کابل (پی این آئی) افغان صدر اشرف غنی نے طالبان قیدی رہا کرنے کا اعلان کردیا ، انہوں نے کہا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، بس گارنٹی ہونی چاہیے کہ طالبان قیدی دوبارہ جنگ نہیں لڑیں گے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہاکہ طالبان قیدیوں کی رہائی کیلئے شفاف طریقہ کار تشکیل دینے کی
ضرورت ہے۔ ایسا طریقہ بنایا جائے گا جس سے ملک میں مثبت تبدیلی آئے اور ی طریقہ جنگ بندی کی وجہ بھی بن جائے۔طالبان قیادت کی طرف سے گارنٹی ہونی چاہیے کہ طالبان قیدی دوبارہ جنگ نہیں لڑیں گے۔ دوسری جانب امریکا نے افغانستان میں رہنے کا پلان بی تیار کرلیا ہے، پلان کے تحت امریکا نے اسپیشل کمانڈ فورسز تیارکی ہیں، ان کا بگرام سے 28 کلومیٹر دور ہیڈکوارٹر ہوگا، فوجی انخلاء کے بعد آئندہ دنوں میں یہ فورسز افغانستان میں آپریشن کریں گی۔سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد مسعود نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے ، یہ صرف چار دن پہلے ہوا، جب افغانستان میں پانچ ہزار قیدی حکومت نے اور ایک ہزار افغان طالبان نے چھوڑنے ہیں۔لیکن افغانستان میں حملہ ہواہے، جس تقریب میں حملہ ہوا، وہاں حامد کرزئی، عبداللہ عبد اللہ بھی بیٹھے تھے حملے میں باقاعدہ فائرنگ کی گئی۔ایک ہزارہ رہنماء جن کو1995ء میں قتل کردیا گیا تھا، ان کی برسی تھی ، اس حملے میں 27 افراد مارے گئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز رپورٹ کررہا ہے کہ امریکن پہلے ہی اسپیشل کمانڈ فورسز تیار کرچکے ہیں، جن کا بگرام سے 28 کلومیٹر دور ہیڈکوارٹر ہوگا۔آنے والے دنوں میں یہ فورسز آپریشن کریں گی،امریکا کا فوجی انخلاء الگ بات ہے، یہ امریکا کا پلان بی ہے، جو کہ تیار ہے،وہ کہتے ہیں کہ امریکا یہاں پر رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اشرف غنی نے پیر کے روز کہا کہ میں صدارتی حلف اٹھاؤں گا، جس کے ساتھ ہی عبداللہ عبداللہ نے بھی اعلان کردیا ہے کہ میں بھی حلف اٹھاؤں گا۔ اس دوران زلمے خلیل زاد پریشان حال گھوم رہے ہیں کہ معاملات حل ہوجائیں ۔واضح رہے افغانستان کے دارلحکومت کابل میں شعیہ رہنما عبدالعلی مزاری کی برسی کے موقع پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ اور راکٹ حملے کے نتیجے میں 27 افراد جاں بحق اور18 سے زائد زخمی ہوگئے۔ حملے پر مریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا کہ پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ امن معاہدے کے لیے خطرہ ہے۔ تمام فریق افغانستان میں امن کے لیے راہ ہموار کرنے پر متفق ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں