اسلام آباد (پی این آئی) ترین گروپ کے لوگ ذہنی طور پر ایسی صورتحال کے لیے تیار تو ہیں لیکن مستقبل کی سیاست میں ان کی جائے پناہ کہاں ہو گی اور آئندہ الیکشن میں وہ کس کے اتحادی ہوں گے؟ اس پر ابھی تک ان میں صلاح مشورہ جاری ہے۔ان خیالات کا اظہار کالم نگار سہیل وڑائچ نے اپنے حالیہ کالم میں کیا۔ سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں جہانگیر ترین اور ان کے گروپ کی ممکنہ سیاسی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کے آپسی تعلقات پر بھی بات کی اور کہا کہ چند روز پہلے جہانگیر ترین سے ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ ترین گروپ پوری طرح زندہ ہے اور اپنے مستقبل کے سیاسی ایجنڈے پر غور کر رہا ہے۔بجٹ اجلاس میں ان کی طرف سے بزدار کے حق میں ووٹ دینے سے ان کی الگ حیثیت ختم نہیں ہوئی، انہیں اندازہ ہے کہ ان کے پی ٹی آئی کے اندر گروپ بنانے کو شاید مستقبل میں عمران خان معاف نہ کریں اور ایسی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ عمران خان آئندہ الیکشن میں اس گروپ کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہی نہ دیں۔انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین اور عمران خان کے تعلقات تو ان میں مسلسل اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔جب جہانگیرترین بیرون ملک سے آئے تو حالات بہتر تھے مگر سینیٹ کے الیکشن کے دوران کسی نے خانِ اعظم کو یہ بتایا کہ ترین یوسف رضا گیلانی کے لیے ووٹ مانگ رہا ہے، جہانگیر ترین اگرچہ اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں تاہم شکایتیوں نے خانِ اعظم کے وہ کان بھرے کہ اُس وقت سے لے کر تاحال ان کا آپس میں رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے حالانکہ پہلے ٹیلی فون پیغامات کے ذریعے دونوں کا رابطہ رہتا تھا۔سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ایک حقیقت شاید یہ بھی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دونوں فریق اپنے اپنے طور پر یہ سمجھ چکے ہیں کہ اب دونوں کا اکٹھے چلنا ممکن نہیں۔ غلط فہمیاں، شکایتیں اور دوریاں اس قدر ہو چکی ہیں کہ تلخی کو کم کرنا تو ممکن ہے ختم کرنا ممکن نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جہانگیر ترین کو احساس ہے کہ وہ شوگر اور مقدمات کے اسکینڈل سے نکل کر جو بھی راستہ اپنائیں گے وہ خانِ اعظم کی سیاست سے بہرحال الگ ہو گا۔ترین گروپ کو یہ بھی اندازہ ہے کہ ان کے لیے فی الحال چوائسز مشکل ہیں اس لیے ے فی الحال وہ پی ٹی آئی کے اندر ہی رہیں گے۔ اگلے الیکشن میں وہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے کسی ایک کی چوائس پر ابھی تک متفق نظر نہیں آتے۔ اس گروپ کی خواہش ہو گی کہ پی ٹی آئی کے اندر مزید گروپ بندی ہو اور پی ٹی آئی کا ایک مزید گروپ ناراض ہو تاکہ آئندہ الیکشن کی صف بندی کے لئے الیکٹ ایبلز کا ایک بہت بڑا گروپ بن جائے جس کا کسی دوسرے سیاسی گروپ سے اتحاد ممکن ہو سکے۔سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ ترین گروپ ہو، ق لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، سب کو توقع ہے کہ پی ٹی آئی کے بیک بنچرز یا پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے اپنی پارٹی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور کوئی بھی ایسا واقعہ رونما ہو سکتا ہے جس سے یہ لوگ پارٹی کے اندر ہی ایک اختلافی گروپ بنا لیں۔ اسی طرح کی توقع پنجاب میں کی جا رہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ موجودہ سیٹ اپ اگلے الیکشن کے بعد بھی جاری رہنے کا امکان ہے تاہم زیادہ تر سیاسی مبصرین کا اندازہ ہے کہ اسی سال کے آخر میں پی ٹی آئی کے اندر مزید گروپ بندی کا امکان ہے۔یہی گروپ بندی اگلے الیکشن کی بنیاد بنے گی اور اگر اگلے انتخابات میں حکومتی تبدیلی آتی ہے تو یہ گروپ بندی اس میں اہم کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے اپنے کالم میں ملکی سیاسی حالات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ترین گروپ بھی اپنے سیاسی رُخ کے تعین کے لئے کسی ایسے ہی سیاسی واقعہ کے انتظار میں ہے اسی لئے تاحال انہوں نے کوئی سیاسی ایجنڈا تشکیل نہیں دیا بلکہ صرف ڈے ٹو ڈے معاملات کے بارے میں پالیسیاں بنانے تک خود کو محدود رکھا ہوا ہے لیکن جہانگیر ترین اور اس گروپ کے باقی لوگوں کو یہ احساس ہے کہ بالآخر انہیں اپنا ایک سیاسی ایجنڈا تشکیل دینا پڑے گا اور اسی کے ذریعے ان کا سیاسی طور پر زندہ رہنا ممکن ہے۔جہانگیر ترین کے لئے سب سے بڑی مشکل ان کی ذاتی طور پر سپریم کورٹ کی طرف سے تاعمر نااہل ہونا ہے۔ اس نااہلی کو ختم کرانے کے حوالے سے حال ہی میں ایک امید جاگی جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے کے لئے حکومت نے دوبارہ نظرثانی کی ایک اپیل دائر کی۔ اس نظرثانی اپیل سے ترین کیمپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں