ہمارا 2023 اور ہٹلر کا 1923 تحریر: عرفان صدیقی

ہمارے 9 مئی کی امریکن نائن الیون سے کوئی مشابہت ہے یا نہیں، یہ ٹھیک ایک صدی قبل جرمنی کے آتش بجاں نازی لیڈر، ایڈولف ہٹلر کی ’’شراب خانہ بغاوت‘‘ (BEER HALL PUTSCH) سے کمال درجے کی مماثلت ضرور رکھتا ہے۔ وہی سیاسی عدم استحکام، وہی اقتصادی بدحالی، وہی تبدیلی کی اُکساہٹ، وہی ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کا دعویدار ایک شوریدہ سر لیڈر، اُس کے باغیانہ بانکپن پر فریفتہ ویسے ہی اندھے، گونگے، بہرے مقلدّین، وہی انتہا پسندی اور تعصّبات کی آندھیاں، گوئبلز کے معجزہ فن کا شاہکار وہی فریب کارانہ بیانیہ سازی، وہی کھوکھلے نعرے،و ہی بے راہ وسمت جنونِ بادیہ پیمائی، وہی سازشی حکمت ِ کار، وہی خوئے بغاوت۔

پہلی جنگ عظیم میں اپنے جوہر دکھانے اور زخمی ہوکر ہسپتال پہنچنے والا ایڈولف ہٹلر، صحت یاب ہوکر میونخ پہنچا تو اس کے دِل ودماغ میں تمنا کا پھول کھِل چکا تھا۔ اپنی شعلہ بیانی کے باعث وہ 1920؁ میں قائم ہونے والی نازی پارٹی کا سرکردہ لیڈر بن گیا۔ تین سال بعد اس نے میونخ اور پھر برلن پر قبضہ جما کر جرمن حکومت کو گرانے اور نازی پارٹی کا تسلّط جمانے کا منصوبہ بنایا۔ دوہزار سر بہ کف انقلابی تیار کئے گئے۔ منصوبے کا آغاز 8 نومبر1923؁ کو میونخ کے ایک بڑے روایتی شراب خانے سے ہوا جہاں ہٹلر کے باغیانہ خطاب نے ہزاروں لوگوں پہ سحر طاری کردیا۔ انقلابی جتھے شراب خانے سے نکلے تو مسلح پولیس سے سامنا ہوا۔ پہلی ہی جھڑپ میں سولہ انقلابی ہلاک ہوگئے۔ ہٹلر زخمی ہوا۔ دو دِن روپوش رہنے کے بعد پکڑا گیا۔ بغاوت کا مقدمہ چلا۔ وہ ہر روز عدالت میں پیش ہوتا اور آگ اُگلتا۔ اُس کے عشّاق کی تعداد بڑھتی گئی۔ اخبارات اس کی تقاریر کی خبروں سے چھلکنے لگے۔ عدلیہ کے بعض ججوں کے دلوں میں بھی ہٹلر کا عشق سلگنے لگا۔ اُسے بغاوت جیسے سنگین جرم میں بھی صرف پانچ سال قید کی سزا ہوئی۔ ایک جج نے فیصلے میں لکھا _ ’’بغاوت کے حوالے سے متعلقہ قوانین کا اطلاق کسی ایسے شخص پر نہیں ہونا چاہیے جس کے جذبات واحساسات ایک محبّ وطن جرمن شہری جیسے ہوں۔ جس کی سوچ ایک سچے جرمن جیسی ہو۔ جیسا کہ ایڈولف ہٹلر کی ہے۔‘‘ یہ قید بھی ایسی شاہانہ تھی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ابھی صرف نوماہ ہی گزرے تھے کہ نیک چلنی اور اچھے روّیے کی بنیاد پرہٹلر کو رہائی کا پروانہ مل گیا۔ جرمنی میں ’’صادق ‘‘اور’’ امین‘‘ قرار دئیے جانے والا کوئی قانون نہیں تھا ورنہ عدلیہ بصد مسرّت اُسے یہ القابات بھی عطا کردیتی۔ بغاوت جیسے سنگین جرم میں صرف نو ماہ کی پُر آسائش(پولیس لائنز اسلام آباد کے آراستہ پیراستہ بنگلے جیسی) قید کے بعد ہٹلر نے مروجہ سیاسی راستہ اختیار کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی لیکن اس کے سارے تیور ایک انا پرست، شوریدہ سر اور آمادۂِ بغاوت فتنہ پرور جیسے ہی رہے۔ اُسے گوئبلز (GOEBBELS) جیسا ساتھی میسّر آگیا جو بے سروپا الزامات اور جھوٹ پر مبنی فریب کارانہ بیانیہ تراشنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ آج کے سوشل میڈیا کی طرح اس وقت ریڈیو اور فلم موثر ابلاغیاتی ہتھیار تھے جنہیں گوئبلز نے طلسماتی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے نازی نظریات کو پھیلایا اور ایڈولف ہٹلر کو دیوتا کا روپ دے دیا۔ 1933؁ کے انتخابات میں ہٹلر کی خطیبانہ حشرسامانیوں اور گوئیبلز کے جذبات انگیز بیانیوں نے رنگ دکھایا۔ ایڈولف ہٹلر جرمنی کا چانسلر بن گیا لیکن اس کے جنوں نے فارغ بیٹھنا نہیں سیکھا تھا۔ چھ برس بعد ہی اس کی توسیع پسندی نے دوسری جنگ عظیم کی آگ بھڑکائی جو چھ سال تک بھڑکتی رہی۔ ہٹلر ہار گیا۔ گوئبلز کو اپنا جانشیں نامزد کیا اور ایک تہہ خانے میں اپنی محبوبہ کے ہمراہ خودکشی کرلی۔ تاریخ کا سب سے بڑا دروغ باف اور بیانیہ ساز گوئبلز صرف ایک دِن جرمنی کا حکمران رہا۔ ہٹلر کی خود کشی کے اگلے دِن گوئبلز اور اس کی بیوی نے اپنے اکلوتے بیٹے اور پانچ بیٹیوں کو زہر دے کر ہلاک کردیا جن کی عمریں پانچ سے تیرہ سال تھیںاور جن کے نام ہٹلر سے عشق کے باعث ایچ کے حرف سے شروع ہوتے تھے۔ اندھی عقیدت بھی انسانوں کی شخصیت کس طرح مسخ کردیتی ہے۔ پھر دونوں نے خود کشی کرلی۔

یہ طویل کہانی بیان کرنے کا مقصد دُنیا بھر کے سیاسی مبصرین، بالخصوص جرمن مورخین کے تبصروں اور آراء کی طرف توجہ دلانا ہے جو کسی نہ کسی طور اَب تک سامنے آرہی ہیں۔ نتیجہ یہ اخذ کیاگیا ہے کہ اگر نومبر 1923؁ کی ’’شراب خانہ بغاوت‘‘ کو واقعی ملکی دستور کے مطابق ایک سنگین جرم کے طورپر دیکھا جاتا، ہٹلر اور باغی اپنے جرم کے مطابق سزا پاتے تو نہ کبھی نازی جرمنی وجود میں آتا، نہ دنیا دوسری جنگِ عظیم کے آزار سے دوچار ہوتی ، نہ چھ کروڑ انسان ایک خودسر شخص کی بپھری ہوئی انا اور پراگندہ فکری کی بھینٹ چڑھتے۔ بحث وفکر کا حاصل یہ ہے کہ ’’شراب خانہ بغاوت‘‘ ہٹلر اور نازی پارٹی کا نہایت احمقانہ منصوبہ تھا لیکن باغیوں سے نبٹنے کا طریقہ اُس سے بھی زیادہ احمقانہ تھا۔‘‘

1923؁ کی شراب خانہ اور 2023؁ کی زمان پارک بغاوتوں کے درمیان بلا کی مماثلت کے بعد اہل پاکستان کے ذہنوں میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ ہماری ریاست، شرپسندوں اور فتنہ پردازوں کے ساتھ کیا سلوک کرنے جارہی ہے؟ پریس کانفرنسوں اور اعلامیوں کی تُرش بیانی کے باوجود ابھی تک اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ کیا 9 مئی کے بعد بھی عمران خان کا شمار سیاستدانوں میں ہوتا ہے اور پی۔ٹی۔آئی آج بھی عمومی سیاسی جماعتوں میں گنی جائے گی یا 9 مئی کی بغاوت سے کوئی جوہری تبدیلی واقع ہوگئی ہے؟

بلاشبہ اپنے قیام سے لے کر 9 مئی 2023 تک تمام تر جمہوریت گریز اور پارلیمان بیزار رویّوں کے باوجود پی۔ٹی۔آئی سیاسی برادری کا حصہ تھی۔ عمران خان اپنی شوریدہ سری، جمہوری قدروں سے انحراف اور فتنہ پرور سرگرمیوں کے باوجود سیاست کے اکھاڑے میں تھے اور سیاستدان ہی شمار ہوتے تھے۔ لیکن کیا 9 مئی کی سوچی سمجھی منصوبہ بند بغاوت اور دو دنوں کی شرمناک دہشت گردی کو بھی عمومی سیاسی حرکیات کے کھاتے میں ڈالا جاسکتا ہے؟ کیا پٹرول بم متعارف کرانے ، دفاعی تنصیبات پر حملے کرنے، کور کمانڈر ہائوس راکھ کر دینے، فضائیہ کے اڈوں پر حملہ آور ہونے، جی۔ایچ۔کیو پر یلغار کرنے اور شہداء کی مقدس یادگاروں کے ساتھ نفرت سے مغلوب دشمنوں جیسا سلوک کرنیو الوں کو سیاسی کارکنوں ہی کی میزان پر تولنا چاہیے؟ کیا یہ جائزہ لینا منصفانہ ہوگا کہ کون کل کیا تھا اور اس سے شرافت، خدا ترسی اور خدمتِ خلق کی کتنی ایمان پرور داستانیں وابستہ ہیں یا کون کتنا بوڑھا، کمزور اور بیمار ہے؟

عمران خان کامل ایک برس تک اس ’’انقلاب‘‘ کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔اُن کے آتشیں بیانات ، فوج کے سینئر عہدیداروں پر سنگین الزامات، آرمی چیف کے بارے میں برہنہ گوئی اور فدائین کو لڑنے مارنے پر اُکسانے کے ناقابل تردید شواہد کو جھٹلایا جاسکتا ہے؟ انہوں نے جواں سال ’’گوئبلز‘‘ کا لشکر جرار تیار کیا جن کی قدرت ِ فن جوزف گوئبلز سے بھی دس ہاتھ آگے تھی۔

انہیں آج بھی یقین ہے کہ کسی آن ایک بھونچال آئے گا اور انہیں اچھال کر زمان پارک سے وزیراعظم ہائوس لا بٹھائے گا۔ 9 مئی کی بغاوت کا مقصد اسی بھونچال کو حرکت میں لانا تھا۔ وہ کسی طور بلوائیوں کے سنگین جرائم سے بری الزمہ نہیں ہوسکتے۔ فتنہ وفساد کے دس دن بعد انہوں نے ’’مذمت‘‘ کا لفظ بھی اِس بے دلی اور شکستہ دلی سے ادا کیا جس طرح شادی پر نہ آمادہ ہونے والی مجبور دُلہن نکاح کے وقت ہچکیاں لیتے ہوئے ’’ہاں‘‘ کہتی ہے۔

امریکہ نے پارلیمنٹ پر حملہ آور ہونے والوں میں سے کسی کو نہیں بخشا۔ برطانیہ نے 2011؁ کے بلوائیوں کو کڑی سزا ئیں دیں، چاہے وہ کھڑکی کا ایک شیشہ توڑنے والی تیرہ سالہ بچی تھی یا دو جانگھیے چرانے والی غریب خاتون۔ اگر ہم 2023کی احمقانہ بغاوت سے1923؁جیسی حماقت ہی سے نبٹے اور سنگین جرائم کو انسانی حقوق کی قبائے خوش رنگ پہنادی تو ملک بھر کی ایک سو سولہ جیلوں میں بند اٹھاسی لاکھ قیدیوں کو بھی رہا کردینا ہوگا کہ اُن میں سے کسی قیدی کا جرم، 9 اور 10 مئی کے جرائم سے زیادہ سنگین نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں