“میرا لہو” ذوالفقار علی بھٹو شہید کی زندگی کی کہانی، فرخ سہیل گوئندی کے قلم سے

کاروانِ جدو جہد تبدیلی کیسے ممکن ہے ؟

ذوالفقار علی بھٹو شہید پر اندرون اور بیرون ملک لاتعداد کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ جب تلک ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف رجعت پسند دانشوروں اور حکمران طبقے کے لوگوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سیاسی کردار کشی کی مہم جاری رکھی تو زیادہ تر تحریروں کا تعلق ذوالفقار علی بھٹو کو تاریخ کے اوراق سے مٹانا یا پھر اُن کی شخصیت کو مسخ کرنے تک محدود تھا لیکن جب وقت کے دھارے نے حقائق کو بے نقاب کرنا شروع کر دیا تو ذوالفقار علی بھٹو ملک کے ایک غیر متنازع لیڈر کا روپ دھارنے لگے ہیں۔ وہ مشتعل رجعت پسند، جو شہروں کی شاہراہوں پر ذوالفقار علی بھٹو کو قاتل اور کافر کہتے تھے، آج اپنے ماضی کے افسوس کے ساتھ Confession کر رہے ہیں کہ’’ بھٹو ٹھیک تھا اور ہم غلط۔‘‘

تاریخ اپنے ہیرو اور ولن خود طے کرتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے حوالے سے تاریخ ہر روز اپنا فیصلہ دے رہی ہے۔ اس حوالے سے یہ اتنی اہم بات نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا نام لینے والی پارٹی بار بار انتخابات جیتتی ہے، اہم یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے چار دہائیوں پہلے جس سیاست، نظریات اور آدرش کا پرچم بلند کیا ، آج وہ ہی وقت کی ضرورت ہے۔

جہاں تک بات ہے بھٹو شہید کا نام لینے والی پارٹی کا انتخابات میں متعدد بار جیتنا تو اس کی حقیقت بھی یہی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جس عوامی سیاست کی بنیاد رکھی اورپھر اپنی تقریباً پانچ سالہ حکومت میں زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں جو اصلاحات کیں پاکستان کے عوام اس کو کبھی نہیں بھلا سکتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء کے انتخابات میں جس غیر ملکی سازش کے بارے میں بار بار پاکستان کے عوام کو مطلع کیا کہ اُس کے تحت پاکستان کے مفادات کو ٹھیس پہنچائی جائے گی اور اُس کے نتیجے میں وہ اپنی حکومت اور پھر جان بھی کھو سکتے ہیں اور پھر اس سازش کا 1977ء کے انتخابات میں عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا اور بعد ازاں انتخابات میں بھٹو مخالف جماعتوں کے اتحاد کی طرف سے تحریک اور اس تحریک کے بعد 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق کا مارشل لاء اور اس کے بعد 4 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کا سولی پے جھول جانا یہ سارا عمل ذوالفقار علی بھٹو کی سچائی (Truth) کا تاریخی ثبوت دے گیا لہٰذا عوام کیسے بھول سکتے ہیں ایک شخص جو اُن کا پرچم بلند کرتے ہوئے اُن کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے شعوری طور پر اپنی جان قربان کر گیا، اسی لیے وہ وقت کے دھارے کے ساتھ پاکستان کی سیاست، ثقافت اور لوک کہانی کا اَنمٹ کردار بن گیا۔

شہادت کے اس سفر میں اُن کے جواں سال بیٹے شاہنواز بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو اور جرأتوں والی بیٹی بے نظیر بھٹو بھی شامل ہو گئیں۔ یہ کتاب شہادت کے اس سفر کی ایک مختصر سی داستان ہے اور شہادت کے اس کارواں میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جیالے ہیں کہ اگر اُن کی داستانوں کو رقم کر دیا جائے تو یہ سیاسی ادب کی بہترین تحریریں ٹھہرائی جائیں۔

ذوالفقار علی بھٹو پر یہ کتاب پہلی مرتبہ اس وقت شائع ہوئی جب جنرل ضیا الحق کی آمریت اپنے عروج پر تھی اور اس کتاب کا دیباچہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے لکھا(جس کو اس ایڈیشن میں شائع کیا گیا ہے) آمریت کے سیاہ دور میں اس کتاب کی اشاعت، کاروانِ شہادت میں شامل لوگوں کی طرف سے لکھی گئی پہلی تین چار کتابوں میں سے ایک ہے اور یہ اس وقت شائع ہوئی جب ملک کی فضائوں میں ذوالفقار علی بھٹو کے بارے ’’کافر‘‘، ’’قاتل‘‘،’’ خائن‘‘، ’’غدار‘‘، ’’مکار اور عیار‘‘ کے نعرے بلند کیے جارہے تھے۔ اس کتاب کی اشاعت سے اِن نعروں اور الزامات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی، زیر نظر کتاب کی اشاعت ہر آنے والے وقت میں بڑھتی گئی اور اس کو سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے جیالوں نے بھٹو کی سیاست کاایک سبق قرار دے دیا۔

یہ کتاب ریاستی سرپرستی میں مسخ شدہ تاریخ جو کہ پرنٹ میڈیا اور سرکاری میڈیا کی طرف سے مسلط کی جا رہی تھی، کا ایک جواب تھا۔ اس کتاب کی اشاعت میں کئی سالوں (1993ء سے 2004ئ) تک تعطل بھی آیا، اس لیے کہ میں نے یہ سمجھا کہ یہ ایک جذباتی کتاب ہے، مگر ڈاکٹر انور سجاد جیسے ادیبوں کا اصرار تھا کہ اس کو شائع ہوتے رہنا چاہیے کیوںکہ یہ کتاب اس آسیب زدہ دور کی عکاسی کرتی ہے جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لہٰذا میں ایسے میچور ادیبوں کی رائے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوا اور یوں 2004ء کے بعد اس کی پھر بار بار اشاعت کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ شاید یہ کتاب پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو پر سب سے زیادہ شائع ہونے والی کتابوں میں شامل ہے۔

زیر نظر ایڈیشن کے تیسرے حصہ میں پانچ نئے ابواب شامل کیے ہیں جبکہ دیگر ابواب میں بھی ترامیم اور اضافہ کیا گیا ہے۔ ’’میرا لہو‘‘ جہاں ذوالفقار علی بھٹو شہید کی ایک مختصر سوانح عمری ہے، وہیں پر یہ کتاب اس جبر کی بھی کہانی ہے جس کے زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوئے بلکہ کچھ زخموں نے ناسور کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور اسی ناسور (انتہا پسندی) نے ہمارے سماج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ معاشرے میں عقیدے کی بنیاد پر قتل و غارت یا پھر Culture of Violence کے بیج درحقیقت 1977ء کے انتخابات کے دوران ہی ڈال دیے گئے تھے۔ جب مذہبی نعرے بلند کرتے ہوئے سیالکوٹ اور لاہور کی شاہراہوں پر ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت کرنے والوں کو سرعام قتل اور اُن کے گھروں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا اور پھر جنرل ضیاالحق نے اس ’’مشن‘‘ کو ریاستی سطح پر متعارف کروایا۔

پاکستانی معاشرہ خون اور آگ کے جس گھیرے میں ہے، اس کی بنیادیں ذوالفقار علی بھٹو کے مخالف انتخابی اتحاد (PNA) نے رکھیں اورپھر ان بنیادوں پر جنرل ضیا الحق نے خطے میں انتہا پسندی کا ایک بھوت بنگلہ کھڑا کر دیا جس نے پاکستان اور افغانستان کے امن کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جدید دنیا کی سیاست میں اسلام کے نام پر پہلی بنیاد پرست تحریک پاکستان میں ہی چلائی گئی جس کی سرپرستی امریکی سی آئی اے اور اس کے آلہ کاروں نے رکھی، یعنی ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تحریکِ نظام مصطفیؐ جس میں ایک سیکولر لیڈر نے بار بار ذوالفقار علی بھٹو کو کوہالہ میں سرعام پھانسی دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس مذہبی بنیاد پرستی کی تحریک نے خطے کو وقت کے ساتھ مزید خون آلود کر دیا۔ اس تحریک کا پہلا بڑا نشانہ ذوالفقار علی بھٹو تھا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، اس کے بارے میں اب سب آگاہ ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید دوران مقدمہ تقریباً 13 ماہ پابندِ سلاسل رہے یہ وقت انہوں نے اپنے خلاف سازش سے لڑتے ہوئے گزارا اور موت کا سایہ اُن کے سر پر رہا، یہ وقت اُن کی زندگی کا اہم ترین وقت تھا، موت یا مفاہمت …مگر انہوں نے موت کو ترجیح دی اور اس طرح انہوں نے ایک شعوری جدوجہد کے نتیجے میں شہادت حاصل کی نہ کہ کسی حادثے میں۔

میں اُن کے کاروانِ جدوجہد کا ایک ادنیٰ سا رکن رہا ہوں، پاکستان کے حوالے سے میرا سیاسی سبق یہ ہے کہ پاکستان میں سٹیٹس کو، کو اس وقت تک گرایا ہی نہیں جا سکتا جب تک اس کے خلاف مزاحمتی طاقت کو جذبے کے ساتھ ساتھ Rational بنیادوں پر منظم نہ کیا جائے، آج پاکستان میں قتل وغارت بڑی عام ہے بلکہ معاشرے کا حصہ بن گئی ہے لہٰذا ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد، شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتلوں کے بعد اس کاروان جدوجہد کو سوچنا ہو گا کہ اُن کی کامیابی کے لیے حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت سمیت کارواں میں شامل سب شہیدوں پر ہمیں ناز ہے، لیکن میرا سیاسی سبق یہ ہے کہ اس کارواں کو اب ایسا راستہ اپنانا ہو گا جو کہ غازی کا راستہ بن جائے اور یہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں ،جب تلک اس کارواں کو دانش اور شعور کے ساتھ نظریاتی بنیادوں پر ایک کیڈر میں نہ بدل دیا جائے جو تبدیلی کا کیڈر بن جائے۔

2006ء کے بعد اسی لیے میں نے عملی سیاست سے علیحدگی اختیار کی کہ پہلے فکری سفر میں اپنا حصہ ڈالا جائے، چونکہ سماج میں قتل کا بازار گرم ہے اور ایسے میں فکری خلا میں اپنا کردار وقت کا تقاضا ہے۔ اس کاروانِ شہادت کو اب غازیوں کا خواب دیکھنا ہو گا اور اِسی لحاظ سے منظم ہونا ہو گا، جیسے غازی مصطفی کمال پاشا، مائوزے تنگ، جو کامیاب انقلاب کے بانی ہیں۔ قتل کا یہ بازار اپنے عروج پے ہے اور کسی بھٹو کی شہادت ایک جذبہ تو دے سکتی ہے مگر تبدیلی کا سبب نہیں بن سکتی، یہی تاریخ کا سبق ہے اورتبدیلی اس وقت ممکن ہی نہیں کہ جب تک تبدیلی کا کیڈر تشکیل نہ دے دیا جائے، وگرنہ بے ہتھیار کاروانِ جدوجہد، قتل کے اس بازار کا نشانہ بنتے رہیں گے، جس کو جنرل ضیا الحق نے اپنے شیطانی منصوبے سے سجایا ہے۔

آج ذوالفقار علی بھٹو کے 32ویں یومِ شہادت پر اس کتاب کی اشاعت کے موقع پر میں نے اپنے تجربے کو چند الفاظ میں قلمبند کرکے یہ کوشش کی ہے کہ بھٹو کا انتقام ،نظام کی تبدیلی سے ہی ممکن ہے اور یہ تبدیلی ایک منظم کارواں کے بغیر ناممکن ہے، یہ میرا تین دہائیوں پر مشتمل سیاسی تجربہ ہے۔
فرخ سہیل گوئندی اپریل 2011 لاہور

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں