اترپردیش(پی این آئی)انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں پرائمری تعلیم کے شعبے میں مبینہ طور پر جعل سازی کا ایک معاملہ سامنے آیا ہے جس کے تحت انامیکا شکلا نامی ایک استانی کو سنیچر کو کاس گنج میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔انامیکا شکلا کو محکمہ پرائمری تعلیم نے نوٹس بھیجا تھا لیکن وہ اس نوٹس کا جواب
دینے کی بجائے استعفیٰ دینے کے لیے گئیں جہاں انھیں ڈرامائی انداز میں گرفتار کرلیا گیا۔پولیس کے مطابق بیسک ایجوکیشن آفیسر کاس گنج کی درخواست پر مقدمہ درج کر کے انامیکا شکالا کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔انامیکا شکلا پر فراڈ کر کے دو درجن سے زیادہ جگہ پر ایک ساتھ نوکری کرنے اور ایک سال میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی تنخواہ حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا انامیکا شکلا ہی وہی استانی ہیں جنھوں نے یہ فراڈ کیا ہے۔کاس گنج کی بیسک ایجوکیشن آفیسر انجلی اگروال نے میڈیاچینل کو بتایا: ‘اس معاملے کا علم ہونے کے بعد ہم نے انامیکا شکلا نامی اس ٹیچر کو نوٹس بھجوایا۔ ہفتے کے روز انھوں نے ایک شخص کے توسط سے اپنا استعفیٰ بھیج دیا۔ لیکن بات چیت کے دوران پتا چلا کہ وہ دفتر کے باہر موجود ہیں۔ پولیس کو اس کے بارے میں اطلاع دی گئی اور پھر پولیس نے انھیں گرفتار کرلیا۔گرفتاری کے بعد استانی نے وہاں موجود صحافیوں کو اپنا نام انامیکا سنگھ بتایا اور بعد میں پولیس کو کچھ اور نام بھی بتایا تاہم پولیس ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔انامیکا شکلا تقریباً ڈیڑھ سال سے ضلع کاس گنج کے علاقے فریدپور کے کستوربا ودیالیہ میں سائنس کی استاد کی حیثیت سے تعینات ہیں۔جمعے کو بیسک ایجوکیشن آفیسر انجلی اگروال نے نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کی تنخواہ روک لی تھی۔ کستوربا سکولوں میں اساتذہ کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر مقرر کیا جاتا ہے اور انھیں ہر ماہ 30 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔یہ مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب محکمہ بنیادی تعلیم نے اساتذہ کا ڈیٹا بیس تیار کرنا شروع کیا۔ اس دوران محکمہ کو 25 سکولوں کی فہرست میں انامیکا شکلا کا نام ملا۔اس اطلاع کے بعد محکمے میں ہلچل مچ گئی اور فوری طور پر پورے معاملے کی چھان بین کرنے کے احکامات دے دیے گئے۔ انامیکا شکلا کے نام پر موجود دستاویزات پر وہ امیٹھی، امبیدکر نگر، رائے بریلی، پریاگراج، علی گڑھ سمیت 25 علاقوں کے سکولوں میں بیک وقت نوکری کرتی ہوئی نظر آئی۔مجموعی طور پر گذشتہ 13 مہینوں میں انامیکا شکلا کو 25 کستوربا گاندھی گرلز سکولوں سے ایک کروڑ روپے کی تنخواہ ادا کی گئی ہے۔بہر حال ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ ساری رقم ایک ہی بینک اکاؤنٹ میں گئی ہے یا مختلف کھاتوں میں ادائیگی کی گئی ہے۔ فی الحال اس کے متعلق بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔کاس گنج کی بی ایس اے انجلی اگروال نے کہا: ‘وہ اس سکول سے تنخواہ لے رہی تھی۔ دوسری جگہوں پر اسی نام سے کام کرنے والی ٹیچر کی تنخواہ اسی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے یا نہیں ابھی اس کی جانچ کی جا رہی ہے۔ ا س بات کی بھی تحقیقات جاری ہیں کہ انامیکا شکلا کے دستاویزات جن پر 25 سکولوں میں نوکری کی جا رہی ہے وہ ایک ہی فرد ہے یا مختلف افراد ہیں اور کیا ایک
ہی فرد کو ساری تنخواہ جا رہی ہے یا مختلف افراد کو۔ ہمیں آن لائن تصدیق کے دوران جو دستاویزات موصول ہوئے اس میں اسی نام کے آدھار کارڈ ہیں اور والد کا نام بھی ایک جیسا ہے۔ دستاویزات میں تصویر بہت دھندلی ہے۔گرفتاری کے بعد انامیکا شکلا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان کی ملازمت کے لیے ایک شخص نے ان کی مدد کی تھی جنھیں انھوں نے ایک لاکھ روپے بھی دیے تھے۔کاس گنج میں مقامی صحافی اشوک شرما کا کہنا ہے کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر یہ وہی انامیکا شکلا نہیں ہے جس کا نام اس مبینہ دھوکہ دہی میں آیا ہے تو پھر نوٹس کا جواب دینے کے بجائے انھیں استعفیٰ دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟دوسری جانب رائے بریلی میں بیسک ایجوکیشن آفیسر کو واٹس ایپ پر انامیکا شکلا کا پہلے ہی استعفیٰ مل چکا تھا اور اس کے بارے میں وہاں چرچا عام تھا تاہم اس کی کسی سرکاری ذریعے سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ محکمہ بنیادی تعلیم میں کچھ لوگوں کی ملی بھگت سے بھی ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ کوئی تنہا ٹیچر اتنے بڑے پیمانے پر فراڈ نہیں کر سکتی ہے۔ریاست کے بنیادی وزیر تعلیم ستیش دویدی نے کیس کا نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ درج کرنے اور قصوروار پائے جانے پر سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اب انامیکا شکلا کی گرفتاری اور ان سے تفتیش کے بعد مزید چیزیں منظرعام پر آئیں گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں