پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب نے دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی روایتی گرم جوشی کو بحال کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد سعودی عرب کا یہ تیسرا دورہ تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ ایک برس سے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی تھی ۔پاکستان کی خواہش تھی کہ سعود ی عرب کشمیر کے مسئلہ پر ساتھ دے لیکن سعودی عرب بھارت کو ناراض نہیں کرچاہتاتھا جو اس کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار اور تیل کا درآمدکنندہ ہے۔
دونوں ممالک کی لیڈرشپ نے ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے آگئے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ایک بار پھر ہم آہنگی کے ساتھ دونوں ممالک خطے میں کردار ادا کرنے کا عزم کرچکے ہیں جو کہ جو ایک دانشمندانہ قدم ہے او ر دونوں ممالک کا مفاد بھی اسی میں ہے۔
پچیس لاکھ پاکستانی ہنر مند سعودی عرب میں پائے جاتے ہیں لیکن اب سعودی عرب کو ہنرمندوں کے لیے محض پاکستان پر انحصا رکی ضرورت نہیں۔ بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان، نیپال اور دنیا کے بے شمار علاقوں سے سستی اور نرم شرائط پر لیبر دستیاب ہوجاتی ہے۔دوطرفہ تجارت کا بھی کوئی حال نہیں۔ موجودہ تجارتی حجم 3.6 بلین ڈالر ہے۔ ستم یہ ہے کہ درآمدی حجم 3.2 ہے۔بیشترحکومتوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی شراکت داری کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
دوطرفہ تعلقات کا زیادہ تر دارومدار دفاعی یا اسٹرٹیجک نوعیت کاہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی اداروں کے درمیان تعلقات ساٹھ کی دہائی سے بہت گہرے اور دوستانہ ہیں۔ پاکستان سعودی عرب کے ہزاروں فوجیوں کو عسکری تربیت فراہم کرتاہے اور اس کے سات ہزار فوجی جوان بھی سعودی عرب میں تعینات ہے۔ غالباً ان دفاعی تعلقات کا ہی ثمر ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کی عسکری لیڈرشپ نے دوطرفہ تعلقات میں ازسر نو گرم جوشی پیدا کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ اگرچہ دونوں ممالک نے کئی ایک معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائیں گے لیکن یاد رہے کہ چھ برس قبل جب پاکستانی پارلیمنٹ نے سعودی عرب کے اصرار کے باوجود یمن کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لیے فوج بھیجنے سے انکار کیا تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے جہاں پاکستان کے ساتھ سردمہری کا برتاؤکیا وہاں انہوں نے بھارت کے ساتھ تجارتی اور اسٹریٹجک تعلقات پر بھرپور توجہ دی۔ پاکستان کے تحفظات کے باوجود بھارت کے ساتھ تعلقات میں مسلسل اضافہ ہوتارہا۔ اسی دوران متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال ہوگئے جو کہ بھارت کا ہمنوا ہے۔سمجھ لیں کہ اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت ایسی نہیں رہی جو سعودی عرب کو پاکستان پر انحصار پر مجبور کرتی ہو۔
پاکستان نے بھی اپنے تعلقات کو قطر اور ترکی کے ساتھ نئی جہت دی۔ قطر کے ساتھ ایل ایم جی کے نئے اور سستے معاہدے کے علاوہ ہنرمند پاکستانیوں کو قطر میں ملازمتیں دلانے کے کامیاب معاہدے کیے گئے۔ قطر کے ساتھ تجارتی تعلقات میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان میںقطر ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ابھرا۔ اس کے برعکس سعودی عرب افغانستان کے معاملات سے عملاً لاتعلق رہا۔ترکی کے ساتھ بھی پاکستان ہتھیاروں کی مشترکہ پیداوار، خریداری اور بے شمار کاروباری معاہدوں میں شامل ہوا۔ترکی اور قطر پہلے ہی ایک دوسرے کے نہ صرف قریب ہیں بلکہ ترک فوجی دستے بھی قطر کی سرزمین پر موجود ہیں۔ایران کے ساتھ پاکستان نے اپنے تعلقات کو نہ صرف ایک سطح پربرقرار رکھا بلکہ بہت سارے مسائل اور تحفظات کے باوجود پاکستان نے ایران کے ساتھ ہم آہنگی کو بڑھایا۔حتیٰ کہ پاکستان کا واشنگٹن میں قائم سفارت خانہ ایران کے امریکہ کے ساتھ سفارتی مفادات کی دیکھ بھال کرتاہے۔
سعودی عرب خود بھی ایک عبوری دور سے گزررہاہے ۔فی الحال وہ اپنے ہمسائیوں اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کوئی حتمی حکمت عملی اپنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ایران چین اسٹریٹجک اور معاشی معاہدوں کے بعد ایران کی سودے بازی کی پوزیشن میں نمایاں بہتری آئی۔ صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے سابق صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے برعکس ایران کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات کی بحالی کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔دونوں ممالک عراق میں خاموشی کے ساتھ مذاکرات بھی کررہے ہیں۔ غالب امکان ہے کہ تعلقات میں کوئی بریک تھرو ہوجائے گا۔اگر ایسا ممکن ہوگیا تو ایران ایک بار پھر بڑی علاقائی طاقت کے طور پر ابھر سکتاہے کیونکہ وہ دنیا کا دوسرا بڑاتیل پیدا کرنے والا ملک ہے اور بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ ایران کی تعمیر نوسے پیدا ہونے والے امکانات سے چین سمیت کئی ایک علاقائی ممالک استفادہ کرنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ چنانچہ اسی پس منظر میں سعودی حکام نے بھی ایران کے لیے نرم مفاہمانہ رویہ اختیار کیا ہے۔
پاکستان کو اب ایک مختلف سعودی عرب کا سامنا ہے جس کی لیڈرشپ میں نوجوانوں کی تعدادغالب ہے اور وہ نفع نقصان کے پیمانے سے دوطرفہ تعلقات کو پرکھتے ہیں۔ تاریخی روابط اور مذہبی شناخت کے بجائے کاروباری اور اسٹرٹیجک لین دین جن کی سیاسی فکر کا محور ہے۔پاکستان جب تک سعودی عرب کے لیے فائدہ مند رہے گا۔سعودی عرب اس کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ ظاہر ہے ! پاکستان اب کسی ملک کی جگہ جنگیں لڑنے کے لیے تیار ہے نہ ہی اس کے سیاسی حریفوں کے ساتھ الجھنے کے لیے آمادہ ۔ وزیراعظم عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اب کسی جنگ میں نہیں الجھے گا۔ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کا علمبردار بننا چاہتاہے۔ اپنے جغرافیہ کو اپنے معاشی اورتجارتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہوئے ترقی او ر خوشحالی حاصل کرنا چاہتاہے۔
وزیراعظم عمران خان کے دورے کے دوران بیس بلین ڈالر کی سرمایاکاری کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں ۔ ماحولیاتی امور اور سیاحت ایسے شعبے ہیں جو دوطرفہ تعاون اور شراکت کے نئے دروازے وا کرسکتے ہیں۔ان امکانات سے استفادہ کرنے کے لیے پاکستان کو داخلی طور پر ایسی معاشی اصلاحات کرناہوں گی جو بیرونی سرمایا کاری کی راہ ہموار کرسکیں۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان میں بھی اکیس ارب ڈالر کی سرمایاکاری کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تھے لیکن ان پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہوسکی کیونکہ پاکستان کا مالیاتی نظام چلانے والے اہلکاروں میں اتنی استعداد ہی نہیں کہ وہ اتنے بڑے منصوبوں کو سنبھال سکیں یا ان پر عمل درآمد کراسکیں۔پاکستان کو سعودی سرمایاکاروں اور شہریوں کی دلچسپی کا مرکز بنانے کے لیے زبردست داخلی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔یاد رہے کہ معاہدے اور یادداشتیں صرف اسی وقت سود مند ہوتی ہیں جب ان پر عمل درآمد کا سیاسی عزم بھی پایاجاتا ہو۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں