ڈپٹی اسپیکر پر تشدد کرنے والے حکومتی ارکان گرفتار، کون کون پکڑا گیا؟

لاہور(آئی این پی )پنجاب اسمبلی میں پولیس آپریشن کے دوران ڈپٹی اسپیکر پر مبینہ تشدد کرنے والے حکومتی ارکان گرفتارکرلئے گئے ،وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کے لیے ہفتہ کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی، حکومتی ارکان نے ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری پر حملہ کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد پولیس نے ایوان میں داخل ہوکر تشدد میں ملوث ارکان کو گرفتار کرلیا۔ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس تاخیر سے شروع ہوا تو ڈپٹی اسپیکر کے کرسی پر بیٹھتے ہی تحریک انصاف کے اراکین نے اسپیکر پر حملہ کردیا اور ان پر لوٹوں کی بارش کر دی۔ حکومتی اراکین اسمبلی نے ایوان میں لوٹے لہرادیے۔

سیکیورٹی اہلکار دوست محمد مزاری کو بمشکل بچا کر واپس چیمبر میں لے گئے۔ حکومتی اراکین نے اسپیکر ڈائس پر قبضہ کرکے علیم خان کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگائے۔ حکومتی اراکین نے ڈپٹی اسپیکر کو لوٹے اور تھپٹر بھی مارے۔ڈپٹی اسپیکر کو مارنے والوں میں رانا شہباز ، خیال احمد کاسترو ، محمد اعجاز، لاریب ستی، واسق قیوم، تنویر بٹ، شجاعت نواز، مہندر پال سنگھ شامل تھے۔ میاں شفیع محمد نے انھیں چھڑانے کی کوشش کی۔ شجاعت نواز اور مہندر پال سنگھ نے اسپیکر کی میز پر اور ڈائس پر لگے مائک پر لوٹے رکھ دیے۔اراکین کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کے بال کھینچے گئے اور دھکے بھی دیے گئے۔ ہنگامہ آرائی، بدنظمی کے باعث اجلاس روک دیا گیا۔

صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس اسمبلی ہال میں داخل ہوگئی اور پنجاب اسمبلی کو گھیرے میں لے لیا۔ آئی جی پنجاب پولیس را سردار بھی اسمبلی پہنچ گئے۔ اسپیکر ڈائس کے گرد سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات کردی گئی۔وزیراعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الہی نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کیسے ایوان کے اندر داخل ہوئی، ملکی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا، اس کا ذمہ دار آئی جی پنجاب ہے اس کو ایوان میں بلا کر ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، آئی جی کو ایک ماہ کی سزا دی جائے گی۔ پرویز الہی اور حکومتی اراکین کے شدید احتجاج پر پولیس ایوان سے واپس نکل گئی۔سو سے زائد ارکان نے آئی جی کے خلاف تحریک استحقاق جمع کراتے ہوئے ایوان کی کارروائی دو روز کے لیے موخر کرنے کی تجویز بھی دے دی۔

پنجاب اسمبلی کے ایوان میں پولیس کے داخل ہونے پر حکومتی اراکین نے آئی جی پنجاب پولیس کے خلاف تحریک استحقاق جمع کروادی، جس کے متن میں کہا گیا کہ پولیس کو ایوان کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی، پولیس کو ایوان میں لاکر ایوان کا تقدس پامال کیا گیا ہے، پولیس کی جانب سے آئین اور پارلیمانی روایات پامال کرنے پر جواب طلب کیا جائے۔ اسپیکر ڈائس پر تحریک انصاف کی خواتین نے قبضہ کرلیا۔ سعدیہ سہیل کی قیادت میں خواتین اراکین اسپیکر کی نشست پر دائیں بائیں قبضہ کرکے کھڑی ہوگئیں ۔ حکومتی اراکین کہہ رہے ہیں کہ لوٹوں کو ووٹ کاسٹ نہیں کرنے دیں گے، بلے کے نشان پر جیت کر شیر کو کیسے ووٹ دے سکتے ہیں۔

پرویز الہی کی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انگوٹھے دکھا کر ارکان کو شاباش دے رہے تھے ۔ایوان میں ن لیگی ایم پی اے عظمی بخاری اور حکومتی ایم پی اے عابدہ راجہ کی لڑائی بھی ہوئی۔ عابدہ راجہ نے عظمی بخاری کو لوٹی نمبر ون کہا۔ دیگر ایم پی ایز نے دونوں میں بیچ بچا ئوکرایا۔آئی جی پنجاب نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سے ملاقات کی۔ ڈپٹی اسپیکر نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ وزیراعلی کا انتخاب پولیس کی نگرانی میں ہوگا، ضرورت پڑی تو سارجنٹ ایٹ آرمر کے اختیارات دے دیں گے۔دوست محمد مزاری نے چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کو خط لکھ کر قائد ایوان کا انتخاب مکمل کروانے کے لئے ایوان میں پولیس کی نفری تعینات کرنے کی ہدایت کردی۔

احکامات ملنے کے بعد ایس پی کی قیادت میں اینٹی رائٹ فورس کے اہلکار ایوان میں داخل ہوگئے اور ڈپٹی اسپیکر پر تشدد کرنے والے پی ٹی آئی ممبران کو گرفتار کرلیا جن میں عمر تنویر بٹ، واثق عباسی، ندیم قریشی ، تیمور احمد شامل ہیں۔اس موقع پر ان کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی۔ سیکیورٹی عملے اور اراکین اسمبلی کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی جس پر سیکیورٹی اسٹاف نے ممبران اسمبلی پر تھپڑوں اور مکوں کی بارش کردی۔ پولیس نے حکومتی ارکان سے اسپیکر ڈائس کا قبضہ چھڑوالیا۔ ن لیگی ارکان اور پی ٹی آئی کے اراکین کے درمیان بھی ہال میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔ اس دوران ہاتھا پائی میں پرویز الہی زخمی ہوگئے۔ سادہ لباس نوجوانوں نے پرویز الہٰی کو سیکیورٹی حصار میں لے لیا اور اسمبلی ہال سے باہر لے گئے۔

طبیعت خراب ہونے پر ریسکیو 1122 کو بلالیا گیا جس نے چوہدری پرویز الہی کو طبی امداد فراہم کی۔چوہدری پرویز الہٰی نے خود پر حملے کا ذمہ در حمزہ شہباز اور شہباز شریف کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا اور ن لیگ والوں نے میری جان لینے کی کوشش کی۔اس ساری ہنگامہ آرائی اور کئی گھنٹے تاخیر کے بعد پنجاب اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوگیا جس میں وزیراعلی کے لیے ووٹنگ کرائی گئی۔ تحریک انصاف اور ق لیگ نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کردیا اور ان کے ارکان اسمبلی واک آئوٹ کرگئے۔واضح رہے کہ اسمبلی نشستوں کے حساب سے اگر بات کی جائے تو پنجاب کے ایوان میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین کی تعداد 183 جبکہ مسلم لیگ ن کے اراکین کی تعداد 166 ہے، اسی طرح مسلم لیگ ق کے ارکان کی تعداد 10، پی پی 7 اور آزاد امیدواروں کی تعداد 4 ہے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close