ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب “میرا لہو” سے آٹھویں قسط، فرخ سہیل گوئندی کے قلم سے

پاکستان پیپلزپارٹی کا قیام

یہ امر واضح ہے کہ جنگیں انقلابات کو بھی جنم دیتی ہیں۔ جیسے جنگِ عظیم اول اور جنگِ عظیم دوم نے جس طرح عالمی سیاست کو یکسر بدل کر رکھ دیا اسی طرح علاقائی جنگیں بھی خِطّوں کے سیاسی نظاموں کو بدلنے کا سبب بنتی ہیں۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ نے بھی پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات کی اصل تصویر عوام کے سامنے بے نقاب کرکے رکھ دی۔

اس جنگ کا پاکستان کی سیاست پر حیرت انگیز حد تک اثر مرتب ہوا اور یہ وہ دور تھا جب دنیا بھر میں سوشلزم کی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں۔ حتیٰ کہ یورپ طالب علموں کی تحریکوں کا مرکز بن چکا تھا جن کا رجحان ترقی پسندی پر مبنی تھا۔ پاکستان کے دونوں حصوں مشرقی اور مغربی پاکستان میں بھی ایک عوامی تحریک کا پودا لگ چکا تھا جس کو ہزاروں ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور درمیانے طبقے کے دانشوروں نے اپنی طویل صبرآزما جدوجہد کے ذریعے ایک سیاسی تحریک کی شکل دی تھی۔ ایسے میں جاگیردار طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے طبقے سے بغاوت کرکے نچلے طبقات کے ساتھ وفاداری کا اعلان کردیا۔ اس وقت پاکستان میں مزدور تحریک اور نوجوان طالبِ علم کسی بھی سیاسی تحریک کے ہراول دستے کا کردار ادا کرنے میں پیش پیش تھے۔

آزادی کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان میں مزدوروں اور نوجوانوں کی طرف سے ایک Radical تحریک وجود میں آئی تھی۔ تحریک کے ہراول دستے طالبِ علم، نوجوان اور مزدور تھے اور عوام میں اجتماعی سیاسی شعور اپنی انتہا پر تھا۔مختلف ٹریڈ یونینز پر پاکستان کے بائیں بازو کا اثر تھا جو کہ عوامی تحریک میں شامل ہوچکی تھیں۔ اسی طرح نیشنل سٹودڈنٹس فیڈریشن مغربی پاکستان میں طلبا کی مقبول ترین طلبا تنظیم تھی۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں حتیٰ کہ سکولوں کے سینئر طلبہ میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن ایک نمائندہ تنظیم جانی جاتی تھی جو کہ چین نواز یا مائو اسٹ افکار پر یقین رکھتی تھی۔ یہی وہ پہلا پلیٹ فارم تھا جس نے ذوالفقارعلی بھٹو کو عوامی رابطے کے لیے خوش آمدید کہا تھا۔

این ایس ایف کی قیادت شعلہ بیاں ترقی پسند اور ریڈیکل نظریات کے حامل معراج محمد خان جیسے نوجوان کر رہے تھے۔ یہ دور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بدلتے ہوئے سماجی رجحانات کا دور تھا۔ ایسے میں اقتدار سے بغاوت کرنے والے وزیرِخارجہ ذوالفقارعلی بھٹو کو ملک بھر میں پذیرائی مل رہی تھی۔ گو حکومت نے اپنے وزیرِخارجہ کو طویل رخصت پر بھیجا تھا تاکہ وہ اپنا ’’علاج‘‘ کروا سکے لیکن عوام کو علم تھا کہ درحقیقت بھٹو کا اب حکومت میں عمل دخل ختم ہوچکا ہے۔ ایوب خان نے اپنے وزیرِخارجہ کو بار بار خاموش رہنے کی درخواست کی تھی تاکہ بھٹو عوام میں بنیادیں نہ بنا پائیں۔ مغربی پاکستان کے گورنر امیر محمد خان آف کالا باغ نے اپنے روایتی مدمقابلِ ذوالفقارعلی بھٹو کی گورنر ہائوس لاہور میں رسمی دعوت کا بھی اہتمام کیا۔ عوام کے مقبول راہنما ذوالفقارعلی بھٹو نے کھوکھلے نظام کے رکھوالوں کو پریشان کر رکھا تھا جبکہ دوسری طرف امیرمحمد خان، ذوالفقارعلی بھٹو کو اپنے ’’پیغام رساں‘‘ کے ذریعے خاموش رہنے کے پیغامات بھی بھیج رہا تھا مگر شہروں، قصبوں اور دیہات میں ذوالفقارعلی بھٹو ایک جلتا ہوا موضوع بن چکا تھا جس کی شخصیت امریکہ دشمن، کشمیر کی آزادی کا علمبردار، چین کے ساتھ دوستی کا معمار، تیسری دنیا کے مقبول راہنمائوں کا دوست اور ایک ترقی پسند راہنما کے اثرات لیے ہوئے عوام پر اپنا رنگ جما رہی تھی۔

8 جولائی 1966ء کو ان کے استعفے کی خبر کے بعد 15 جولائی کو ذوالفقارعلی بھٹو بیرونِ ملک روانہ ہوگئے۔ اس دورے میں وہ جرمنی، ترکی، فرانس، بلغاریہ، مصر، برطانیہ، لبنان اور جنیوا میں پاکستانی دانشوروں، نوجوانوں، بیرونِ ملک زیرِتعلیم پاکستانیوں اور غیرملکی راہنمائوں سے ملاقاتیں کرکے اپنے مستقبل کے سیاسی لائحۂ عمل کا تعین کررہے تھے۔ ترکی میں کمال اتاترک کے ساتھی چیئرمین ری پبلکن پیپلزپارٹی جناب عصمت انونو سے بھی ان کی ملاقات ہوئی جن کی پاکستان کے ابھرتے ہوئے عوامی قائد ذوالفقارعلی بھٹو سے بے انتہا توقعات وابستہ تھیں جبکہ برطانیہ میں اپنے عظیم محسن لارڈ برٹرینڈرسل سے طویل ملاقاتیں ان کے سیاسی فیصلوں پر فکری اثرات کا سبب بنیں۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے قاہرہ میں ذوالفقارعلی بھٹو کا سرکاری استقبال کرکے بھٹو کے تیسری دنیا کے ابھرتے ہوئے سیاسی کردار پر مہرثبت کردی۔

پیرس میں ذوالفقارعلی بھٹو نے سابق پاکستانی سفارتکار جے اے رحیم کے ساتھ طویل ملاقاتوں میں مستقبل کی سیاسی پارٹی کا ڈرافٹ تیار کیا۔ جے اے رحیم کا رجحان سوشلزم، سیکولرازم اور جدیدیت کی طرف تھا۔ اکتوبر 1966ء میں جے اے رحیم اور ذوالفقارعلی بھٹو نے مجوزہ پارٹی کا جو ڈرافٹ تیار کیا وہ ایک ترقی پسند ،غیرطبقاتی نظام اور استعمار دشمن سیاسی نظریات پر مبنی جماعت کا منشور تھا۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں نے جس طرح ذوالفقارعلی بھٹو کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اس سے محسوس کیا جارہا تھا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی آواز اب پاکستان کے کروڑوں عوام کی آواز بن چکی ہے۔ اکتوبر میں وہ کابل کے راستے پاکستان واپس آئے۔

کابل میں ان کو ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو آف پاکستان نے راولپنڈی میں کھانے کی دعوت پہنچائی۔ پاکستان کے حکمران ذوالفقارعلی بھٹو کی واپسی سے شدید خوفزدہ تھے۔ پشاور کے ہوائی اڈے پر اترتے ساتھ ہی ڈی آئی جی پولیس انور آفریدی نے کھانے کی دعوت کا پیغام پہنچا دیا۔ کھانے کی اس دعوت میں بھٹو کے دوست وزیرِصنعت الطاف حسین مرحوم نے ایک ثالث کا کردار ادا کرنا چاہا۔ دراصل ایوب خان، بھٹو کو اگلے انتخابات سے دور رکھ کر اپنی شرائط پر ان کو پاکستان میں لوگوں سے رابطے کی اجازت دینے پر رضامند تھے۔ پاکستان واپس پہنچنے پر بھٹو کے عوامی استقبالیہ اجتماعات کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔ اسی دوران وہ ڈھاکہ روانہ ہوگئے۔ 20 نومبر 66ء کو ڈھاکہ میں پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

’’پاکستان مسلم لیگ نے ایک منشور بنایا تھا جس کے مطابق پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانا ہے تاکہ اس ریاست کی اساس اسلامی تصورات پر ہو۔ اس کے طریقِ کار کے متعلق اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن اصل مقصد کی حقانیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ میرے داخلی اور خارجی نظریات سب پر عیاں ہیں۔ میں ملک کے دونوں حصوں میں اقتصادی مساوات چاہتا ہوں اور ساتھ ہی میرا نظریہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ونی معاملات میں ہر قسم کی مداخلت ناقابلِ برداشت ہے۔ کسی قوم پر دوسری قوم کی حکومت نہیں ہونی چاہیے۔ نوآبادیاتی نظام اور سامراجیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جن کا تعلق صرف پاکستان سے ہی نہیں بلکہ افریقہ اور ایشیا کے تمام ممالک اور ساری دنیا کے لیے ضروری ہے۔‘‘

ذوالفقارعلی بھٹو نے اس عرصہ میں پاکستان کے متعدد بار رومز، پریس کانفرنسوں، دانشوروں، نوجوانوں اور طالب علموں کے اجتماعات سے خطابات کے دوران اپنے سیاسی نظریات اور مجوزہ سیاسی جماعت کے خدوخال پیش کرکے عوامی رائے عامہ اپنی حمایت میں تبدیل کرلی تھی۔ کنونشن مسلم لیگ کے مرکزی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے بھٹو کو طاقت کی سیاست کا بھی ایک تجربہ حاصل تھا۔ اس بنیاد پر روایتی سیاستدانوں کے ساتھ ان کے ذاتی مراسم بھی قائم ہوچکے تھے لیکن ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کی سیاسی تحریک کے نئے مرحلے میں ایک بالکل نئی اور شفاف ٹیم کے ساتھ نمودار ہونے والے تھے جن کے نام پاکستان کی قومی سیاست میں بالکل نئے تھے۔ ترقی پسند دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کی ایک ٹیم جن کا تعلق درمیانے طبقے سے تھا۔

حکمران اور روایتی سیاستدان، بھٹو کی ٹیم کو غیرمعروف سمجھ کر سیاست سے ناآشنا قرار دے رہے تھے لیکن قدرت نے اس نئی عوامی قیادت کی ذمہ داری کا فیصلہ کرلیا تھا جبکہ حکمرانوں کی اب بھی یہ کوشش تھی کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ سودے بازی کی جائے اور ان کو پیشکش کی گئی کہ وہ فرانس میں سفیر کی حیثیت سے کام کرسکتے ہیں مگر ذوالفقارعلی بھٹو نے ان تمام پیشکشوں کو ٹھکراتے ہوئے پاکستان کے عوام کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر منظم کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو میں Sense of Timing کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود تھی۔ یہ دور ایک نئی ترقی پسند سیاسی جماعت کی تشکیل کے لیے آئیڈیل دور تھا کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں ترقی پسند سیاست کی لہر تھی۔ 23 نومبر 1966ء کو M.C.A Y.ہال لاہور میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجتماع میں ذوالفقارعلی بھٹو نے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’افریشیائی اتحاد کے لیے بن بااللہ، ابوبکر تفاویٰ، احمد سوئیکارنو اور دوسرے راہنمائوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ افریشیائی ممالک غربت کے خاتمے، غیرملکی تسلط اور مداخلت سے نجات اور حصولِ انصاف کی جدوجہد میں ضرور کامیاب ہوں گے اور کوئی طاقت ان کے آہنی عزم کو متزلزل نہ کرسکے گی۔‘‘
30 نومبر 1967ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشرحسن کے گھر نئی پارٹی کی تشکیل کے لیے ذوالفقارعلی بھٹو کے قافلۂ سیاست کا ایک تاریخ ساز اجلاس ہوا جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا سنگِ میل نصب کرکے پاکستان میں عوام کی سیاست کو رائج کرنے کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اتنا بڑا اور انمٹ کردار ادا کرنے والوں میں تقریباً کوئی بھی قومی اور مقتدر راہنما شامل نہ تھا۔ ان تاریخ ساز سیاسی کارکنوں نے حیران کن کارنامہ سرانجام دیا جس نے پاکستان کے نوآبادیاتی نظام اور جاگیردارانہ سیاست میں بڑا شگاف ڈال دیا۔ پہلے اجلاس میں جن باقاعدہ مندوبین کا اعلان کیا گیا وہ درج ذیل ہیں:

میر رسول بخش تالپور، شیخ محمد رشید، جے اے رحیم، بیگم آباد احمد خان، کامریڈ غلام احمد، خان محمد حیات خان، پیر بخش بھٹو، میرحامد حسین، عبدالوحید کٹپڑ، نثار احمد خان، معراج محمد خان، خورشید حسن میر، ممتاز کاہلوں،عبدالرزاق سومرو، شوکت علی جونیجو، غازی قدرت اللہ، مولوی محمد یحییٰ، میاں محمد اسلم، مرتضیٰ کہیر، امان اللہ خان، راجہ منور احمد، ملک محمد پرویز، فاروق بیدار، احمد رضا خان قصوری، عبدالرحمن، ملک نوید احمد، محمداحسن اور ملک حامد سرفراز۔

اس کنونشن میں متعدد سیاسی کارکنوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ذوالفقارعلی بھٹو کی قیادت اور سوشلزم پر روشنی ڈالی۔ اس کنونشن کی صدارت ذوالفقارعلی بھٹو نے کی جبکہ دیگر تقریروں کے علاوہ اسلم گورداسپوری اور ڈاکٹر حلیم رضا نے اپنی انقلابی نظموں سے نئی پارٹی کے مندوبین کو مستفید کیا۔ ادیبوں میں سے ڈاکٹر انور سجاد نے اس تاریخی کنونشن میں شرکت کی۔اڑھائی سو افراد نے لاہور میں ڈاکٹر مبشرحسن کے گھر دراصل ایک عوامی تحریک کی بنیاد رکھ دی تھی جس پر حکمران اور جاگیردار روایتی سیاستدان اس اقدام کو ایک غیرحقیقت پسند اور کامیابی سے دور قدم قرار دے رہے تھے اور ساتھ ہی حکومت کی طرف سے ذوالفقارعلی بھٹو اور ان کے ساتھیوں کے خلاف اخبارات و رسائل میں پراپیگنڈا کی ایک بھرپور مہم بھی جاری تھی۔ 30 نومبر اور یکم دسمبر 1967ء کو چار اجلاسوں میں پارٹی کے تمام خدوخال طے کرکے پارٹی کی بنیادی دستاویز تیار کرکی گئی اور پارٹی کا چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو کو منتخب کیا گیا۔

تاسیسی اجلاس میں نئی پارٹی کے تین درجِ ذیل نام تجویز کیے گئے:
(1) People’s Progressive Party (P.P.P)
(2) People’s Party(P.P)
(3) Socialist Party of Pakistan (S.P.P)

 

لیکن کنونشن نے تینوں مجوزہ ناموں کو مسترد کرکے نئی پارٹی کا نام پاکستان پیپلزپارٹی (Pakistan People’s Party) منظور کرلیا۔ اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے جھنڈے کی بھی منظوری دی گئی جو تین رنگوں، سرخ، سیاہ اور سبز برابر حصوں میں تقسیم ہے اور درمیانے یعنی سیاہ حصے میں چاند ستارہ سفید رنگ سے بنا ہواہے۔ پارٹی کی بنیادی دستاویز نمبر5 کے مطابق جو راہنما اصول قرار دیئے گئے ان کے مطابق پارٹی کے قیام کا پہلا مقصد یہ ہے کہ:
“The aim of the party is the transformation of Pakistan into a
socialist society in conformity with the aspirations of the people.”
جبکہ دوسرے دو راہنما اصول درجِ ذیل ہیں:(A) Egalitarian democracy that is a classless society, and
(B) The application of socialist ideas to realize economic and social justice.
پارٹی کے چار بنیادی ستون طے کیے گئے جو پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی فلسفے کا نچوڑ ہیں:
(1) اسلام ہمارا دین ہے۔
(2) جمہوریت ہماری سیاست ہے۔
(3) سوشلزم ہماری معیشت ہے۔
(4) طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے جاگیرداری کے مکمل خاتمے، کرپشن، صحافت پر پابندیاں، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، آزاد خارجہ پالیسی، دوطرفہ بنیادوں پر بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات، تیسری دنیا کی آزادی پسند تحریکوں کی حمایت، سامراج کے استحصالی کردار کی مخالفت، ہر قسم کے اندرونی و بیرونی استحصال کے خاتمے، تعلیم ،صحت، روزگار، رہائش اور انصاف کے حوالے سے اپنا انقلابی منشور پیش کیا۔ اس کے علاوہ بنیادی دستاویز میں آسام کے مسئلے کا حل، قبرص کے مسئلے پر ترکی کی حمایت، ویتنام کے عوام کی حمایت، مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور امریکہ کے گھنائونے کردار کی مخالفت، فلسطینیوں اور عربوں کی حمایت، تیسری دنیا کی آزاد قوموں کے ساتھ اتحاد و یکجہتی کا اعلان بھی کیا۔ بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کا منشور، اقلیتوں کا تحفظ اور پاکستان کے مضبوط دفاع کے ساتھ ساتھ عوامی فوج یا ملیشیا کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ یہ منشور پاکستان میں جدیدیت، ترقی، خوشحالی، تبدیلی، جمہوریت اور سماجی انصاف پر مبنی ایک انقلابی منشور ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے تاسیسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا:

 

’’ہم تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے عوام کے پاس جائیں گے۔ ہم عوام کے پاس سیکھنے اور سکھانے کے عمل کے تحت جائیں گے۔ جب عوام متحرک ہوجائیں گے تب ہم آگے کی جانب اکٹھے بڑھیں گے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے مقاصد کے حصول کی تکمیل کے لیے۔ لہٰذا پارٹی کے اراکین کو چاہیے کہ آپ عوام کے مسائل کو بغور سمجھیں اور اپنی پارٹی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں۔ اس طرح عوام دوست راستوں پر بھی چلیں گے اور ہمیں اپنی کمیاں اور غلطیاں درست کرنے کا بھی موقع ملے گا۔‘‘

’’ہم رسومات کا احترام کرتے ہیں لیکن بے ہودہ رسومات کا نہیں۔ ہم صرف ایسی رسومات کا احترام کریں گے جو عوام کے مفادات میں ہوں۔ ایسی فرسودہ رسومات کو برداشت نہیں کرسکتے جو ملک کو تباہی کے عمیق گڑھوں میں دھکیل دیں۔ ہم پاکستان کو ایک نئی شکل دینا چاہتے ہیں یعنی ایک انقلابی پاکستان۔‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک جدید سماج کی تعمیر کا اعلان کیا۔ ایک روشن خیال جمہوری اور خوشحال سماج جو قبائلی، جاگیرداری ،سرمایہ داری نظام اور جاگیردارانہ ثقافت سے پاک ہو۔ درحقیقت پاکستان پیپلزپارٹی نے ذوالفقارعلی بھٹو کی قیادت میں پاکستان کے عوام کی نئی سوچ، نئی ثقافت اور نئے رجحانات طے کرنے کا بھی بیڑا اٹھا لیا تھا۔ یہ ایک مشکل ،پیچیدہ اور طویل جدوجہد کا راستہ تھا جو ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے ترقی پسند ساتھیوں کے ساتھ طے کرنے کا عہد کیا۔

برِصغیرِ پاک و ہند میں ذوالفقارعلی بھٹو کے علاوہ مختلف ادوار میں مہاتماگاندھی، قائدِاعظم محمدعلی جناح اور بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمن کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی لیکن ان تینوں راہنمائوں میں سے کسی ایک نے بھی نئی پارٹی تشکیل نہیں دی۔ ذوالفقارعلی بھٹو برِصغیر کا واحد پاپولر لیڈر ہے جس نے ایک نئی جماعت کی تشکیل کی۔یقینا یہ ایک مشکل کام ہے ۔جمہوری سیاسی جماعتیں عوام کے ایسے ادارے ہوتے ہیں جو سماج کے مختلف رنگوں، نسلوں، فرقوں اور زبان رکھنے والے لوگوں کو ایک سیاسی فلسفے پر منظم کرتی ہیں۔ سیاسی جماعت کی تشکیل خود ایک بڑا کارنامہ ہے جو ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے بے وسیلہ ساتھیوں کے ساتھ سرانجام دیا۔ ان ساتھیوں میں ڈاکٹر مبشرحسن، معراج محمدخان، شیخ محمد رشید، ملک حامد سرفراز، محمود علی قصوری، حق نواز گنڈا پور، امان اللہ خان، حیات محمد خان شیرپائو، محمد حنیف رامے، خورشید حسن میر اور ممتاز احمد کاہلوں جیسے سیاسی کارکن پیش پیش تھے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی تشکیل ایک آئیڈیل سیاسی شعور کے دور میں کی گئی۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ترقی پسند تحریک ایک پاپولر تحریک بن چکی تھی۔ ذوالفقارعلی بھٹو اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کے شہر شہر، قصبات اور بڑے دیہاتوں میں خود جا کر پاکستان پیپلزپارٹی کی تنظیمیں بنائیں۔ عموماً پی پی پی کی تشکیل کا طریقِ کار یہ تھا کہ جب ذوالفقارعلی بھٹو کسی شہر میں جاتے تو وہاں پر موجود ترقی پسند سیاسی کارکن اتفاقِ رائے سے اپنی نئی جماعت کی تنظیم وتشکیل کرتے۔ چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو کو پاکستان پیپلزپارٹی کا کیڈر بنانے میں قطعاً کوئی مشکل نہ کرنی پڑی بلکہ مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی کے ہزاروں کارکن اور دوسرے ترقی پسند اور نہایت پختہ سیاسی شعور رکھنے والے سیاسی کارکن عوامی قائد ذوالفقارعلی بھٹو کو مغربی پاکستان کے کونے کونے میں ازخود پی پی پی کی تنظیمیں تشکیل دے کر خوش آمدید کہہ رہے تھے۔

ملک بھر میں کالجوں کے طلباکی بڑی تعداد اور نوجوانوں، مزدوروں اور محنت کشوں نے شہروں میں بڑی تعداد میں ذوالفقارعلی بھٹو کی پارٹی کا کارکن بننے کا فیصلہ کیا۔ یہی ایک نیا سیاسی کیڈر تھا جو ذوالفقارعلی بھٹو کے نئے سیاسی کردار سے متاثر ہوا تھا جو کہ عالمی تناظر میں ناصر، سوئیکارنو، مائوزے تنگ، ہوچی منہ اور چو این لائی جیسے راہنمائوں سے نظریاتی وجذباتی حد تک لگائو رکھتے تھے۔ پاکستان کے شہروں کے فیصلوں کی تائید و حمایت ملک کے دیہاتوں نے بھی کی۔ سرداری، قبائلی اور جاگیردارانہ نظام میں سسک سسک کر زندگی گزارنے والے ہاریوں، مزارعوں اور کسانوں میں ذوالفقارعلی بھٹو کے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے نے نئی زندگی کی امید پیدا کی۔ پنجاب اور سندھ کے کسانوں میں ذوالفقارعلی بھٹو اسی طرح ہیرو بن کر ابھرا جیسے شہروں کا ہیرو۔ جگہ جگہ جا کر نئی پارٹی کا قیام، پاکستان کے عوام کے لیے ایک نیا تجربہ اور نیااندازِ سیاست تھا۔ وگرنہ ماضی میں جس طرح حکومت اور سیاست کے فیصلے ڈرائینگ رومز میں ہوتے تھے اسی طرح حکمران مخالف روایتی جاگیردار سیاستدان بھی اپنی پارٹیوں کی تشکیل سرکاری ایوانوں اور حویلیوں میں ہی کرتے تھے۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان میں جاگیرداری، قبائلی اور سرمایہ داری نظام کے مکمل خاتمے کا اعلان کرکے شہروں اور دیہاتوں میں جلد ہی پاپولر تحریک کی شکل اختیار کرلی ۔ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت سے لے کر نچلی قیادت تک نے سوشلزم کو پاکستان کے فرسودہ نظام سے نجات کا راستہ قرار دیا جس کو عوام میں بھرپور انداز میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ سوشلزم پاکستانی سیاست کا مقبول ترین نعرہ بن گیا اور اسی طرح سوشلسٹ چین پاکستانی عوام کا آئیڈیل بنا۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں جہاں پر اوہام پرستی اور غلامانہ جاگیردارانہ اور نوآبادیاتی سوچ کو مسلط کیا گیا‘ یہ سیاسی فلسفہ حکمران طبقات کے لیے ایک کھلی بغاوت تھی۔ اسی لیے ایوب حکومت نے جس طرح نئی پارٹی کے خلاف پراپیگنڈا مہم کا آغاز کیا اسی طرح جاگیرداری نظام کے ظلم پر خاموش رہنے والے ملائوں نے پی پی پی کی فکری سیاست کو غیراسلامی اور کفر قرار دیا۔

تمام اختلافی فکر رکھنے والے ملائوں نے ایک آواز ہوکر ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف کفر کے فتوے صادر کرنے شروع کردیئے لیکن ذوالفقارعلی بھٹو اور اس کے ترقی پسند ساتھیوں نے مذہبی استحصال کرنے والے ملائوں کا فکری لحاظ سے بھی شاندار مقابلہ کیا۔ محمد حنیف رامے، شیخ محمد رشید، خورشیدحسن میر، ملک حامد سرفراز اور خود ذوالفقارعلی بھٹو سمیت لاتعداد دانشوروں نے فکری محاذ پر ملائوں کی کمزور اور فرسودہ عوام دشمن سوچ کو عملی طور پر شکست دی۔ اس فکری و علمی بحث میں ہزاروں ترقی پسند دانشوروں، صحافیوں اور ادیبوں نے ملائیت اور رجعت پسندی کی ٹوٹتی ہوئی سوچ کو شکست دینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے عوام کو پاکستان پیپلزپارٹی کی شکل میں ایک نیا پلیٹ فارم میسر آگیا اور یوں پی پی پی نے معاشرے کے پسماندہ طبقات کو باقاعدہ سیاسی بنیادوں پر منظم کرنے کا ایک تاریخی فریضہ سرانجام دیا۔

کسان، صنعتی مزدور، طلبہ، نوجوان، خواتین،نچلے اور درمیانے طبقات پاکستان پیپلزپارٹی کے پرچم تلے اکٹھے ہوگئے جبکہ اپرمڈل کلاس اور مڈل کلاس کے رجعت پسند حلقے اور اوپری طبقہ جن میں جاگیردار، افسر شاہی، بڑے تاجر، سرمایہ دار اور مُلّا، بھٹو اور اس کی پارٹی کے خلاف طبقاتی طور پر اکٹھے نظر آنے لگے۔ اس وقت کے گورنر مغربی پاکستان اور ایوب خان کے دستِ راست جنرل موسیٰ نے پیپلزپارٹی کے پرچم تلے منظم عوامی قوت کے بارے میں جو رائے دی اس سے اوپری طبقے کی سوچ واضح ہوتی ہے۔جنرل موسیٰ نے کہا:

’’ذوالفقارعلی بھٹوکے جلوسوں میں تانگہ، رکشا، ٹیکسی اور گدھا گاڑیوں والے ہی شامل ہوتے ہیں۔‘‘
چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو نے رابطۂ عوام مہم کے ذریعے پورے ملک خصوصاً سندھ اور پنجاب میں عوامی دوروں کا مسلسل آغاز کیا۔ ملتان کے ایک دورے کے دوران معروف جاگیردار نواب صادق حسین قریشی کے حکم پر بھٹو پر ایک قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا ۔یہ حملہ قادرپور راں کے مقام پر ہوا ۔جب حملہ آوروں نے ذوالفقارعلی بھٹو کی کار کو روکا تو وہ کار سے باہر نکل کر غنڈوں پر بھی برسے اور تماشائی پولیس پر بھی۔

31 دسمبر 1966ء کو ایوب خان کی حکومت کی طرف سے بیشتر سیاستدانوں پر سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کا قانون ایبڈو (E.B.D.O) یعنیElective Bodies Disqualification Order ازخود اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہوچکا تھا اور اس طرح اپوزیشن کے اکثر سیاستدان سیاست کے میدان میں کھل کر حصہ لینے کے اہل ہوگئے تھے۔ اپوزیشن کے محاذ پرپی- ڈی- ایم (Pakistan Democratic Movement) نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور پارلیمانی نظام حکومت کا مطالبہ شروع کردیا تھا۔ پی ڈی ایم کی آواز نے بھی ایوب حکومت کو دھچکا لگایا۔ اسی لیے ایوب خان بار بار عوام کو متنبہ کررہا تھا کہ ’’وہ اپوزیشن کی سازشوں اور چالوں میں نہ آئیں۔ وہ ملکی سلامتی اور خوشحالی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔‘‘
پاکستان کے دونوں حصوں مغربی و مشرقی پاکستان میں عوامی سطح پر ایوب حکومت کے خلاف نفرت زور پکڑ رہی تھی۔ حکومت کے خلاف عوامی نفرت کی بنیاد چند ہاتھوں میں دولت کی گرفت، کرپشن، امریکہ نواز اور آمرانہ نظامِ حکومت تھی۔

مغربی پاکستان میں لوگ ذوالفقارعلی بھٹو کی قیادت میں طبقاتی شعور کا مظاہرہ کررہے تھے جنہوں نے پی پی پی کی بنیاد رکھ کر کھل کر شدت کے ساتھ سوشلزم کا نعرہ بلند کیا۔ اس طرح مغربی پاکستان میں طبقاتی جدوجہد اپنی انتہا پر تھی جس میں ملوں کے مزدور، طلباو نوجوان،خواتین اور لوئرمڈل کلاس کے محنت کش طبقات پیش پیش تھے۔ یہ ایک Pre-revolutionary صورتحال تھی۔ مغربی پاکستان میں یہ دور سیاسی شعور کے لحاظ سے طبقاتی کشمکش کا دور تھا۔ مغربی پاکستان کے عوام سماج کا ڈھانچہ تبدیل کرکے نیا اور جدید سماجی نظام تشکیل دینے کے لیے عملی طور پر تیار ہوچکے تھے اور اس عوامی جدوجہد کا رجحان Anti-Imperialist بھی تھا جبکہ مشرقی پاکستان میں عوام قومی مسئلے کے حوالے سے بغاوت پر آمادہ ہورہے تھے۔

ان کے نزدیک مغربی پاکستان ان کی غربت اور استحصال کا سبب تھا۔ مغربی پاکستان کی فوج میں بالادستی، سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ اکثریتی آبادی کے حامل مشرقی پاکستان کے حقوق کو سلب کیے ہوئے تھی بلکہ ان کا زبان اور تعلیم کے مسئلوں پر ثقافتی استحصال بھی ہورہا تھا۔ ان دنوں عوامی لیگ کے راہنما شیخ مجیب مشرقی پاکستان میں مقبول لیڈر کے طور پر ابھر رہے تھے۔ مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی جو کہ ایک ترقی پسند چین نواز جماعت تھی مشرقی پاکستان میں غیرمقبول ہوتی جارہی تھی۔ ملک کے دونوں حصوں میں ایوب حکومت کے خاتمے کے نقطے پر عوام اکٹھے ہورہے تھے۔
پنجاب اور سندھ میں ذوالفقارعلی بھٹو نے لاہور، سرگودھا، چنیوٹ، لائل پور (فیصل آباد)، ملتان، سیالکوٹ، قصور، پشاور، راولپنڈی، کراچی، لاڑکانہ، حیدرآباد، شکارپور، چکوال، جہلم، مردان، کوہاٹ، چوہڑکانہ، شورکوٹ، ساہیوال سمیت پورے ملک کے شہروں اور بڑے قصبات میں خود جا کر اپنی پارٹی کی تنظیم اور ایوبی آمریت کے خلاف بغاوت، نئے سماج کی تشکیل اور امریکی سامراج کے تسلط کے خلاف علم بلند کیا۔

عوامی قیادت کے اس انداز نے ملک میں پھیلے ہوئے شہروں، قصبوں اور دیہات کو ایک عوامی سیاسی اور نظریاتی لڑی میں پرو دیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے عوامی اجتماعات میں عوام کی سیاسی تربیت کا انداز اپنایا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں عوامی بیداری کو اجاگر کیا۔ 22 جنوری 1968ء کو سرگودھا بار ایسوسی ایشن میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
’’جب میں وزیرِ خارجہ تھا تو بین الاقوامی معاملات میں پاکستان کا وقار بہت بلند تھا۔ دنیا بھر کے ممالک پاکستان کی حمایت کرتے تھے اور جنگ کے دوران بھارت تنہا رہ گیا تھا جس کا اعتراف لعل بہادر شاستری (ہندوستان کے وزیرِاعظم) نے بھی کیا تھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ اب کوئی واضح طور پر پاکستان کا ساتھی نہیں رہا۔ ایوب خان کی حکومت بار بار اصولوں سے انحراف کرتی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے بین الاقوامی تعلقات پر برا اثر پڑ رہا ہے اور کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے مسئلۂ کشمیر کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔‘‘

اس وقت پورے ملک میں سوشلزم، ذوالفقارعلی بھٹو اور پی پی پی کے حوالے سے بحث چل رہی تھی۔ یہ بحث کھوکھوں، ٹی سٹالوں، قہوہ خانوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، بار رومز اور سڑکوں کی نکڑوں پر روایتی عوامی ڈیروں پر اپنے عروج پر تھی کہ مسٹر بھٹو کس نظام کے داعی ہیں اور وہ نظام کس طرح ایک اسلامی معاشرے میں عمل پذیر ہوسکتا ہے؟ پی پی پی، ایوب آمریت کو ختم کرکے کس طرح عوامی جمہوریت کی داغ بیل ڈال سکتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ سرگودھا میں وکیلوں کے گروپ سے باتیں کرتے ہوئے ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا:

’’پیپلزپارٹی کمیونسٹ پارٹی نہیں ہے بلکہ ایک سوشلسٹ پارٹی ہے اور ان کے خلاف جو شرمناک مظاہرے کرائے جارہے ہیں وہ سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہیں اور وہ ان سے کبھی بددل نہ ہوں گے اور عوام پر بھروسہ کرتے ہوئے گائوں گائوں شہر شہر جا کر اپنا پیغام پہنچائیں گے۔‘‘
مسٹر بھٹو نے نئی پارٹی کے منشور، پیغام اور نظریئے کو سادہ لفظوں میں عوام کو سمجھانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ سوشلزم کا پرچم بلند کرنے پر ملائوں نے کفر کے فتوے تو صادر کیے لیکن وہ کوئی ٹھوس اور جامع تنقید یا بحث کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے بلکہ ان کی طرف سے مسٹر بھٹو کی کردارکشی کی گئی ۔ ملائوں نے بھٹو کی مخالفت کو کفر کے خلاف جہاد قرار دیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے تحریکِ پاکستان کے وقت برِصغیر کے مسلمانوں کے متفقہ راہنما قاِئداعظم محمدعلی جناح پرملّائوںنے کفر کے فتوے صادر کرکے ان کو قائدِاعظم کے بجائے ’’کافرِاعظم‘‘ قرار دیا تھا مگر ذوالفقارعلی بھٹو اپنے پیغام و نظریئے کو دلائل کی روشنی میں عوام کے پاس لے کر گئے۔ ملتان میں وکلاء سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا:

’’اسلام ہمارا عقیدہ ہے۔ اس کے لیے ہم زندگی بھی قربان کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی پارٹی اسلامی اصولوں پر استوار نہ ہوگی تو وہ پاکستان کے تقاضوں کو پورا نہ کرسکے گی۔ بانیٔ پاکستان قائدِاعظم اور مفکرِ پاکستان علامہ اقبال اسلام اور سوشلزم کو ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔ اسلام ہمارا عقیدہ ہے۔ سوشلزم ایک اقتصادی نظام ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اسلام کو اپناتے ہوئے اس نظام کی ترویج نہ ہوسکے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے عوام استحصال کا شکار ہیں۔ وہ مصیبت میں مبتلا ہیں۔ موجودہ نظام نہ آمرانہ ہے نہ جمہوری۔ یہ کئی نظاموں کا ملغوبہ ہے جو ہمارے جذبات کی ترجمانی نہیں کرسکتا۔ ہمیں ایک ٹھوس اور واضح نصب العین کی ضرورت ہے۔‘‘

چائے کی پیالی پر انقلاب برپا کرنے والے کمیونسٹوںنے مسٹر بھٹو کو اسلامی سوشلزم کا نعرہ بلند کرنے پر غیرسوشلسٹ قرار دیا۔ چائے کے سٹالوں پر قہوہ خانوں میں بیٹھے دانشور، عوام کے اجتماعی شعور کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اجتماعی شعور، حقیقت پسند اور عملیت پسند ہوتا ہے اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ یورپ اور لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک میں اگر کرسچیئن ڈیموکریٹس پارٹیاں ہوسکتی ہیں تو اسلامی معاشروں میں مسلم سوشلسٹ نظریہ ایک حقیقت پسند نظریہ کے طور پر اپنی حیثیت منوا سکتا ہے۔ ویسے بھی ذوالفقارعلی بھٹو کے گرد محمودعلی قصوری، مختار رانا، شیخ محمد رشید، حنیف رامے، ملک معراج خالد، امان اللہ خان، خورشید حسن میر، پرویز رشید جیسے لاتعداد سوشلسٹ سیاسی کارکن اور دانشور اکٹھے ہوچکے تھے جو عملی سیاست پر کاربند تھے نہ کہ چائے کی پیالی پر انقلاب برپا کرنے والے دانشور۔

ان کارکنوں نے دلیرانہ اور مردانہ وار سوشلزم کے منشور کو عوامی حلقوں میں ایک عوام دوست نظریہ اور پاکستان جیسے پسماندہ اور اسلامی معاشرے میں قابلِ قبول و عملی نظریئے کے طور پر منوایا۔ مسٹر بھٹو نے ساٹھ کی دہائی کے آخری حصے میں عوامی ترقی پسند جماعت قائم کرکے ایک مستقل عوامی تحریک کی شاہراہ کھول دی۔ یہ ذوالفقارعلی بھٹو کے عوامی جنم کا زمانہ ہے۔ جب انہوں نے اپنے خاندانی طبقے (جاگیردار) سے بغاوت کرکے ترقی پسند سیاسی کارکنوں کے ساتھ پاکستان کے مزدوروں، کسانوں، محنت کشوں، نوجوانوں،طلبا، رکشا، ٹیکسی ڈرائیوروں، تانگہ بانوں، پھٹے پرانے کپڑے پہننے والوں کی قیادت کا آغاز کرکے اپنی غریب ماں کی جھلک اپنی شخصیت میں واضح کردی اور کم عمری میں کارل مارکس سے متاثر ہوکر جو انہوں نے اس کے کمیونسٹ مینی فیسٹو سے غربت کی سیاست سیکھی، اس کا عملی مظاہرہ کر دکھایا۔ (ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب “میرا لہو” کی نویں قسط آئندہ ہفتے ملاحظہ فرمائیں)

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں