کراچی(پی این آئی)سپریم کورٹ نے شارع فیصل پر واقع نسلہ ٹاور کو گرانے سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی جبکہ کمشنر کراچی کو ایک ماہ میں نسلہ ٹاور خالی کرانے کا حکم دے دیاجبکہ سماعت2نومبرتک ملتوی کردی ۔بدھ کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کراچی رجسٹری میں نسلہ ٹاور کو گرانے سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت کے دوران نسلہ ٹاورکے مالک کے وکیل منیر اے ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ
سروس لین پر کوئی قبضہ نہیں کیا گیا ہے، سندھی مسلم کے پاس کوئی لیز ہی نہیں ہے،نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کے بھی حقوق ہیں ابھی کمشنر مقرر کرکے انسپیکشن کرالیں۔ شاہراہ فیصل دونوں اطراف میں لوگوں کو اضافی زمین دی گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ کمشنر کراچی کبھی وہاں گئے ہی نہیں مختیار کار اور ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ پر انحصار کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے جو دیوار وہاں بنی ہوئی وہ کمشنر صاحب نے گرائی نہیں ہے۔ابھی جاکر گرائیں اس دیوار کو۔نسلہ ٹاور کے مالک کے وکیل نے کہاکہ لیز منسوخی کے کیسز میں بھی تعمیرات کی اجازت دی گئی ہے اس معاملے پر ایشو کا پھر جائزہ لے کر معائنہ کرایا جائے، پورا نسلہ ٹاور گرانے کا حکم مناسب نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا ٹائٹل ڈاکومنٹ کہاں ہے،آپ اپنا ٹائٹل ڈاکومنٹ دیکھا دیں۔وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ نسلہ ٹاور کی طرح بے شمار عمارتیں کھڑی ہیں، جس طرح نسلہ ٹاور بنایا گیا، ویسے ہی بے شمار عمارتیں بنائی گئیں، گلاس ٹاور کی طرح ہمیں بھی ریلیف دیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کراچی میں تو ساری چیزیں بکتی ہیں، اپروو پلان ہو یا لیز سب بکتا ہے، گلاس ٹاور کے اوپر تو صرف دو فلور تھے، آپ کے پلاٹ کو جہاں رکنا چاہیے تھا وہ آگے چلا گیا۔عدالت نے وکیل نسلہ ٹاور سے کہا کہ پہلے آپ ٹاور کی لیز دکھائیں ، جس پروکیل نے بتایا کہ ہمیں سندھی مسلم نے لیز دی تھی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ اپنا ٹائٹل ثابت نہیں کرسکے، سندھی مسلم کے پاس لیز کا اختیار ہی نہیں تھا، سندھی مسلم آپ کو روڈ کیسے الاٹ کرسکتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ 780 گز سے 1044 گز کیسے ہوگیا ،یہاں سروس روڈ ہی ختم کردیا گیام سامنے سروس روڈ موجود ہے۔وکیل نے کہا کہ سروس روڈ پر تعمیرات کا الزام غلط ہے، پہلے تو یہ دیکھ لیں سروس روڈ پر تجاوزات ہیں یا نہیں۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ ہم نے تمام دستاویزات کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے منیر اے ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دلائل سے مطمئن نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نقشہ دیکھیں، سروس لین نسلہ ٹاور میں شامل ہے، سروس لین تو وہاں سے بالکل غائب کر دی گئی۔ اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ عدالت نے پورے نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نسلہ ٹاور کو جزوی طور پر گرا سکتے ہیں ؟ اگرآپ جزوی قبضے والی جگہ گرا سکتے ہیں تو گرا دیں، اب آپ بلڈنگ بنا کر یہ سارے دلائل دے رہے ہیں۔ منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہی کریں گے تو پورا کراچی گرانا پڑے گا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تو آپ کو کیا تکلیف ہے پھر ؟ منیر اے ملک نے کہاکہ میرا اور آپ کا گھر بھی اسی شہر میں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ہے تو میرا گھر جب دل چاہیں گرا دیں، اگر میرا گھرغیر قانونی سمجھتے ہیں تو وہ بھی گرا دیں۔منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیراعلی سندھ نے ایک زمانے میں یہ زمین دی۔ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ مغلوں کا زمانہ تو نہیں، وزیراعلی کچھ بھی کرے۔جسٹس اعجازالاحسن نے مثال دی کہ لاہور میں غیر قانونی فلور گرانے کی ہدایت کی تھی جس سے بنیاد کمزور ہورہی تھی اس لئے پوری عمارتیں گرانے کا حکم دیا گیا۔الاٹیز کے وکیل نے کہا کہ ہمیں بھی سنا جائے،جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم نے آپ کو راستہ دیا ہے، آپ کو مارکیٹ ویلیو کے حساب سے پیسے مل جائیں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے نسلہ ٹاور کے مکینوں کے وکیل عابد زبیری سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ آپ تو نسلہ ٹاور کے مالک کو پکڑیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے اپارٹمنٹ لینے سے پہلے کیوں نہیں دیکھا تھا، آپ کو نہیں پتا کتنی جعلسازی ہوتی ہے، آپ معائنہ کئے بغیر کیسے خرید لیتے ہیں؟ ۔سپریم کورٹ نے عمارت گرانے سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کردیں، عدالت نے کمشنر کراچی کو ایک ماہ میں نسلہ ٹاور خالی کرانے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ حکام سے عمل درآمد رپورٹ طلب کرلی، کیس کی مزید سماعت 2 نومبر کو ہوگی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں