نئی خارجہ پالیسی کا معمار
ذوالفقارعلی بھٹو اپنی ذہانت اور محنت کی بنیاد پر اقتدار کے ایوانوں میں روز بروز ایک اہم اور طاقتور حیثیت اختیار کرتے چلے گئے۔ قدرتی وسائل، صنعت وغیرہ کی وزارتوں کی ذمہ داری کے بعد ان کو اطلاعات و تعمیرِ نو، بجلی و آبپاشی کی اہم وزارتیں بھی سونپی گئیں۔ گو انہوں نے وزارتِ اطلاعات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا لیکن ان ذمہ داریوں کے دوران ہی انہوں نے خارجہ امور پر اکثر اوقات اپنے مشوروں سے حکومت کو مستفید کرنا شروع کردیا اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ نوجوان ذوالفقارعلی بھٹو کو جنوری 1963ء میں وزیرِ خارجہ کی اہم ترین ذمہ داری سونپ دی گئی۔
35 سال کی عمر میں وزارتِ خارجہ کا قلمدان یقینا ایک چونکا دینی والی بات ہے۔ درحقیقت ذوالفقارعلی بھٹو اپنی علمی ذہانت و مطالعے کے ساتھ ساتھ مشاہدے اور عمل کی بنیاد پر ایک میچور سیاستدان بن چکے تھے۔ جب بھٹو وزارتِ خارجہ کی کرسی پر فائز ہوئے تب تک دنیا کے کئی راہنمائوں کے ساتھ ان کے تعلقات استوار ہوچکے تھے جس سے پاکستان کے قومی مفادات کو ایک عرصے سے فائدہ پہنچ رہا تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے جنوری 1963ء سے 8 جولائی 1966ء تک بحیثیت وزیرِ خارجہ پاکستان کام کیا لیکن یہ ضروری ہے کہ ان کو وزارتِ خارجہ کی ذمہ داری سونپے جانے سے پہلے پاکستان کے عالمی کردار کا ہلکا سا جائزہ لیا جائے۔
عوامی جمہوریۂ چین کا قیام عالمی سیاست میں ایک بڑا موڑ ہے۔ چین کے غیور عوام نے چیئرمین مائوزے تنگ کی قیادت میں چیانگ کائی شیک کی فوجوں کو شکست دے کر ایک نئے کمیونسٹ انقلاب کو کامیاب کیا تھا جس کے سبب عالمی سامراجی طاقتیں پریشانی کی حالت میں مبتلا تھیں اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ یکم اکتوبر 1949ء کو عوامی جمہوریۂ چین کے قیام کے بعد 4 جنوری 1950ء کو عوامی جمہوریہ چین کی مرکزی حکومت کو تسلیم کرکے پاکستان، چین کو تسلیم کرنے والے اولین ملکوں (برما، بھارت) میں شامل ہوگیا لیکن پاکستان کی ماضیٔ قریب کی تمام حکومتیں شروع سے ہی غیرضروری طور پر مغرب اور خصوصاً امریکہ کی طرف جھکائو کرنے میں بے چین اور پیش پیش تھیں اور اس بے چینی کی ابتداء لیاقت علی خان کے زمانے سے ہوئی ہے اورہماری قومی ناکامی کا یہ مشہور اقدام کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔
وزیراعظمِ لیاقت علی خان کے دورۂ تہران کے دوران 2 جون 1949ء کو تہران میں سوویت یونین کے ناظم الامور نے پاکستانی سفیر متعینہ تہران کے ذریعے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو سوویت یونین کے دورے کی دعوت دی۔ یہ خوشگوار ابتدا تھی جسے قبول کرکے خوب چرچا کیا گیا۔ روس نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ لیاقت علی خان کے دورئہ ماسکو سے پہلے دونوں ممالک کے سفیروں کا تبادلہ بھی ہوجائے۔ دعوت کو قبول کرنے کے بعد یکایک مجوزہ دورے کو نہ صرف منسوخ کردیا گیا بلکہ مزاح کی حد تک یہ جواب دیا گیا کہ ’’عملے کی قلت‘‘ کے سبب سفیروں کا تبادلہ ممکن نہیں۔
دورۂ ماسکو کی دعوت کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ 3 جون 1949ء کو امریکی محکمۂ خارجہ نے برطانوی سفیر کو اطلاع دی کہ 75 ایم ایم گولہ بارود کے 2 لاکھ رائونڈ فوری طور پر پاکستان کو منتقل کردیئے جائیں۔ امریکہ نے یہ فیصلہ سی آئی اے کی سبک رفتار اطلاع پر کیا تھا اور پھر اس کے بعد امریکیوں نے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی جو فوری طور پر قبول کرلی گئی۔ اپریل 1950ء میں روسی دورے کی دعوت باقاعدہ طور پر داخلِ دفتر کردی گئی۔
وہ پاکستان جو چین کو تسلیم کرنے والے پہلے تین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے اس کے حکمرانوں کی تضاداتی خارجہ پالیسی ملاحظہ ہو۔ ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستان عوامی جمہوریۂ چین کی اقوام متحدہ میں نمائندگی کے خلاف مسلسل ووٹ ڈالتا رہا۔ حیرت ہے کہ 1956ء میں پاکستان کے ایک وزیرِاعظم چین کا دورہ کررہے تھے تو پاکستان عوامی جمہوریۂ چین کے نمائندوں کو اقوامِ متحدہ سے باہر رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ یہ پالیسی نہ صرف متذبذب خارجہ پالیسی کے رجحان کو واضح کرتی ہے بلکہ غیرسنجیدہ اور سامراجی چاپلوسی پر مبنی رویے کی غماز بھی ہے۔ اسی طرح نہر سویز کے بحران پر پاکستان کا کردار بھی شرمناک حد تک سامراج کے تحت نظر آتا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی تضادات کا شکار رہی بلکہ کسی حد تک پاکستانی خارجہ پالیسی اپنے قدرتی اتحادیوں سے مکمل مختلف راستوں پر استوار تھی اور یوں پاکستان کے عسکری ،اقتصادی اور عالمی سیاسی مفادات کی تکمیل بھی نہ ہوسکی۔ یہ ایک گومگو کی کیفیت تھی ۔
یہ وہ وقت تھا جب دنیا بھر میں نیشنلزم کی بنیاد پر کئی اقوام امپیریلزم سے آزادی حاصل کرکے تعمیرِنو میں مصروف تھیں جبکہ عالمی سیاست پر ایک نئی اور غیرجانبدار آواز بھی بلند ہوچکی تھی۔ غیروابستہ ممالک کی تحریک کی شکل میں جواہر لعل نہرو، مارشل ٹیٹو، احمد سوئیکارنو اور نکرومہ سرد جنگ کے درمیان سے ایک نئے راستے کا تعین کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے جبکہ پاکستان معاہدات کے مرض کا شکار ہوچکا تھا اور روز نئے سے نئے معاہدے جنم لے رہے تھے لیکن جہاں تک قومی مفادات کا تعلق تھا وہ ہوا میں معلق تھے۔ اسی لیے 1962ء میں ڈاکٹر ہنری کسنجر نے برِصغیر کا دورہ کرتے ہوئے یہ مشاہدہ کرلیا تھا کہ ’’پاکستان معاہدات کے مرض میں مبتلا ہے۔‘‘ درحقیقت ہم جمود اور یک رخی خارجہ پالیسی پر گامزن تھے۔ ان حالات میں نوجوان ذوالفقارعلی بھٹو کی بحیثیت وزیرِخارجہ نامزدگی ہوا کا ایک تازہ جھونکا ثابت ہوئی۔
ستمبر 1957ء میں نوجوان ذوالفقارعلی بھٹو نے اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر ’’امنِ عالم اور جارحیت‘‘ کے موضوع پر مدلل، معلوماتی اور پرجوش تقریر کرکے عالمی مسائل اور تعلقات کے حوالے سے یکدم شہرت حاصل کرکے یہ ثابت کردکھایا کہ قدرت نے اس ا نسان کو کسی بڑے کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ اب بحیثیت وزیرِ خارجہ ان کو اپنے جوہر کھل کر دکھانے کے مواقع فراہم ہوگئے تھے۔ پاکستان کی یک رخی خارجہ پالیسی کو انہوں نے قومی مفادات اور عالمی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا آغاز کرکے جہاں پاکستان کے سیاسی، اقتصادی، عالمی اور علاقائی مفادات حاصل کرنے کا آغاز کیا وہاں انہوں نے دنیا بھر میں ابھرتے ہوئے نئے سیاسی رجحانات کو اپنے ملک کے اندر متعارف کروا کر پاکستانی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ اب پاکستان خارجہ پالیسی کے حوالے سے نئے دوستوں کی تلاش میں عملی طور پر کامیابی کی جانب چل پڑا۔
2 مارچ 1963ء کو وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو نے چین کے وزیرِ خارجہ چن یی کے ساتھ پاک چین سرحدی معاہدہ کرکے چین کے ساتھ نئے تعلقات کا آغاز کیا۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کو امریکہ چین تعلقات کے درمیان ایک پُل قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ 1971ء میں ڈاکٹر ہنری کسنجر پاکستان سے ہی خفیہ طور پر پیکنگ کے دورے پر روانہ ہوئے جہاں سے امریکہ چین تعلقات کا آغاز ہوا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے اس ابھرتی ہوئی حقیقت کو 1965-66ء میں ہی بھانپ لیا تھا ۔ جب ذوالفقارعلی بھٹو نے انقرہ میں اپنے قیام کے دوران امریکی صدر جانسن سے ان کے وزیرِ خارجہ Dean Rusk کے ذریعے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’’اگر آپ چاہیں تو ہم امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کی بنیادیں فراہم کرنے کے لیے ایک پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں‘‘ مگر جب وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو نے صدر ایوب کو اپنی اس رائے سے آگاہ کیا تو صدر ایوب نے اس دوراندیشی کا یہ جواب دیا کہ:
’’We should not burn our fingers.‘‘
لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ذہین وزیرِ خارجہ نے تبدیل ہوتی ہوئی عالمی صورتحال پر جو تجویز پیش کی تھی وہ بعدازاں ایک عالمی حقیقت بن کر ابھری۔
ذوالفقار علی بھٹو نے وزیرخارجہ کی حیثیت سے مصر، انڈونیشیا، سوویت یونین، مشرقی یورپ، چین، ایران، ترکی اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو خصوصی نئی بنیادوں پر استوار کیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو دوطرفہ پالیسی(Bilateralism) کے تحت خارجہ پالیسی چلانے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے۔ اس دوران بھارت کے ساتھ مسئلۂ کشمیر کے تنازعے پر متعدد مذاکرات، ایران اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا نیا دور کھلا۔ پاکستان عالمی سطح پر نئے دوست بنانے کے نتیجے میں اخلاقی اور سیاسی طور پر مضبوط مؤقف اور آواز اٹھانے میں کامیاب ہوا۔ اب بھارت کے عالمی تعلقات کے مقابلے میں پاکستان بھی اعتماد کے ساتھ کھڑا ہونے کی پوزیشن میں آیا۔
پاکستان کی پروقار، قوم پرست خارجہ پالیسی پاکستان کے لیے ایک اعتماد کے ساتھ معرضِ وجود میں آئی جس سے پاکستان کے عالمی سطح پر وقار میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کا ایک نیا دور تھا جس میں ہم نے افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف آزادی کی تحریکوں کی حمایت کی پالیسی اپنا کر اپنے آپ کو آزادی کی تحریکوں کے ساتھ جوڑا۔
بحیثیت وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو ایوب حکومت میں اپنی سیاسی ساکھ کو ایک لحاظ سے انتہا تک لے گئے۔ وہ صدرِ مملکت ایوب خان کے بعد اہم ترین سیاسی شخصیت کا مقام پا گئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو پاک چین دوستی کے بانی جانے جاتے ہیں۔ ان کے اس کردار کے سبب عالمی سطح پر ان کو ایک ذہین ،دوراندیش، حقیقت پسند، عالمی اور علاقائی مسائل کا ماہر اور تاریخ کا شعور رکھنے والا سفارتکار بھی پہچانا جانے لگا جس کی وجہ سے ان کے متعدد عالمی راہنمائوں سے ذاتی تعلقات بھی قائم ہوگئے۔ اسلامی دنیا کو ایک تہذیب کے طور پر منظم کرنے کا تخیل انہوں نے اپنے دورِ وزارتِ خارجہ کے دوران ہی پیش کیا۔ اسلامی کانفرنس تنظیم او آئی سی کے پلیٹ فارم پر مسلم ممالک کو اکٹھا کرکے استعماری اقتصادی نظام اور تسلط کے خاتمے کے لیے ان کی کوششیں ایک طویل حکمتِ عملی تھی۔
19 اپریل 1966ء کو سعودی عرب کے شاہ فیصل کی پاکستان آمد کے موقع پر وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا کہ:
“Pakistan agreed in principle to the idea of an Islamic Summit, but the practical application of the principle would have to be
considered in great depth-
1966ء کے اوائل میں ذوالفقارعلی بھٹو نے دوراندیش تصور کے ساتھ مسلم اقوام کو عالمی تناظر میں نئے کردار کے لیے متحد کرنے کی کوششیں کرکے دنیا کی ایک بڑی تہذیب (اسلامی ممالک) کو اس کی حقیقت اور وجود سے آگاہ کیا اور یہ باور کروایا کہ وہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں سکڑتے ہوئے نوآبادیاتی اور ابھرتے ہوئے Neo-Colonialism کے بیچ ایک اعلیٰ مقام اور کردار ادا کرسکتے ہیں۔
6 ستمبر 1965ء کو بھارت نے مغربی پاکستان کے خلاف ایک توسیع پسندانہ اور جارحانہ حملہ کرکے پاکستان کی سرحدوں کے اندر راتوں رات پیش قدمی کرکے یقینا ایک کھلی جارحیت کا ارتکاب کیا۔ بھارتی افواج نے مغربی پاکستان کے تاریخی شہر لاہور کے قریب اپنی فوجوں کو داخل کرکے پاکستان کی سلامتی اور دفاع کو کھلا چیلنج کردیا۔ بھارت کا مؤقف تھا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد آپریشن جبرالٹر کے تحت پاکستانی گوریلوں کے ذریعے گوریلا مداخلت کررہا ہے۔ 1965ء کی جنگ میں بھارت پاکستان کی سرحدوں کو تو عبور کرگیا لیکن عالمی سیاست اور ڈپلومیسی میں پاکستان کے پروقار مقام کے سامنے ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا۔
بھارتی جارحیت کی تمام اسلامی مملکتوں بشمول ایران، مصر، ترکی اور انڈونیشیا نے کھل کر مذمت کی۔ اس دوران جمہوریۂ چین نے ڈپلومیسی کے میدان میں جس طرح پاکستان کے ساتھ دوستی نبھانے کا اعلان کیا اس نے ہندوستان کو عالمی پلیٹ فارمز پر بے بس ثابت کردیا۔ یہ جنگ دراصل پاکستانی خارجہ پالیسی کا ایک امتحان ثابت ہوئی۔ جنگ کے دوران ’’ہمارا اتحادی‘‘ امریکہ ہماری مدد کو نہ آیا۔ امریکہ کے ساتھ کیے گئے معاہدات 1965ء کی جنگ میں حرکت میں نہ آئے بلکہ امریکہ نے دورانِ جنگ پاکستان کو اسلحہ کی سپلائی اور فاضل پرزوں کی سپلائی پر بھی پابندی عائد کردی۔ اس طرح پاکستان کی امریکہ کی طرف جھکائو کی خارجہ پالیسی بے سود ثابت ہوئی۔ ایسے میں پاکستان کے دفاع، سلامتی اور عالمی فورمز پر انڈونیشیا، چین، ترکی اور ایران نے جس قدر پاکستان کی حمایت کی،اس نے پاکستان پر بھارتی جارحیت کے خلاف ایک ڈھال کا کام کیا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کے آزادی پسند عوام نے اپنی مسلح افواج کے پیچھے کھڑے ہو کر جس قوم پرستی کا ثبوت دیا اس نے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا حالانکہ بھارتی فوجی افسران بھارتی فوج کی لاہور کی طرف پیش قدمی کے کامیاب امکانات کے سبب اس خواہش کا اظہار کرچکے تھے کہ ہم جشنِ فتح لاہور کے جم خانہ کلب میں منائیں گے لیکن عوام لاٹھیوں، کلہاڑیوں اور دیگر ہتھیار اٹھا کر لاہور کی سرحدی نہر بی آر بی کی طرف ٹولیوں کی شکل میں آگے بڑھے تو حکومت کو اعلان کرنا پڑا کہ وطن پرست شہری مسلح افواج کی پشت پر رہ کر جس قدر دفاعی جنگ میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں وہ کم نہیں۔ حقیقت میں 1965ء کی جنگ کے دوران عوام میں قوم پرستی کا جذبہ دیکھنے کو ملا وہ اس بات کا اظہار تھا کہ پاکستان کے عوام آزادی پسند اور اپنی بقا کی جنگ لڑنا جانتے ہیں۔ 1965
ء کی جنگ نے پاکستان کے عوام میں ایک نیا جذبہ پیدا کردیا تھا اور اس جنگ کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی نے جس طرح پاکستانی مؤقف کو موثر طور پر پیش کیا اس کے سبب وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت ایک مقبول اور عوامی شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جن کی ذاتی کوششوں اور دوراندیشی کے سبب ایک جدید خارجہ پالیسی وجود میں آئی۔ یہاں سے ذوالفقارعلی بھٹو نے سیاست کے اہم مرحلے میں قدم رکھا اور وہ پاکستان کی مقبول اور ذہین ترین شخصیت کے علاوہ آزادی پسند سیاستدان کے طور پر بھی نمایاں ہوئے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے بھارت کے استعماری رجحان کے خلاف جس شعور کا اظہار کیا وہ ایک نئی سیاسی اپروچ تھی۔ بھارت کے توسیع پسند رویّے کے خلاف ذوالفقارعلی بھٹو کا موقف پاکستانی قوم کے اندر بیداری کی ایک نئی تحریک کا سبب بنا۔اس جنگ کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کے انداز نے ان کو ایک نیشنلسٹ لیڈر کے طور پر بھی متعارف کرایا۔۔۔۔۔ (ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب “میرا لہو” کی بقیہ تفصیل آئندہ ہفتے چھٹی قسط میں ملاحظہ فرمائیں)
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں