اسلام آباد (پی این آئی) چینی اسکینڈل میں ملو ث ملزمان کو حکومت کی جانب سے بڑا ریلیف دیدیا گیا.. معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ چینی اسکینڈل میں ملوث کسی کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا گیا، اگر کوئی تحقیقاتی ادارہ کہے گا تو کابینہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پر غورکرےگی، کسی کی
درخواست کے بغیر نام ای سی ایل پر نہیں ڈال سکتے۔انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے عوام کے ساتھ کیا وعدہ پورا کردیا ہے، رپورٹ پی آئی ڈی کی ویب سائٹ پر ڈالی جائے گی۔ وزیراعظم کہتے رہے کہ کاروبار کرنے والا سیاست میں آکر بھی کاروبار کرے گا۔رپورٹ پی آئی ڈی کی ویب سائٹ پر ڈالی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ شوگر ملز مالکان نے کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا، شوگر ملز کسانوں کو سپورٹ پرائس سے بھی کم دام دیتے ہیں۔فرانزک آڈٹ میں 140روپے سے کم قیمت میں2019ء تک گنا خریدا گیا، 2020ء میں جب کمیشن بن گیا تو پھر گنا مہنگا ہوا۔ کسان سے کٹوتی کے نام زیادتی کی گئی، گنے کے وزن میں ہیراپھیری کی جاتی ہے، اس میں بھی کسانوں کو نقصان اور ملز کو فائدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح گنے کی خریداری کے عمل میں کچی پرچی کا استعمال کیا جاتا ہے، جو 140روپے قیمت ہے،کم داموں گنا خرید کرچینی کی لاگت کو زیادہ دکھایا جاتا ہے۔شوگر ملز اپنے نقصان کو بھی پروڈکشن نرخ میں شامل کردیتی ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ مختلف ملز مالکان کسانوں کے ساتھ غیرسرکاری طور پر بینکنگ بھی کرتے ہیں، اس مد میں بھی کسانوں سے 35 فیصد وصولی کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ میں دوسری چیز عوام کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ ملز کی چینی کی تیاری کی لاگت ، کہ ایک کلو چینی کتنے پیسے میں بنتی ہے، اس کا پہلے کبھی تخمینہ نہیں لگایا، جبکہ ایک کلو چینی کا تعین حکومتی اداروں اور ریگولیٹری کی ذمہ داری بنتی ہے۔شوگر ملزنے دو ، دو کھاتے رکھے ہوئے ہیں، ایک کھاتہ سرکار کو دکھانے کیلئے اور دوسرا کھاتہ سیٹھ کو دکھانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ شوگر ملز ماضی میں اور ابھی بھی جو قیمت وصول کررہے ہیں، اس کا ہم پچھلے تین سالوں کا جائزہ لیتے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کی چینی کی 2017ء اور 2018ء میں فی کلو قیمت 51روپے ہے، جبکہ فزانزک کمیشن نے قیمت 38روپے ہے۔اس میں 13روپے کمائے گئے۔ اسی طرح 2018ء اور 2019ء میں شوگر ملز ایسوسی ایشن کی چینی کی فی کلو قیمت 52روپے6پیسے اور کمیشن نے 40.6روپے مقرر کی۔ جبکہ شوگرملز کی طرف سے 2020ء
میں62روپے فی کلو قیمت ہے۔فرانزک کمیشن نے 46روپے مقرر کی ہے۔اس رپورٹ میں لاگت اور چینی کی قیمت میں بڑا واضح فرق ہے۔اسی طرح لاگت بڑھانے کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ گنا کم قیمت پر خریدا جاتا ہے، اور زیادہ قیمت دکھائی جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ابھی بھی ٹی ٹیز کے ذریعے پیسے کی ٹرانزیکشنز ہورہی ہے، جو غیرقانونی ہے۔ چینی کی سیلز میں اکاؤنٹنگ فراڈ بھی سامنے آئے ہیں۔چینی کی سیلز جو چیک کی گئی ہیں، سب بے نامی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کے دورمیں جو سبسڈی دی گئی اس میں کمیشن نے سوال اٹھایا کہ آپ نے کبھی بھی برآمد کو ظاہر نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ پچھلے پانچ سالوں میں 29 ارب کی سبسڈی دی گئی، جب شوگر کمیشن نے اندازہ لگایا کہ یہ انکم ٹیکس کتنا دیتے ہیں؟88شوگر ملز انکم ٹیکس کتنا دیتی ہیں۔ 29ارب روپے سبسڈی لی گئی، 22ارب کا انکم ٹیکس، 12ارب کا ریفنڈاور 10ارب ٹیکس دیتے ہیں۔پاک افغان کے درمیان چینی کی درآمد اور برآمد کے ڈیٹا میں فرق ہے۔ پاکستان سے افغانستان میں جو چینی جاتی ہے، یہ ٹرکوں کے ذریعے جاتی ہے، جب ٹرکوں کو چیک کیا گیا،تو 15سے 20ٹن وزن اٹھاتے ہیں، جب چینی چیک کی گئی تو ایک ایک ٹرک پر 70ٹن چینی گئی ہے، یہ مذاق کسی نے چیک ہی
نہیں کیا۔شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر ملز میں6بڑے گروپس ہیں، جو شوگر انڈسٹری کی 51فیصد چینی کی پیدا وار کو کنٹرول کرتے ہیں۔ان ملز کے سیمپلز لے کر انکوائری کی گئی ہے۔6بڑے گروپس میں مارکیٹ میں جے ڈی ڈبلیو کا سب سے بڑا شیئر ہے۔ انہوں نے کہا کہ خسروبختیار کوعہدہ چھوڑنے کا نہیں کہہ سکتے۔ خسرو بختیار کے بھائی کی شوگر مل ہے ان کی اپنی نہیں۔خسروبختیار کے بھائی کے پاس کوئی سیاسی عہدہ نہیں۔ جو براہ راست ملوث ہوگا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن نے چینی بحران کا ذمے دار ریگولیٹرز کو قراردیا ہے۔ریگولیٹرز کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اورقیمت بڑھی۔ کابینہ نے دیگر ملز کا بھی فرانزک آڈٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر عید کے بعد سفارشات تیار ہوں گی۔کابینہ نے ریکوری کرکے پیسے عوام کو دینےکی سفارش کی ہے۔ کمیشن نے کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے۔ وزیراعظم نےغیرمنتخب مشیر اور معاونین کے اثاثے ظاہر کرنے کی ہدایت دی ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ چینی اسکینڈل میں ملوث کسی کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا گیا، اگر کوئی تحقیقاتی ادارہ کہے گا تو کابینہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پر غورکرےگی، کسی کی درخواست کے بغیر نام ای سی ایل پر نہیں ڈال سکتے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں