بلوچستان سیلاب، 225 افراد جاں بحق، 13000 مکانات تباہ، جاں بحق ہونے والوں میں 46 عورتیں، 32 بچے شامل، وفاقی وزیر کی تہلکہ خیز بریفنگ

اسلام آباد ( آئی این پی ) وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ نے کہاہے کہ بلوچستان میں حالیہ بارشوں سے گزشتہ 30 برس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے ، 95 فیصد بلوچستان ڈوب چکا ہے،جتنا نقصان پورے ملک میں ہوا اسکا 60 سے 65 فیصد صرف بلوچستان میں ہوا ہے، اب تک صوبے بھر میں 225 اموات واقع ہو چکیں،جن میں 46 عورتیں اور 32 بچے شامل ہیں ،4 اضلاع نوشکی، لسبیلہ، چاغی اور ژوب سے 11 لاشیں ملی ہیں ،

خدشہ ہے اموات اس سے کہیں زیادہ ہیں جو سامنے آ رہی ہیں ،8 اضلاع جن میں کوئٹہ، پشین، جعفر آباد، خضدار، کوھلو، بار خان، لسبیلہ، جھل مگسی شامل ہیں میں 13000 سے زیادہ مکانات تباہ ہو چکے ہیں ، لاکھوں جانور جو غریب لوگوں کی روزی کا واحد ذریعہ تھے ہلاک ہو چکے ہیں۔ بجلی کا نظام درہم برہم ہو چکا ،ہزاروں ایکڑ پر محیط فصلات اور زرعی اجناس تباہ ہو چکی ہیں جو کٹائی کے لئے تیار تھیں۔پیر کو بلوچستان کی موجودہ صورت حال پریہاں اسلام آباد میںنیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ بارشوں سے گزشتہ 30 برس کا ریکارڈ توٹ گیا ہے ، 95 فیصد بلوچستان ڈوب چکا ہے،جتنا نقصان پورے ملک میں ہوا اسکا 60 سے 65 فیصد صرف بلوچستان میں ہوا ہے اب تک صوبے بھر میں 225 اموات واقع ہو چکیں، مرنے والوں میں بڑی تعداد عورتوں و بچوں کی ہے۔ انکے علاوہ بلوچستان کے 4 اضلاع نوشکی، لسبیلہ، چاغی اور ژوب سے 11 لاشیں ملی ہیں۔مرنے والوں میں 46 عورتیں ہیں اور 32 بچے ہیں۔ خدشہ ہے اموات اس سے کہیں زیادہ ہیں جو سامنے آ رہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ8 اضلاع جن میں کوئٹہ، پشین، جعفر آباد، خضدار، کوھلو، بار خان، لسبیلہ، جھل مگسی شامل ہیں میں 13000 سے زیادہ مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ لاکھوں جانور جو غریب لوگوں کی روزی کا واحد ذریعہ تھے ہلاک ہو چکے ہیں۔ بجلی کا نظام درہم برہم ہو چکا۔ ہزاروں ایکڑ پر محیط فصلات اور زرعی اجناس تباہ ہو چکی ہیں جو کٹائی کے لئے تیار تھیں۔ ڈیرہ جمالی، نصیر آباد، جعفر آباد میں لوگ نان و شبینہ کے محتاج،لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور 2000 ایکڑ زمین صرف ضلع لسبیلہ میں تباہ ہوئی ہے۔ کئی دیہات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ دیہاتوں کا شہروں سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ ہزاروں لوگ دیہاتوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور امداد کے منتظر ہیں 600 کلومیٹر کی ہائی وے کو نقصان پہنچ چکا۔ کئی پل بہہ گئے یا ٹوٹ چکے ہیں۔ کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والا RCD ہائی وے اور مکران کوسٹل ہائی وے جو جنوبی بلوچستان( بالخصوص گوادر بندر گاہ) کو کراچی اور پاکستان سے منسلک کرتی ہے تباہ حال ہو چکی۔ جبکہ انہی سڑکوں سے صوبہ میں فوڈ اور دیگر سپلائز آیا کرتی ہیں۔ پاکستان اور ایران کے مابین ریلوے سروس معطل ہو چکی کیونکہ پٹڑی کے کئی حصے بہہ چکے ہیں۔ حالیہ بارشوں میں سب سے زیادہ نقصانات بلوچستان میں ہونے کیوجہ اس صوبے کا انفراسٹرکچر پاکستان کے باقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ اورصوبے میں غربت سب سے زیادہ ہے۔ دوکانیں مدرسے مساجد مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ 800 اسکولز پاکستان بھر میں متاثر ہوئے جن میں سے 600 سے زیادہ صرف بلوچستان میں ہیں۔ صوبے کو کلائمیٹ کرائسس کا سامنا ہے اور ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا جکہ وزیر اعظم شہباز شریف اس سلسلے میں بہت متحرک ہیں۔ مگر اتنی بڑی قدرتی آفت سے نپٹنا ریاست کے بس کی بات نہیں۔ آغا حسن بلوچ مخیر حضرات، ٹرسٹ اور قومی و علاقائی این جی اوز سے امدادی سرگرمیوں کی اپیل۔ اس موقع پر تمام بین الاقومی ادارے جو ریلیف آرگنائزیشنز ہیں یا ڈیزاسٹر مینجمنٹ پر کام کرتی ہیں بالخصوص ورلڈ فوڈ پروگرام، یونیسف، ریڈ کراس، وہ مشکل کی اس گھڑی میں بلوچستان کی عوام کا ساتھ دیں۔ ۔۔۔۔

close