احتیاط برتنا ایمان کے منافی ہرگز نہیں،کرونا وائرس کی وجہ سے سعودی حکومت کی پابندیوں سے متعلق امامِ کعبہ نے وضاحت کر دی

مکہ مکرمہ(پی این آئی)کرونا وائرس نےدنیابھرمیں اپنی دہشت پھیلارکھی ہے،کئی مسلمان ممالک اس وباء کی لپیٹ میں آ چکے ہیں جبکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے مرکزِ عقیدت و وحدت ارضِ حرمین الشریفین میں بھی کروناوائرس سے بچاؤ کےلئےسخت احتیاطی تدابیر اپنائی گئی ہیں جبکہ سعودی حکومت نے دنیا بھر سے آنے

والےعمرہ زائرین پر پابندی عائد کر دی ہے جس سے مسلمانوں میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے،بیت اللہ میں زائرین پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے حوالے سے اسلام دشمن قوتیں جھوٹا اور بے بنیاد پراپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں جبکہ دشنام طرازی کرنے والے سعودی حکومت کی جانب سے خطرناک کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ممکنہ اسباب اختیار کرنے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ،ایسے میں عالم اسلام کے ہر دلعزیز رہنما اور بیت اللہ کے امام و خطیب الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمان بن عبد العزیز السدیس نے کرونا وائرس اور حفاظتی اقدامات کے حوالے سے مسلمانوں میں پیدا ہونے والے تمام اشکالات دور کرنے کے لئے تاریخی کام کرتے ہوئے وبائی امراض سے متعلق شریعت کا اصل نقطعہ نظر کیا ہے؟تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق بیت اللہ کے امام و خطیب الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمان بن عبد العزیز السدیس نے کعبۃ اللہ کے سائے میں زائرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے،دشمن کے ڈر سے ،بھوک کے خوف سے ،مال و جان اور پھلوں کی کمی سے ،اللہ بندوں میں جس کو چاہے مختلف امراض میں مبتلا کر دیتا ہے‘‘احتیاط برتنا ایمان کے منافی امور میں سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ اُس ذات پر یقین اور توکل کے منافی ہےاور یہ اللہ تعالیٰ کی کمال حکمت ،قدرت اور مشیت کے تابع ہےاور کوئی چیز تقدیر اور اُس ذات کے فیصلے سے ہٹ کر واقع نہیں ہوتی ، ایک مسلمان ہمیشہ تقدیر اور اللہ کے فیصلے پر ایمان رکھتا ہے۔الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمان بن عبد العزیز السدیس نے کہا کہ ان وبائی امراض سے متعلق تین آراء پائی جاتی ہیں،ان میں سے ایک طبقہ اسباب نہیں صرف توکل کا قائل ہے،دوسرا طبقہ توکل کی بجائے صرف اسباب اختیار کرنے کا قائل ہے جبکہ تیسرا ’درمیانہ طبقہ‘ ہے جو توکل کے ساتھ اسباب کا بھی قائل ہے،یہی وہ منہج ہے جو مملکت سعودیہ نے اختیار کیا ہےتاکہ ایسی وباء کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے،جس طرح نبی ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ ’’اگر کہیں طاعون کے بارے میں سنیں تو وہاں داخل مت ہوں اور اسی طرح کہیں یہ وبا واقع ہو جائے تو وہاں سے نہ نکلیں‘‘یہ سب اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہے۔انہوں نے کہا کہ وبائی امراض سے متعلق بھی ’درمیانہ ‘‘ موقف ہونا چاہئے ،جس طرح حدیث میں آیا ہے کہ ’’نہ کوئی بیماری متعدی ہے اور نہ ہی بد شگونی ہے‘‘اس حدیث کا مطلب کلی طور پر نفی مراد نہیں ہےبلکہ صیح یہ ہے کہ کوئی بیماری اللہ کے حکم کے بغیر ایک دوسرے میں منتقل نہیں ہو سکتی ،اس میں اہل جاہلیت پر رَد ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ متعدی بیماریاں لوگوں کی وجہ سے پھیلتی ہیں یا بیمار انسان کی وجہ سے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سب حکم الٰہی کے تابع ہے اسی لئے اس حدیث کے آخر میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا!البتہ جذامی شخص سے ایسے بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو‘‘یعنی بچنے کے اسباب کرو ،اس لئے ہم حرمین اور دیگر مساجد بلکہ پورے عالم میں اس کرونا وائرس کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ سب انسان کے کمزور ہونے پر دلالت کرتا ہے ان کے لئے اللہ سے بے پروائی ممکن نہیں ہےلمحہ بھر کے لئے بھی،یہی ایمان اور عقیدہ ہونا چاہئےکہ ’’جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہی اللہ مجھے شفاء دیتا ہے‘‘اگر پوری دنیا بھی اس وائرس کو ختم کرنا چاہے تو اللہ کے حکم و قدر کے بغیر ختم نہیں کر

سکتا ، لہذا بندوں کو چاہئے کہ اللہ سے رجوع کریں ،اُسی پر توکل کریں اور لوگوں کو پریشان اور خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے،کچھ لوگ آپس میں ملنے ،مسجد جانے سے ڈر رہے ہیں اور کچھ زیادہ ہی احتیاط کرتے نظر آ رہے ہیں،ہاں البتہ احتیاط کرو،خود کو بچاؤ ،ہاتھوں کو دھو لو ،چھینک کھانسی کے وقت احتیاط برتیں ۔امام کعبہ نے کہا کہ ہم یہاں مسجد الحرام اور مسجد نبویﷺ میں قالینوں ،صحن اور فرش پر روزانہ دس مرتبہ سپرے کر رہے ہیں جو کہ نمازوں سے پہلے اور بعد میں انجام پاتے ہیں اور ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا سنت نبویﷺ سے ثابت ہے،ایسے انتظامات توکل کے منافی نہیں ہیں ،اسی لئے کچھ لوگوں نے یہ سمجھا کہ خارش زدہ اونٹ دوسرے اونٹ کو بھی خارش زدہ کر دیتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا!پھر پہلے اونٹ کو خارش کس نے لگائی؟لہذا معاملہ اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمان بن عبد العزیز السدیس نے کہا کہ اس لئے بندوں کو چاہئے کہ اللہ سے رجوع کرنے کے ساتھ اسباب بھی اپنائیں،ہم نے جتنے اسباب اپنائے ہیں وہ سب درست سمت میں جارہےہیں لہذا اس دوران کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ عمرہ کرنےیاحرم جانےسے کیوں روکا جا رہا ہے؟یہ سب شرعی مصلحت پوری کرنے کے لئے کیا جا رہا ہےتاکہ کہیں سستی کی وجہ سے کوئی بہت بڑا نقصان نہ اٹھانا پڑ جائے،لہذا ہم یہ احتیاطا یہ اقدامات اٹھا رہے ہیں اور یہ مختصر مدت کے لئے ہے جو کہ ختم ہو جائے گی لہذا ہم اسباب اختیار کرنے کے ساتھ اُس ذات پر توکل بھی کرتے ہیں،جو بھی احتیاطی تدابیر اٹھائی گئی ہیں وہ اسباب ہی ہیں اور صرف اِنہی اسباب پر ہی اعتماد نہیں کیا جاتا ،ان اسباب کا اختیار کرنا شریعت اور قرآن و سنت کے عین مطابق ہے،اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ لطف و کرم کامعاملہ فرمائے،ان کےدلوں اوراعمال کی اصلاح فرمائے،اللہ ہم سب کو عافیت اور تندرستی عطا فرمائے اور اللہ ہم سے وباء،مہنگائی،سود اور آفات دور کر دے اور تمام موذی بیماریاں جیسے برص ،جنون ،جذام وغیرہ ہم سے دور کر دے،بے شک وہ اللہ سخی اور کریم ذات ہے ۔

close