حکومت نے سینئر صحافیوں کو وزیراعظم بریفنگ میں بلانے کیلئے فون کیا تو سب نے کیا کہہ کر آنے سے انکار کر دیا؟

اسلام آباد (پی این آئی) کورونا وائر س کیخلاف وزیراعظم سمیت حکومتی عہدیداران برسرپیکار ہیں اور حتی الامکان معلومات عوام تک پہنچانے کے لیے میڈیا کیساتھ رابطے میں ہیں ، کچھ صحافیوں سے وزیراعظم کی دو دفعہ ملاقات ہوچکی ہے ، پہلی ملاقات کی نسبت دوسری مرتبہ کم لوگ شریک ہوئے اور اب سینئر صحافی

رئووف کلاسرا نے انکشاف کیا ہے کہ “”پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ ہورہا ہے صحافی وزیراعظم بریفنگ میں جانے کو تیار نہیں۔صحافیوں کو بلانے کے لیے فون کیے تو اکثر نے فون نہیں اٹھائے یا وقت کی کمی کا بہانہ بنا کر معذرت کر لی سوال پوچھ کر گالیاں کون کھائے۔صرف تین صحافی ملے۔یہ حکومت کی کامیابی ہے؟””انہوں نے مزید لکھا کہ “کابینہ اجلاس میں وزیر اعظم ناخوش تھے ان صحافیوں کو کس نے بلایا جنہوں نے ان سے سوالات کیے۔ کراچی سے ایک وزیر جنہیں چھ ماہ منت ترلے بعد مشکل سے دوبارہ وزارت ملی ہے‘نے خوشی سے کابینہ کو بتایا سوشل میڈیا پر سب کی دھلائی جاری ہے۔سوشل میڈیا کو پیچھے لگا دیا ہے”۔اخبار میں انہوں نے مزید لکھا کہ دنیا بھر میں کہیں بھی جب بحران پیدا ہوتا ہے اور حکومتیں بحران کا جواب دینے میں کامیاب نہ ہوں تو اس کا نزلہ سب سے پہلے میڈیا پر گرتا ہے۔ میڈیا عوامی اور حکومتی دبائو میں سینڈوچ بن جاتا ہے۔ ایک طرف عوام کا حکومتوں کی نالائقی پر بڑھتا ہوا غصہ اور دوسری طرف حکومتوں کا میڈیا پر دبائو کہ وہ سب اچھا کرکے پیش کرے۔اس وقت تین ممالک ایسے ہیں جہاں صحافیوں کو حکومتوں کے ردعمل کا سامنا ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور پاکستان ایسے ممالک ہیں جہاں کی حکومتیں خوش نہیں۔ آپ نے صدر ٹرمپ کو سنا ہو گا کہ وہ میڈیا پر برس رہے تھے جب انہوں نے وائرس کو چینی وائرس قرار دیا یا بعد میں ایک اور صحافی کے سوال پر بھڑک اٹھے تھے کہ اس سے زیادہ بیوقوف کوئی نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی عمران خان صاحب میڈیا کے سوالات سے ناخوش ہیں اور اب کی دفعہ جو پریس بریفنگ رکھی تھی اس میں صرف چار صحافی بلائے گئے تھے‘ جس پر نسیم زہرا نے سوال بھی اٹھایا کہ باقی صحافی کہاں ہیں۔ اس پر کہا گیا کہ بیٹھنے کی جگہ کم تھی۔ حالانکہ اسی جگہ وہ دو دفعہ دس دس پندرہ پندرہ صحافیوں کے ساتھ بریفنگ کر چکے تھے۔ذرائع کہتے ہیں کہ دراصل اب کی دفعہ جب صحافیوں کو فون کیے گئے تھے کہ وہ تشریف لائیں تو زیادہ تر نے یا تو وزیر اعظم آفس کے فون اٹھانے سے انکار کر دیا یا وقت کی کمی کا بہانہ بنا کر معذرت کر لی۔ اب یہ نیا ٹرینڈ ابھر رہا ہے کہ صحافی وزیر اعظم صاحب کی پریس بریفنگ میں جانے کو تیار نہیں ہیں۔ جس طرح پریس بریفنگ کے بعد سوشل میڈیا ٹیم نے گندے گندے ٹرینڈ ٹویٹر پر چلائے‘ صحافیوں کو گالیاں دی گئیں اور محمد مالک کی گھریلو تصویریں سوشل میڈیا پر چلائی گئیں تو لوگوں کو وہ دور یاد آ گیا جب بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی تصویریں جہازوں کے ذریعے شہروں میں گرائی جاتی تھیں۔ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا‘ لہٰذا اخراجات زیادہ کرنے پڑتے تھے۔ اب آپ کو زیادہ خرچ کی ضرورت نہیں رہی۔ خزانے سے تین چار کروڑ روپے نکال کر ایک ٹیم بنا لیں‘ وہ آپ کے اشارے پر چوبیس گھنٹے مصروف رہے گی۔یہی وجہ تھی کہ کابینہ کے پچھلے اجلاس میں جب اس پریس بریفنگ کا ذکر ہوا تو وزیر اعظم ناخوش تھے کہ ایسے صحافیوں کو کس نے بلایا جنہوں نے ان سے ”غلط‘‘ سوالات کیے۔ ذرائع کہتے ہیں‘ یہ بھی کہا گیا کہ اس طرح کے سوالات سے حکومت کا معاشی پیکیج پیچھے چلا گیا۔ اس پر ایک اہم وزیر‘ جنہیں ابھی بڑی مشکل سے دوبارہ وزارت ملی ہے‘ نے خوشی سے سب کو کابینہ میں بتایا کہ فکر نہ کریں‘ ان تمام صحافیوں‘ جنہوں نے وزیر اعظم سے غلط سوالات کیے تھے‘ کی سوشل میڈیا پر دھنائی کی جاری ہے۔ وزیر موصوف خوشی سے سب کو تسلی دے رہے تھے کہ وہ صحافی اب چھپتے پھر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا ان کے پیچھے ہے۔اب بندہ کیا کرے‘ جب پریس کانفرنس ختم ہو اور اس کے بعد یہ پلان بنایا جائے کہ اب صحافیوں کے خلاف کیا ٹرینڈ چلانے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا ترجیحات ہیں اور میڈیا کو کیسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب صحافی پریس بریفنگ میں جانے سے کترا رہے ہیں اور جمعہ کے روز دی گئی بریفنگ میں صرف چار صحافی موجود تھے ‘جن میں ایک سرکاری

ٹی وی سے تھا۔ تو کیا حکومت کو اس سے خوش ہونا چاہیے کہ اب صحافی وزیر اعظم کی بریفنگ میں جانے سے کترا رہے ہیں اور کیا یہ حکومت کی کامیابی سمجھی جانی چاہیے؟ کیا اسے حکومت کی سوشل میڈیا ٹیم‘ جو حال ہی میں تشکیل دی گئی ہے‘ کی پہلی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے کہ صحافی پریس بریفنگ میں جانے سے کترا رہے ہیں کہ اس کے بعد کون اگلے دو تین دن تک گالیاں کھائے اور آپ کے گھر والوں کی تصویریں بھی شیئر کی جائیںٗ”۔انہوں نے مزید لکھا کہ “ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ برطانیہ میں بھی آج کل ایک بحث چل پڑی ہے۔ برطانیہ میں بھی وزیر اعظم بورس جانسن جو اس وقت خود کورونا وائرس کا شکار ہیں پر شدید تنقید شروع ہوگئی ہے۔ انہوں نے مارچ کے پہلے اور دوسرے ہفتے ایک ٹی وی مارننگ شو میں یہ فلاسفی پیش کی تھی کہ ہمیں اس کورونا بحران کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے‘ ہمیں شکایتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہنسی خوشی اس مشکل کا سامنا کریں۔ اس پر اس شو کے میزبان نے وزیر اعظم کو آگے سے مزید سوالات نہیں کیے کہ اس Herd Immunity کے کیا کیا نقصانات بھی ہو سکتے ہیں‘ اس بارے میں کچھ سوچا ہے؟ اس پر ڈیلی ٹیلی گراف نے سرخی جمائی کہ جو وزیر اعظم بورس جانسن حکومت کی حکمت عملی پر سوالات اٹھا رہے ہیں وہ نہ صرف غلط ہیں بلکہ وہ ہم سب کے لیے خطرہ ہیں۔ جو بورس جانسن کی اس تھیوری اور حکمت عملی کا ساتھ دے رہے ہیں وہ بالکل درست کر رہے ہیں۔ اب جب پورے برطانیہ میں بیماری پھیلنا شروع ہو گئی ہے اور حالات بگڑنا شروع ہو گئے ہیں تو ایسی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ پچھلے پندرہ دنوں میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ برطانوی عوام کے لیے خطرہ وہ لوگ یا صحافی نہیں جنہوں نے حکومت کی کورنا حکمت عملی پر سوالات اٹھائے بلکہ برطانیہ کے لیے اصل خطرہ وہ ہیں جنہوں نے بورس جانسن کی کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی کو چیلنج نہیں کیا اور آنکھیں بند کرکے یقین کر لیا تھا۔ “

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں