیا اور یوں 26 مارچ 1969ء کو ملک میں دوسرا مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ صدر ایوب خان نے اقتدار کی طاقت کمانڈر انچیف جنرل محمد یحییٰ خان کو منتقل کردی۔ (ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب “میرا لہو” کی دسویں قسط آئندہ ہفتے ملاحظہ فرمائیں)
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں