ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کی کہانی کی چھٹی قسط، فرخ سہیل گوئندی کے قلم سے

جنگِ1965ء اور ذوالفقارعلی بھٹو
برِصغیر میں انگریز کی آمد کے بعد جنم لینے والی نسلوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی تعصب کا ابھار روزبروز بڑھتا رہا جو آخرِکار مسلمانوں کے علیحدہ وطن پاکستان کی شکل میں اپنا رنگ جمانے میں کامیاب ہوا۔ ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کے بعد بھی یہ نفرت بدستور بڑھتی رہی۔ ہندوئوں کو اپنی قدامت کا اور مسلمانوں کو اپنی عظمتِ رفتہ پر فخر رہا۔

14 اگست 1947ء کو کھینچی جانے والی بائونڈری لائن بھی کدورتوں کو کم نہ کرسکی اور اس کے ساتھ ہی کشمیر کے بارے میں بھارت کا توسیع پسندانہ اور غاصبانہ رویہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ کشمیر پر ہندوستان کا غاصبانہ قبضہ سیاسی، جغرافیائی اور تاریخی طور پر یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ عظیم بھارت کو اس وقت تک نامکمل تصور کرتا ہے جب تک تمام علاقوں پر بھارت کا ترنگا نہ لہرا دیا جائے۔ جوناگڑھ اور حیدرآباد جنہوں نے تقسیم کے فارمولے کے تحت پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا ان پر بھارتی قبضہ اور کشمیر پر ناجائز تسلط بھارتی توسیع پسندی یا استعماریت پسند مزاج کا کھلا ثبوت ہے۔ 1947ء کے فوراً بعد آزادی پسند،حریت پسند کشمیریوں نے آزادی کا عملی آغاز کرکے اپنے حق کی حقیقت کو تسلیم کروایا اور یوں موجودہ آزاد کشمیر کا مختصر علاقہ بھارتی تسلط سے آزاد ہوا۔ آزادیٔ پاکستان کے بعد کشمیر کے مؤقف کو ایک قوم پرست انداز میں بلند کرنے کی کسی کو جرأت ہی نہ ہوئی۔

شروع میں پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اپنے مغربی آقائوں کے خوف سے کشمیر کے کاز کو جس طرح دبائے رکھا اس نے کشمیری جدوجہد کو سبوتاژ کیا لیکن ذوالفقارعلی بھٹو نے بحیثیت وزیرِ خارجہ پاکستان جس طرح پاکستان کو آزادی پسند تحریکوں کو تیسری دنیا کے نوآزاد ممالک کے ساتھ وابستہ کرکے پاکستان کے مؤقف کو جس انداز میں پیش کیا اس نے کشمیر کے کاز کو زندہ بھی کیا اور بھارتی خارجہ پالیسی کو سفارتی سطح پر شکست بھی دی۔ کشمیر کے مسئلے پر وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخ کے شعور کے تحت پاکستان کی آواز بلند کرکے عالمی رائے عامہ کو بیدار کر ڈالا جس سے کشمیر اور پاکستان کے اندر کشمیر کی آزادی کا نعرہ مزید زور دار آواز میں لگایا جانے لگا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے بھارتی مؤقف اور اس کی طرف سے پیش کی جانے والی نام نہاد تاریخی تاویلوں کو یکسر غلط ثابت کر دکھایا اور یوں پاکستان کو ذوالفقارعلی بھٹو کی شکل میں کامیاب وکیل دستیاب ہوا۔

1965ء کی پاک بھارت جنگ، برِصغیر کے دونوں ممالک پاکستان اور ہندوستان کی فوجی و سفارتی طاقت کا ایک مظاہرہ بھی تھا۔ بھارت خطے کا بڑا ملک ہے۔ بھارت کے پالیسی سازوں کو اپنی قوت اور عالمی سیاست میں اپنی افضلیت پر بڑا ناز تھا۔ سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات ایک توازن کے ساتھ استوار تھے۔ بھارت نے پاکستان پر اچانک حملہ کرکے جن فوجی مقاصد کی تکمیل چاہی وہ ہماری قوم کے دلیرانہ کردار کے سبب ممکن نہ ہوسکی۔ 17 دن کی یہ جنگ بھارتی پالیسی سازوں کے لیے غیرمتوقع طور پر پاکستان کے شکست خوردہ ہونے کا سبب نہ بن سکی۔ درحقیقت پاکستان نے ڈپلومیسی کے میدان میں بھی جنگ جیتی۔ انڈونیشیا، ایران، الجزائر، ترکی، مصر اور عوامی جمہوریۂ چین نے جس انداز میں پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی اور بھارتی حملے کی مذمت کی اس نے پاکستان کے عوام کو ایک نیا حوصلہ اور بھارتی پالیسی سازوں کو شرمندگی کے سوا کچھ نہ دیا۔ پاکستان پر بھارتی حملہ کے ایک دن بعد عوامی جمہوریۂ چین کی حکومت نے ایک بیان جاری کیا کہ:

’’بھارتی توسیع پسندی فوراً بند کی جائے اور اس کو اس مجرمانہ توسیع پسندی کی قیمت دینی پڑے گی۔‘‘
9 ستمبر کو چو این لائی نے بیان دیا کہ ’’بھارت کا حملہ ایشیا کے اس خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے اور چین اس صورتحال سے گہرے طور پر وابستہ ہوکر نئی تبدیلیوں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
بلکہ عوامی جمہوریۂ چین نے بھارت کو سیاسی انداز میں ایک اور جنگ کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ بھارت جو 1962ء سے چین کے ساتھ جنگ میں ہونے والی رسوائی کو ابھی تک نہ بھول پایا تھا اس صورتحال پر سخت پریشان ہوا۔ چین نے پاک بھارت جنگ کے دوران کہا کہ:
’’ہندوستان نے چین کی سرحد کے ساتھ جو فوجی چوکیاں بنالی ہیں وہ چین کے لیے خطرے کا باعث ہیں اور اگر ہندوستان نے فوری طور پر وہ چوکیاں مسمار نہ کیں تو نتائج کا ذمہ دار ہندوستان ہوگا‘‘ اور یہ کہ بھارتی، چین کی سرحد سے چینی باشندوں اور بھیڑبکریوں کو اغوا کرکے لے گئے ہیں، ان کو فوری واپس کیا جائے۔

یہ پاکستان کی نئی خارجہ پالیسی کا نتیجہ تھا کہ پاکستان، چین جیسے اہم ملک کی بھرپور حمایت لینے میں کامیاب ہوا جس کے سبب ہماری سرحدوں پر بھارتی حملہ آوروں اور عالمی فورمز پر بھارتی سفارتکاروں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے ساتھ امریکہ جس کے ساتھ ہمارے ’’خصوصی تعلقات‘‘ کی بنیاد اوائلِ آزادی میں پڑ گئی تھی اس کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی۔ حالانکہ11 جنوری 1955ء کو کراچی میں امریکہ کے ساتھ ہمارا ایک دفاعی معاہدہ ہوا تھاجس کو ’’Defense Support Assistance Agreement‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے فوجی سازوسامان اور عسکری ٹیکنالوجی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی طرح 5 اپریل 1955ء کو انقرہ میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کا ایک اور معاہدہ’’Bilateral Cooperation Agreement‘‘ کیا گیا تھا جس میں یہ شق شامل تھی کہ امریکہ پاکستان پر غیرملکی حملے کی شکل میں پاکستان کی بھرپور حمایت کرے گا خواہ حملہ بھارت کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔

اس معاہدے کے ٹھیک دس دن بعد 15 اپریل 1955ء کو ایک مزید نوٹ کے تحت امریکہ پاکستان پر غیرملکی حملے کی صورت میں مؤثر اور ضروری امداد کا بھی پابند ہوا۔ امریکہ مختلف اوقات میں پاکستان کے دفاع اور دوستی کا یقین دلواتا رہا بلکہ 5 نومبر 1962ء کو امریکہ نے اپنے گذشتہ معاہدات کو دہراتے ہوئے ان پر پابندی کا ایک بار پھریقین دلوایا اور یہ بھی کہا کہ پاکستان پر غیرملکی حملے کی صورت میں امریکہ پاکستان کی مکمل امداد جاری رکھے گا۔ ان معاہدات کے علاوہ پاکستان امریکہ کے عسکری معاہدات SEATO اور CENTO سے بھی شروع دن سے وابستہ تھا لیکن یہ تمام معاہدات پاکستان بھارت جنگ میں قابلِ عمل نہ ہوسکے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے جنگ کے دوران پاکستان کو اسلحہ اور فاضل پرزوں کی ترسیل پر پابندی لگا دی۔ پاکستان نے بار بار امریکہ کے ساتھ کیے گئے معاہدات کا ذکر کرتے ہوئے یاددہانی کرائی کہ امریکہ اس جنگ میں اپنا اثرورسوخ اور کردار ادا کرے لیکن وائٹ ہائوس نے اس جنگ میں عدم مداخلت کا اعلان فرما دیا جبکہ جدید خارجہ پالیسی کا معمار ذوالفقارعلی بھٹو اپنے فیصلہ کن کردار کو منوانے میں کامیاب ہوگیا جس کی ذاتی کوششوں کے سبب پاکستان ایک حقیقت پسندانہ صورتحال کو عالمی فورمز پر لانے میں کامیاب ہوا۔ وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو نے قومی اسمبلی میں امریکی امداد کی بندش پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:

’’ہمیں ایسی اقتصادی امداد کی کوئی ضرورت نہیں جو ہمیں قومی مفادات سے بے خبر کردے اور ہماری خودمختارانہ حیثیت کے لیے چیلنج بن جائے۔ اس سلسلے میں دنیاکی امیر قوموں کا رویہ افسوسناک ہے اور وہ ترقی پذیر ممالک کی امداد کے نام پر اپنے سیاسی مفادات کو پورا کرتی ہیں۔ یہ بھی غریب قوموں کے استحصال کی ایک بدترین شکل ہے۔‘‘
ذوالفقارعلی بھٹو نے امریکہ اور مغرب کے عالمی کردار پر مزید کہا کہ:
’’دنیا امیر اور غریب قوموں میں تقسیم ہوچکی ہے اور غربت کے خاتمہ کے لیے غریب قوموں کا اتحاد بہت ضروری ہے۔‘‘ اس ساری جنگ میں پاکستان کی جو شخصیت قومی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں Focus ہوئی وہ وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو تھے۔

اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل جیسے ادارے حقیقت میں عالمی سرمایہ داری نظام اور سامراج کے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاسی ہتھیار ہیں۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی ان اداروں نے مغرب کے مفادات کو سرِفہرست رکھا۔ انڈونیشیا کے احمد سوئیکارنو نے اقوامِ متحدہ کے اداروں کے عالمی سامراجی کردارکے بعد ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ ترقی پذیر ممالک ایک آزاد اور خودمختار اقوامِ متحدہ کا ادارہ تشکیل دیں جبکہ پاکستان میں امریکہ کے مفادات کے نگران پالیسی سازوں کی یہ کوشش تھی کہ کسی طرح وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو کو اس منظرنامے سے ہٹا دیا جائے اور سلامتی کونسل میں وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو کی جگہ کوئی ان کی پسند اور مرضی کا شخص پاکستان کی نمائندگی کرے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے وزیرِ قانون ایس ایم ظفر کو باقاعدہ امریکہ روانہ کردیا لیکن یہ سازش کامیاب نہ ہونے پائی۔ بھارت غیرمشروط طور پر جنگ بند کرنے پر متفق ہوگیا اور سلامتی کونسل میں ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی زندگی کی تاریخ ساز تقریر کرکے پاکستان کے عوام سمیت دنیا بھر کی نظریں اپنی طرف مرکوز کر لیں۔ بھٹو کی یہ تقریر ان کے مستقبل کے لیے ایک نیا مرحلہ ثابت ہوئی جہاں سے پاکستان کا وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو عالمی سطح پر سامراج دشمن کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ۔

22 ستمبر 1965ء کو سلامتی کونسل میں وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے خطاب میں کہا:’’جنابِ صدر! اتنی رات گئے سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد کرنے پر میں آپ کا اور تمام ارکان کا شکرگزار ہوں۔ یہ اجلاس جس مسئلے پر غور کرنے کے لیے طلب کیا گیا ہے نہ صرف پاکستانی عوام کے لیے بلکہ برِصغیر پاک و ہند، پورے ایشیا اور پوری دنیا کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور آپ نے اس مسئلے کے پیشِ نظر آدھی رات کو اجلاس طلب کرکے ہمارے ساتھ جس ہمدردی کا مظاہرہ کیا ہے اس کے لیے میں خلوصِ دل سے آپ اور سب ارکان کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں کونسل کے مستقل ارکان کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے رات کے اس حصے میں اجلاس میں شرکت کے لیے تکلیف گوارا کی۔ میں آپ سے گزارشات کرنے کے لیے پاکستان سے یہاں حاضر ہوا ہوں اور میں نے یہ اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی۔ اس وقت ہم ایک انتہائی نازک ترین مسئلے سے دوچار ہیں جس پر غور کرنا اشد ضروری ہے۔ میں سیکرٹری جنرل کا ممنون ہوں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بامقصد سمجھوتہ کرانے کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ ہم ان کی تمام مساعی سے آگاہ ہیں اور اس کے لیے ان کے اور سلامتی کونسل کے شکرگزار ہیں جنہوں نے اس معاملے میں ہمدردی اور دلچسپی کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایک ایسی جنگ میں ہم سے ہمدردی اور لگائو کا اظہار کیا ہے جو ہماری مرضی کے بغیر ایک عیار حملہ آور نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم پر مسلط کی ہے۔

پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے۔ آپ ذرا دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ اس نقشے میں ہمارا وجود کتنا ہے اور نقشے ہی سے آپ ہمارے وسائل اور ایک بڑے حملہ آور کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری قوت کا بھی آسانی سے اندازہ لگا سکیں گے۔
ہمیں ایک بڑے عفریت کا سامنا ہے۔ ایک ایسے جارح ملک کا جو بار بار جارحیت کا ارتکاب کرتا رہا ہے۔ ہم نے آزادی کے بعد سے اب تک 17 سال بھارت کی جارحانہ کارروائیوں کا سامنا کیا ہے۔ اس نے جونا گڑھ پر قبضہ کرلیا، ماتا اور مانگرول کو طاقت کے ذریعے ہڑپ کرلیا۔ اس نے حیدرآباد پر فوج کشی کرکے اس ریاست کو ہتھیالیا اور یہ گوا پر فوجی طاقت سے غاصبانہ قبضہ کرچکا ہے۔ اس نے اپنے جارحانہ عزائم کے ذریعے ایسے حالات پیدا کیے جن میں چین اور بھارت کی فوجوں میں تصادم ہوگیا اور اب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں بھارتی لیڈر پاکستان کو اپنا اولین دشمن قرار دیتے ہیں۔

جنابِ والا! پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے بھارت کی ہر پالیسی کا پہلا اور بنیادی ہدف سمجھنا چاہیے۔ 17 سال سے ہم دیکھ رہے ہیں اور اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ بھارت پاکستان کو ختم کرنے کا تہیہ کرچکا ہے۔ آپ اس بات سے باخبر ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ برِصغیر کی دو قوموں ہندو اور مسلمان کے درمیان آئے دن کے تنازعات اور بدامنی کو ختم کیا جائے۔ سات سو سال تک برِصغیر میں ان دونوں قوموں کی کشمکش جاری رہی اور ہم ہندو قوم کے ساتھ جو اکثریت میں تھی امن کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتے رہے لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی اور بالآخر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اس دائمی کشمکش کا حل اور برِصغیر میں قیامِ امن کا راستہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کرلیں خواہ وہ رقبے اور وسائل میں چھوٹا ہو لیکن اس قابل ہو کہ امن کے ساتھ زندہ رہ سکیں اور ایک بڑے پڑوسی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھ سکیں۔ برِصغیر میں قیامِ امن کی یہ خواہش ہی قیامِ پاکستان کا بنیادی اصول اور محرک تھی۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ یورپ میں بھی کئی اقوام کو ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ اور قریبی تعلقات قائم رکھنے کے لیے اس قسم کی تقسیم اور علیحدگی اختیار کرنا پڑی ہے۔ مثال کے طور پر اسی مقصد کے لیے ناروے اور سویڈن نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کی۔ ہمیں یقین تھا مسلمانوں کا علیحدہ وطن پاکستان قائم ہوجانے کے بعد برِصغیر میں امن قائم ہوجائے گا اور پاکستان اور بھارت کے عوام دوستی کے ساتھ اچھے ہمسایوں کی طرح زندگی بسر کرسکیں گے۔

جنابِ والا! ہمارا یہ پاکستان بہت چھوٹا سا ملک ہے اور جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں ہمارے وسائل بھی بہت محدود ہیں۔ آپ اگر دنیا کے نقشے پر اور پھر برِصغیر کے نقشے پر نظر ڈالیں تو خودبخود یہ بات آپ پر واضح ہوجائے گی کہ پاکستان نہ تو جنگ کا خواہشمند ہوسکتا ہے اور نہ اس کی طاقت رکھتا ہے لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہم پر حملہ کیا جائے اور ہمیں جارحیت کا نشانہ بنایا جائے۔ ہم جھگڑے سے بچنا چاہتے ہیں۔ ہم امن چاہتے ہیں کہ ہم اپنے عوام کی ترقی کے لیے کچھ کام کرسکیں۔ آج کی دنیا میں ہر علاقے اور ہر ملک کے عوام کچھ توقعات رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ عوام کی ان توقعات کو پورا کرسکیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنی تمام صلاحتیں اپنے عوام اور اقتصادی بہبود کے لیے استعمال کریں۔

میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا یہ قدرت کا قانون ہے کہ افریقہ اور ایشیا کے لوگ بھوکے اور مفلوک الحال رہیں؟ کیا یہ ہمارا مقدر ہوچکا ہے کہ ہم ہمیشہ بدحال اور پسماندہ رہیں؟ ہرگز نہیں، ہم پسماندگی اور افلاس کی ان دیواروں کو توڑ دینا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے عوام کے لیے ایک بہتر مستقبل تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہماری آئندہ نسلیں خوشحالی، اطمینان اور عزت کی زندگی بسر کریں۔ افریقہ اور ایشیا کے لیڈر آج اسی جدوجہد میں مصروف ہیں اور وہ پسماندگی اور افلاس کو ختم کر دینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو مفید اور تعمیری کاموں میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان جیسے چھوٹے ملک کے لیے خاص طور پر سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ تمام وسائل ترقیاتی کاموں میں استعمال ہوں۔ ہم تضاد اور لڑائی سے ہر قیمت پر بچنا چاہتے ہیں۔ ہم جنگ کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہم عوام کی تباہی و بربادی کے ہر امکان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بھارت کے عوام کی بھی قدر کرتے ہیں اور ان کا بھلا چاہتے ہیں۔ آخر چند سال پہلے تک ہم ایک ہی ملک کے باشندے تھے۔ یہ تو صرف چند وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ہمیں بھارت کے عوام سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی لیکن اس علیحدگی سے ہمارا مدعا یہی تھا کہ دونوں ملکوں کے عوام اچھے پڑوسیوں کی طرح ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں۔ امن اور صلح صفائی کے ساتھ زندگی بسر کریں اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے سکون کے ساتھ کام کرسکیں۔ پاکستان کے قیام کا بنیادی اصول یہ تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان کا حصہ ہوں گے۔ بھارتی لیڈروں نے اس بنیادی نظریئے کو تسلیم کرلیا تھا۔ اسی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی لیڈروں نے یہ اعتراف اور اقرار کرلیا کہ دونوں قوموں کے الگ اور آزاد وطن ہوں گے اور دونوں قومیں اس طرح امن کے ساتھ اچھے پڑوسیوں کی طرح زندگی بسر کریں گی۔ آج بھی ہم اس بنیادی بات کے سوا اور کچھ نہیں مانگتے۔

آج ہم ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جو بھارت نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم پر مسلط کی ہے۔ یہ 45کروڑ آبادی کے ایک طاقتور ملک کی طرف سے 10کروڑ آبادی کے ملک پر جارحانہ حملہ ہے۔ یہ ایک بہت بڑی قوم کی طرف سے، جو ہوسِ ملک گیری کا شکار ہے ایک چھوٹے پڑوسی ملک کو ختم کرنے کے لیے ایک کھلا جارحانہ اقدام ہے۔
یہ ایسا ہے جیسے جرمنی یا فرانس نے ڈنمارک پر حملہ کردیا ہو، یوں سمجھئے کہ جنوبی امریکہ کی کسی چھوٹی سی ریاست پر ارجنٹائن یا برازیل نے اپنی فوجیں چڑھا دی ہوں بلکہ زیادہ واضح طور پر یہ تصور کیجئے کہ امریکہ جیسی طاقت کسی چھوٹے ملک پر فوج کشی کردے۔ ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ ہمیں ختم کردیا جائے۔ ہم بھی زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کے عوام زندہ رہیں۔ اپنے ملک میں ترقی حاصل کریں، خوشحال زندگی بسر کرسکیں لیکن آج بھارت اپنی تمامتر قوت کے ساتھ ہم پر حملہ آور ہوگیا ہے۔ بھارت کا طاقتور فضائی بیڑا ہمارے شہروں پر اندھا دھند بمباری کررہا ہے۔ ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔ ہم اپنی عزت ، اپنے ناموس اور اپنے وطن کا ہر قیمت پر دفاع کریں گے۔ ہم نے جنگ شروع نہیں کی۔ دوسری طاقت نے ہم پر حملہ کیا ہے۔ ہمیں اپنے وطن کو بچانا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ہمارا ملک بہت چھوٹا ہے، ہمارے وسائل محدود ہیں، ہمیں دشمن کا مقابلہ کرنا ہے اپنے وطن کا دفاع کرنا ہے اور لڑنا ہے۔

ہم لڑتے رہیں گے اس لیے کہ ہم حق پر ہیں۔ ہم ایک اصول کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ ہم اپنے اس عہد کے لیے لڑ رہے ہیں جو حقِ خودارادیت کے لیے ہم نے کیا ہے۔ ہم ہر صورت میں حقِ خودارادیت پر عقیدہ رکھتے ہیں اور آج ہم ہی نہیں ایشیا اور افریقہ کی ہر قوم اس معاملہ میں متفق ہے۔ حق خودارادیت کا یہ اصول جس کے لیے ہم لڑ رہے ہیں ایک ایسی متحرک قوت ہے جسے اب کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی اور ہم یہ جنگ لڑتے رہیں گے پورے عزم کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھیں گے اور دنیا کی جو طاقتیں بھی ہمارے خلاف صف آرا ہو رہی ہیں ان سب کا مقابلہ کریں گے۔

سیکرٹری جنرل نے اس معاملے میں مفید تجاویز پیش کی ہیں۔ ہم ان کے ممنون ہیں۔ ہم صرف سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ہی ان کی قدر نہیں کرتے بلکہ انہیں ہم ایشیا کا عظیم مدبر سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستان اور بھارت کے ایک عظیم ہمسایہ ملک برما کے لیڈر ہیں اور ہم برما کے ایک مدبر اور سیکرٹری جنرل دونوں حیثیتوں میں ان سے تعاون کریں گے۔ راولپنڈی میں ان سے بات چیت کے دوران ہم نے انہیں بتا دیا تھا کہ ہم امن چاہتے ہیں، ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم تباہی و بربادی نہیں چاہتے لیکن سوال یہ ہے کہ جنگ بندی مستقل ہونی چاہیے۔ اس سے ایسا امن قائم ہونا چاہیے جس سے بھارت اور پاکستان آئندہ کے لیے اچھے ہمسایوں کی طرح زندگی بسر کرنے کے قابل ہوجائیں۔ ہم بھارت کے پڑوسی ہیں اور اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔ ہم روز روز کے جھگڑوں سے تنگ ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ جھگڑے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں۔

جنابِ والا! میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ تمام قوموں اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں اور بھارت تو ہمارا سب سے قریبی ہمسایہ ہے۔ قدرتی بات یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ اگر ہم بھارت سے دوستانہ تعلقات قائم نہ کرسکیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمسایہ ممالک اور دوسرے ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے ہماری تمام کوششیں رائیگاں ہیں۔

ہم نے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے ایک مرتبہ نہیں کئی بار کوششیں کی ہیں۔ کتنی ہی بار ہم نے اس معاملے میں پہل کی۔ بھارتی نمائندہ یہاں موجود ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا۔ یہ تاریخی حقائق جھٹلائے نہیں جا سکتے ۔یہ بات ایک مرتبہ نہیں بارہا ثابت ہوچکی ہے کہ ہم بھارت سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اور امن سے رہنا چاہتے ہیں لیکن یہ دوستی اور امن آبرومندانہ بنیادوں پر ہونا چاہیے اور بھارت کو بھی اعتراف کرلینا چاہیے کہ یہ امن اور دوستی ان وعدوں کی بنیاد ہوسکتی ہے جو خود بھارت نے پاکستان، کشمیری عوام اور پوری دنیا کے ساتھ کر رکھے ہیں۔
بھارت کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ یہ بات طے ہوچکی ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ کشمیر نہ اس وقت بھارت کا حصہ ہے اور نہ کبھی بھارت کا حصہ رہا ہے۔ اگر یہ کسی ملک کا حصہ ہے تو بھارت کے بجائے پاکستان کا ہوگا۔ بھارت خواہ کچھ بھی کہتا رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کشمیری عوام پاکستانی قوم کا حصہ ہیں اور ہمارا گوشت پوست ہیں۔ مذہبی، ثقافتی، جغرافیائی، تاریخی ہر اعتبار سے کشمیری عوام پاکستانی قوم کا حصہ ہیں۔

کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے لیے اور اپنے دفاع کے لیے ہم ایک ہزار سال تک بھی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ میں ایک سال پہلے بھی سلامتی کونسل کو یہ بات بتا چکا ہوں۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ اس ادارے نے اپنی تمام طاقت اوراپنی تمام دانشمندی کے باوجود گذشتہ سال کشمیر کے مسئلے پر ایک قرارداد منظور کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت اسی سلامتی کونسل کا یہ خیال تھا کہ کشمیر کا مسئلہ اٹھا کر گویا ہم ایک مردہ گھوڑے کو یہاں گھسیٹ لائے ہیں اور ہم اپنے ملک کے لیے پراپیگنڈا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دنیا کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ پاکستان کے دس کروڑ عوام اپنے عہد اور اپنے وعدوں کو ہرگز فراموش نہیں کریں گے۔ بھارت چاہے اپنے تمام وعدے بھلا دے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ ہم چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اپنے محدود وسائل کے باوجود آخری دم تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہم اپنے دفاع کے لیے ،اپنے وقار اور اپنی آبرو کے لیے لڑتے رہیں گے۔ ہم حملہ آور نہیں ہیں ہم پر حملہ کیا گیا ہے۔ سلامتی کونسل کا فرض تھا کہ وہ یہ اعلان کرتی کہ جنگ میں حملہ آور کون ہے اور یہ بھی بتاتی کہ کس ملک کو جارحانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

میں یہاں ان ملکوں کے نمائندوں کی تقریروں کا ذکر نہیں کرتا جو سرے سے کوئی ملک ہی نہیں ہیں۔ میں ان لوگوں کی بات کررہا ہوں جو انصاف اور سچائی پر ایمان رکھتے ہیں۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس سے پہلے بھی جنگیں لڑی گئی ہیں اور قوموں نے انصاف اور سچائی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ میں یہاں سلامتی کونسل کا ذکر کررہا ہوں جس نے سچائی اور انصاف کی حمایت کی ہے۔ ہم اس حد تک اس کے شکرگزار ہیں۔

بالآخر حق و انصاف کی فتح ہوگی اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کو بھی ان کا حق مل کر رہے گا۔ ان 50 لاکھ افراد کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ حقِ خودارادیت جس کا نعرہ آج پورے افریقہ اور ایشیا میں گونج رہا ہے ساری دنیا کے لیے تسلیم کیا جائے اور جموں و کشمیر کے لوگ ہی اس سے محروم رہیں؟ کیا وہ بھارتی معاشرے کے اصولوں کے مطابق اچھوت ہیں؟ آخر انہوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ان کو حقِ خودارادیت نہ دیا جائے اور انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے محروم رکھا جائے؟

بھارت آج ساری دنیا سے الگ تھلگ ہوچکا ہے۔ اس وسعت اور طاقت کے باوجود آج دنیا میں کوئی نہیں جو کھل کر اس کی حمایت کرسکے۔ پورا افریقہ اور ایشیا کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا حامی ہے۔ کاسابلانکا میں عرب ملکوں کے سربراہوں نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یورپی اقوام کشمیریوں کے حق کی حمایت کرچکی ہے۔ وزیر خارجہ مسٹر ڈین رسک کہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ استصواب کے ذریعے طے ہونا چاہیے۔ ایک طرف پوری دنیا حق کی حمایت کا اعلان کررہی ہے اور دوسری طرف بھارت کی خوفناک جنگی طاقت ہے جو ہوسِ ملک گیری کے تحت اپنے وعدوں اور اپنے عہدواقرار کو نظرانداز کرتے ہوئے کشمیری عوام کے جذبۂ حریت کو کچلنے پر آمادہ ہے۔ یاد رکھئے عوام کے عزم اور ان کے جذبۂ حریت کو کبھی کچلا نہیں جاسکتا۔ میں آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ آج فائربندی ہوسکتی ہے لیکن پاکستان کے دس کروڑ عوام کبھی اپنے اصولوں، اپنے ایمان اور اپنے وعدوں کو پامال نہیں ہونے دیں گے اور اس مقصد کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔

جنابِ والا! اپنی ان معروضات کے بعد میں آپ کے سامنے صدرِ پاکستان کا تار پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں جو ابھی مجھے راولپنڈی سے موصول ہوا ہے۔ تار کا متن یہ ہے:
سلامتی کونسل نے 20 ستمبر کو جو قرارداد منظور کی ہے پاکستان اسے ناقابلِ اطمینان تصور کرتا ہے۔ تاہم عالمی امن کی بقا کے لیے اور سلامتی کونسل کو ایک ایسا طریقِ کار طے کرنے کی مہلت دینے کے لیے جس کے تحت اس تنازع کو جو موجودہ جنگ کا بنیادی سبب ہے یعنی ’’جموں و کشمیر کا تنازع‘‘ میں نے پاکستان کی افواج کو حکم دے دیا ہے کہ وہ آج مغربی پاکستان کے وقت کے مطابق 12 بج کر 5 منٹ پر فائرنگ بند کردے۔ اس وقت کے بعد دشمن کی فوجوں پر کوئی گولہ یا گولی نہ چلائیں گی اِلاّیہ کہ دشمن کی طرف سے ان پر گولی چلائی جائے۔ یہ حکم اس بات سے مشروط ہے کہ بھارتی حکومت بھی اپنی فوجوں کو اس قسم کا حکم جاری کرے اور جموں و کشمیر کے تنازع کو جلد حل کیا جائے، کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق جیسا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں تجویز کیا گیا تھا اور جیسا کہ ہندوستان نے منظور کیا تھا۔‘‘

حال ہی میں 15 اپریل اور 18 اپریل کو حکومتِ انڈونیشیا نے بھی مسئلۂ کشمیر کا حل چاہا ہے، کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق،انڈونیشیا اور فلپائن نے بھی مسئلۂ کشمیر کا حل چاہا ہے، کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ۔انڈونیشیا کے دس کروڑ باشندوں نے ایک مشترکہ اعلان میں جس پر پاکستان اور انڈونیشیا دونوں کے وزیرِ خارجہ کے دستخط تھے 15 اپریل کو افسوس ظاہر کیا کہ:
’’بھارت اور پاکستان کا کشمیر پر تنازع اس تمام خطہ کے امن و تحفظ کے لیے ایک خطرہ ہے۔ دونوں کو اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے نیز اس سے بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات خراب ہورہے ہیں جس کا اثر افریقہ، ایشیائی اتحاد پر پڑ رہا ہے۔ چنانچہ دونوں وزرائے خارجہ اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ اس تنازع کو جلد از جلد حل کیا جائے۔ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق اور ان تمام شرائط کے مطابق جو سلامتی کونسل کی قراردادوں میں موجود ہیں اور جنہیں بھارت اور پاکستان دونوں نے تسلیم کرلیا تھا‘‘۔
فلپائن اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ اعلان کے یہ الفاظ ہیں:’’فلپائن کے سیکرٹری برائے امورِ خارجہ اور پاکستان کے وزیرِخارجہ اس بات پر متفق ہیں کہ مسئلۂ کشمیر کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے اور اس تنازع سے بھارت اور پاکستان میں دوستانہ تعلقات میں رکاوٹ پڑ رہی ہے اور افریقہ ایشیا کے اتحاد پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ دونوں وزیر ہم خیال ہیں کہ اس مسئلہ کو جلد حل کیا جائے، کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق جیسا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں تجویز کیا گیا تھا اور جنہیں بھارت نے تسلیم کرلیا تھا‘‘۔
افریقہ اور ایشیا کی کئی اور اقوام بھی ہیں جنہوں نے پچھلے چند ہفتوں میں کشمیری لیڈروں پر مشتمل ایک وفد کا خیرمقدم کیا اور مسئلۂ کشمیر کے حل کی فوری ضرورت پر زور دیا جو بقول ان کے حقِ خودارادیت کے اصول کے مطابق ہونا چاہیے جیسا کہ بھارت اور پاکستان اقوامِ متحدہ کشمیری عوام کو ضمانت دے چکے ہیں۔ ان اقوام کے نام یہ ہیں۔مراکش، آئیوری کوسٹ، نائیجیریا، سیرالیون، سینی گال، سوڈان، صومالیہ، الجزائر، ترکی، ایران، شام، اردن، لبنان اور سعودی عرب وغیرہ۔

اس ضمن میں مَیں صدر بورقیبہ کا 19 مارچ کا بیان نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو انہوں نے اس کشمیری وفد سے ملنے کے بعد دیا جس نے افریقہ اور ایشیا کا پچھلے مہینے دورہ کیا۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
’’مجھے اپنا مؤقف یاد ہے جو میں نے چند سال ہوئے اس مسئلہ پر اختیار کیا تھا۔ میرے مؤقف کی بنیاد اس ہمدردی پر نہیں تھی جو ایک مسلمان کو دوسرے کے ساتھ ہوتی ہے بلکہ اس دلی تعظیم پر جو میرے دل میں انسان کے مقام اور انسانی حقوق کے لیے ہے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں نے علانیہ ہندوستان کی مخالفت کی تھی۔ اس بات پر کہ اس نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے کروانے سے انکار کردیا۔ میرا مؤقف یہ نہیں ہے کہ میں ایک فریق کی دوسرے کے مقابلے میں حمایت کررہا ہوں، مسلمان کی ہندو کے خلاف یا پاکستان کی بھارت کے خلاف۔ میں نے یہ واضح کردیا ہے کہ ہمارا مؤقف تو ان فیصلوں کے مطابق ہے جو سلامتی کونسل نے کیے ہیں۔

’’ہم نے بھارت کے وزیرِاعظم سے خط کتابت کے دوران یہ امر واضح کردیا ہے کہ ہم اس بارے میں بھارت کی حمایت نہیں کرسکتے اور ہم اس فیصلے پر جمے ہوئے ہیں۔‘‘
الجزائر کے صدر بن بیلا نے بھی اس انداز میں فرمایا ہے:
’’مسئلۂ کشمیر ہمیشہ ہماری نظر میں رہا ہے اور ہم اپنا مؤقف واضح کرچکے ہیں یعنی یہ کہ کشمیری عوام کو حقِ خوداختیاری دیا جائے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل ہونا چاہے۔‘‘
ان تمام ممالک اور دوسروں نے بھی کشمیری عوام کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ چنانچہ ہندوستان کی اس شدید قوم پرستی اور سامراجیت کے خلاف جدوجہد کرنے میں کشمیری عوام کو ایشیا اور افریقہ کی ان تمام اقوام کی پشت پناہی حاصل ہے جو سامراجیت کے خلاف ہیں بلکہ جنوبی امریکہ کی اقوام بھی۔

اس کے باوجود بھارت کے وزیرِاعظم نے پارلیمنٹ میں 13 اپریل کو یہ بیان دینا مناسب سمجھا کہ مسئلۂ کشمیر کبھی کا حل ہوچکا ہوتا اگر پاکستان کو مغربی ممالک کی مدد حاصل نہ ہوتی۔
یہ کوتاہ نظری واقعی افسوسناک ہے۔ کیا میں وزیرِاعظم کو یاد دلانے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ مسئلۂ کشمیر کبھی کا حل ہوچکا ہوتا اگر بھارت بین الاقوامی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی نہ کرتا اور اپنے پکے وعدوں اور بین الاقوامی وعدوں کو نہ توڑتا۔ اگر مسئلۂ کشمیر آج بھی زندہ ہے باوجود اس تشدد کے جو کشمیری عوام کے ساتھ 17 سال سے روا رکھا گیا ہے تو اس کی وجہ کشمیری عوام کی ناقابلِ شکست ہمت اور ان کا عزم بالجزم ہے کہ اپنے حقوق حاصل کرکے ہی رہیں گے۔
سلامتی کونسل کے ممبران نے حقِ خوداختیاری کی حمایت کی ہے جو یواین کی دو قراردادوں میں بیان کیا گیا ہے۔ بھارت اور پاکستان بھی ان قراردادوں میں فریقین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان قراردادوں میں عملدرآمد کروانے کی ضمانت دینے کے بعد بھارت اب ان ذمہ داریوں سے روگردانی کررہا ہے اور مسئلہ کشمیر کے وجود تک سے انکاری ہے اور اب بھارتی وزیرِاعظم مظلوم صورت بنا کر افسوس کررہے ہیں کہ سلامتی کونسل بالخصوص مغربی ممالک کے ارکان کیوں مسئلۂ کشمیر کے تصفیہ پر زور دیتے ہیں۔

بھارت کے وزیرِاعظم کو یہ گمان دل سے نکال دینا چاہیے کہ مسئلۂ کشمیر کبھی کا ان کی مرضی کے مطابق طے ہوچکا ہوتا اگر مغربی ممالک پاکستان کی حمایت نہ کرتے۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ نہ صرف مغرب بلکہ ایشیا ،افریقہ اور جنوبی امریکہ کی اقوام نے کشمیری عوام کے مطالبے کی حمایت اور یو این کی قراردادوں پر عمل کرنے کی تائید کی ہے تاکہ یہ تنازع پرامن اور منصفانہ طریقے سے طے ہوجائے۔
جنابِ صدر! میں نے اب تک اپنی تقریر میں ان نئے پہلوئوں سے بحث کی ہے جو مسئلۂ کشمیر میں داخل ہوگئے ہیں یعنی کشمیری عوام کی بھارتی قبضہ کے خلاف بغاوت اور وہ بڑھتی ہوئی عالمگیر ہمدردی اور حمایت جو کشمیری عوام کو حاصل ہوتی جارہی ہے۔ خاص کر ایشیا اور افریقہ کی حکومتوں اور عوام سے اس مسئلہ کی پرامن اور منصفانہ حل کی تلاش میں جس کے لیے انہیں اپنا حقِ خوداختیاری استعمال کرنا لازمی ہے اور اس حق کے دلانے کی بھارت اور پاکستان اور اقوام متحدہ خود ضمانت لے چکے ہیں۔

میں شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کے بیانات نقل کرچکا ہوں، حقِ خوداختیاری کے بارے میں اور استصوابِ رائے کے بارے میں اور الحاق کے بارے میں اور ان طریقوں کے بارے میں جن کا اختیار کرنا ضروری ہے تاکہ ہندوستان کے درمیان یہ تنازع کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل ہو۔ میں نے بھارت کے کئی نامور اشخاص کی آراء بھی نقل کی ہیں جو امن پسند اور صلح جو ہیں۔

لیکن بھارتی حکومت کا وقت کے ان تقاضوں کے سامنے کیا ردِعمل رہا ہے؟ کیا اس نے کوشش کی ہے کہ حالات کا ازسرِنو جائزہ لے اور اپنی پالیسی پر نظرِثانی کرے تاکہ کوئی مفاہمت اور مصالحت کا راستہ نکلے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے کوئی آثار نہیں ہیں۔ 12 اپریل کو بھارتی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے بھارتی وزیرِاعظم نے شیخ عبداللہ کے بیانات کو محض ’’افسوسناک‘‘ کہہ کر رد کردیا۔ بھارت کے وزیرِاعظم مسٹر لال بہادر شاستری نے بھی پارلیمنٹ میں وہی بات دہرانی مناسب سمجھی کہ ’’کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ اٹل ہے۔‘‘ مسٹر شاستری نے شیخ عبداللہ کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ہمارے خیالات کی تائید و حمایت نہ کی تونتائج بہت برے ہوں گے۔ بھارت کے وزیرِ امورِ داخلہ مسٹر نندا نے ’’عالمانہ‘‘ انداز میں کہا:
’’تاریخ کے بعض حقائق اٹل ہوتے ہیں، ریاستِ جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق بھی بھارتی تاریخ کی ایک حقیقت ہے اس کا پلٹنا اب ممکن نہیں۔‘‘
(بحوالہ ہندوستان ٹائمز 16 اپریل)

مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیرِاعظم مسٹر جی ایم صادق نے بھی اس ڈرانے دھمکانے کی مہم میں پیچھے رہنا مناسب نہ سمجھا اور 16 اپریل کو بڑی شان سے کہا:
’’ابھی تک کوئی ایسا جادوگر پیدا نہیں ہوا جو بس پھونک دے اور ہماری حکومت اور فوجیں غائب ہوجائیں۔‘‘
انہوں نے وہی بات دہرائی کہ کشمیر اسی طرح بھارت کا حصہ ہے جیسے بمبئی، کلکتہ اور مدراس۔
(ٹائمز آف انڈیا بمبئی 17 اپریل)
کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے منصوبوں کے بارے میں مسٹر صادق نے 19اپریل کو کہا کہ اس بدنام بل کے ملتوی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس کی رو سے لفظ ’’صدرِ ریاست‘‘ اور وزیرِاعظم جموں و کشمیر کو بدل کر ’’گورنر‘‘ اور ’’وزیرِاعلیٰ‘‘ کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل ضرور بالضرور ریاستی اسمبلی کے اگلے اجلاس میں زیرِغور لایا جائے گا۔(ہندوستان ٹائمز 19 اپریل)
20 اپریل کو اس کٹھ پتلی وزیرِاعظم نے پھر بھارت کے دارالحکومت میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کی تجویز دی تاکہ کشمیر کا پوری طرح سے بھارت سے الحاق ہوجائے۔
(ٹائمز آف انڈیا 21 اپریل)

15 اپریل کو بھارت کے وزیرِامورِ داخلہ مسٹر نندا نے بھارتی پارلیمنٹ میں کہا کہ جموںو کشمیر سے بھارت کا الحاق مکمل ،پختہ اور اٹل ہے اور حکومت کی یہ پالیسی بدلی جائے گی۔ محض اس لیے کہ کسی نے کہیں کچھ کیا ہے۔
29 اپریل کو بھارت کے وزیرِ خزانہ مسٹر شنم اچاریہ نے یہ دلچسپ بیان دیا جس سے ان کے خیالات کا اندازہ ہوتا ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حکومت کشمیر کی سیاسی حیثیت پر نظرِثانی کرے اور یہ کہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے بنیادی معاملات طے ہوگئے ہیں صرف جزئیات رہتی ہیں۔
گو یقین نہیں آتا لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان بھارتی وزراء کو یاد دہانی کروانا ضروری ہے کہ پاکستان کا تنازع کشمیر کے الحاق کی جزئیات کے بارے میں نہیں ہے اور نہ ہی سلامتی کونسل ان جزئیات پر پریشان ہے۔ پاکستان کے درمیان بین الاقوامی معاہدے جو کشمیر کے بارے میں ہیں وہ ان جزئیات کے بارے میں نہیں ہیں۔ کشمیر کے عوام نے واضح کردیا ہے کہ وہ جو جدوجہد کررہے ہیں وہ اس لیے نہیں کہ یہ جزئیات کیسے طے ہوں۔ کشمیر، پاکستان کے عوام اور اقوامِ متحدہ سے یاحکومت ِ پاکستان سے یوں کہا جائے کہ اس مسئلہ کا حل کشمیری عوام کی مرضی کے عین مطابق ہو اور اسے غیرجانبدارانہ طریقے پر دریافت کیا جائے۔

جنابِ صدر! اس خاص موقع پر کشمیری عوام کے مفاد، برِصغیر کے مفاد بلکہ ایشیا کے مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ سلامتی کونسل ہر وہ قدم اٹھائے جو اس تنازعے کے فوری اور منصفانہ اور باعزت حل کو اور قریب لاسکے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ کشمیری عوام پہلے ہی الحاق کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔ ہمارا کہنا ہے کہ کشمیری عوام کو ابھی اپنا حقِ خوداختیاری استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ہم مُصر ہیں کہ انہیں ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ بھارت سے الحاق کریں یا پاکستان سے۔ اس لیے ہم تجویز پیش کرتے ہیں کہ شیخ عبداللہ کو سلامتی کونسل کے سامنے پیش ہونے کی دعوت دی جائے۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ اس غرض سے کارروائی کے ’’عارضی اصول نمبر 39‘‘ کے تحت مناسب اقدام اٹھائے جائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ ایسی معلومات بہم پہنچا سکیں گے جو اس مسئلے کے حل میں ممدومعاون ثابت ہوسکیں۔

اس اصول کے تحت بعض اشخاص کو کونسل میں مدعو کرنے کا سلسلہ پہلے ہی شروع کیا جا چکا ہے اور اس کی نظیر موجود بھی ہے لہٰذا ایسا کرنے پر کونسل پر کوئی قانونی یا آئینی گرفت نہیں ہوتی۔ مجھے امید ہے کہ میری اس تجویز پر ہمدردی سے غور کیا جائے گا۔
جناب صدر! میں اس موقع پر پاکستان کے عوام کی طرف سے بھارت کے عوام تک ایک پیغام پہنچانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے:16 سال سے ہم بحث و مباحثہ کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ شاید اقوام کی طویل تاریخ میں ایسے تاریک دور آہی جاتے ہیں۔ ان کا اختتام بھی ہونا لازمی ہے۔ دانائوں نے یہ حقیقت بار بار بیان کی ہے۔ تلخ و تند برکھا کا بھی ایک وقت ہوتا ہے اور صلح و آشتی کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ 16 سال سے کشمیر کو اس کے بنیادی حق سے محروم کیا جارہا ہے کہ وہ بھی بھارت اور پاکستان کی اس آزادی میں شامل ہو جو ان دونوں ممالک کو حاصل ہوئی ہے۔ اب ان حالات کو جاری رکھنے کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔ بھارت اپنی جھوٹی انا کو کب تک سینے سے لگائے رہے گا اور ایک موہوم قومی افتخار کی آڑ کب تک لے گا؟ زمانے کی ایک روح اور ایک تقاضا ہے کہ جس سے انحراف ممکن نہیں اور یہ تقاضا ہے آزادی اور خودمختاری کا۔ اب تلافی کا وقت آگیا ہے۔ وہ گھڑی آپہنچی جب کشمیری عوام کی بیڑیاں توڑنی ہوں گی۔ وہ وقت آگیا ہے جب دانائی و فراست سے بیداد کی داد ہوگی اور عہد کا ایفا ہوگا۔

وقت آ گیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کو عدل و انصاف، صلح و آشتی، محبت اور مروت کی بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ قدرت کے پراسرار کرشموں سے وقت نے یہ کروٹ لی ہے کہ ہندوستان کو ایک نادر موقع حاصل ہو، ہمسائیگی اور دوستی کا ایک نیا دور شروع کرنے کا اور تعمیری جدوجہد کرنے کا۔کشمیر ان تعلقات کی استواری میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہم اس مسئلہ کو ان اصولوں کے مطابق طے کرلیں جن کو ہم باقاعدہ تسلیم کرچکے ہیں اور جن کی ضمانت ہم نے کشمیری عوام کو دی ہے تو ہم امن و انسانیت کی بلندیوں تک جا پہنچیں گے۔ اس کے برعکس اگر ہم مخاصمت اور بغض و عداوت میں پھنسے رہے تو تنفر اور تنازع کا سلسلہ اور بھی طویل ہوتا جائے گا۔ انسانی معاملات میں ایک مدوجزر ہے اور جو بہائو کے ساتھ تیر نکلا اس کا بیڑا پار ہوگیا۔ وہ موقع اب ہمیں حاصل ہے۔ وہ وقت آگیا ہے جب فیصلہ ہوجائے گا آیا بھارت اورپاکستان اپنے جھگڑے کو منصفانہ طور پر طے کرکے کامیاب اور ارجمند ہوں گے یا باہمی کشیدگی کے باعث اس وسعت پذیر اور ہمت آزما دنیا میں کوئے مراد کھو بیٹھیں گے۔‘‘
ذوالفقارعلی بھٹو اس تقریر کے دوران جس دکھ درد اور کرب کاشکار تھے اس کا اندازہ ان آنسوئوں سے ہوتا ہے جو دورانِ تقریر ان کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔ یہ مسٹر بھٹو کی ایک یادگار تقریر ہے جس کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ 15 اکتوبر کو جب وہ وطن واپس لوٹے تو پوری قوم دو نعرے لگا رہی تھی:
’’ہم ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔‘‘’’ہم ایٹم بم بنائیں گے چاہے ہمیں گھاس ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔‘‘

یہ ذوالفقارعلی بھٹو کی تقاریر کا حصہ تھے جن کو انہوں نے بار بار اپنے بیانوں اور تقریروں میں دہرایا۔ یہ 1965ء کی جنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے والا تجربہ تھا۔ ہندوستان سے ایک ہزار سال تک جنگ کرنے کا مطلب تھا کہ ہم اپنے تشخص کی خاطر لڑتے رہیں گے۔ چونکہ برِصغیر میں ہمارے شاندار ماضی کی تاریخ بھی ایک ہزار سال پر محیط ہے اور اس طرح ایٹم بم بنانے کا نعرہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ہم اپنے دفاع کے لیے امریکہ جیسے طوطا چشم دوست پر دفاع کے لیے اعتبار اور اعتماد نہیں کرسکتے اور اس کے لیے لازم ہے کہ بیلنس آف ٹیرر کے نظریئے کے تحت اپنی عسکری صلاحیت میں خودمختاری حاصل کی جائے تاکہ ہم اپنے پڑوسی بھارت جیسے دیوہیکل توسیع پسند ملک کی جارحانہ پالیسی سے محفوظ رہیں۔ وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو کی وطن واپسی کے بعد پاکستان بھر میں مختلف ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی خواہش تھی کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی عوامی پذیرائی کی جائے چونکہ جنگ کے دوران پاکستانی وزیرِ خارجہ نے روایتی سفارتکاری کے برعکس ایک استعمار دشمن عوامی راہنما کے طور پر اپنی شناخت کو ابھارا تھا،جس میں انڈونیشیا کے احمد سوئیکارنو، مصر کے جمال عبدالناصر، الجزائر کے بن بیلا اور چین کے چو این لائی جیسے استعمار دشمن راہنمائوں کی حمایت کا عملی اظہار دیکھنے کو ملا تھا۔ وطن واپسی پر کابینہ ،حکومت اور دیگر ریاستی اداروں میں شامل امریکہ کے ہمنوائوں کی طرف سے ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف سازشوں کا آغاز شروع ہوگیا۔ ان تمام باتوں سمیت 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں قوم ذوالفقارعلی بھٹو کو ایک ابھرتے ہوئے سامراج دشمن لیڈر کے طور پر دیکھ رہی تھی۔ یہ ذوالفقارعلی بھٹو کی پہلی عوامی پہچان تھی، ایک نیشنلسٹ اور سامراج مخالف راہنما۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں