میرا جسم میری مرضی، ماہرہ خان نعرے کی حمایت پر تنقید کی زد میں

کراچی (آئی این پی) سٹار اداکارہ و ماڈل ماہرہ خان میرا جسم میری مرضی کے نعرے کی حمایت پر تنقید کا شکار ہوگئیں۔ ماہرہ خان ایک کے ویب شو میں جلوہ گر ہوئی تھیں جس میں انہوں نے میزبان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ہر سال عورت مارچ میں جانے اور میرا جسم میری مرضی کے نعرے کے درست مطلب کی

وضاحت سے متعلق گفتگو کی۔ماہرہ خان نے کہا کہ میرا جسم میری مرضی کے نعرے کا مطلب یہ نہیں کہ میں کپڑے پھاڑ کر بیٹھ جاں ،اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ایک مکمل انسان ہوں، یہ میرا جسم ہے اور میری مرضی ہے، اگر آپ مجھے دیکھ رہیہیں اور مجھے برا لگ رہا ہے تو یہ میری مرضی ہے کہ میں آپ کو کہوں کہ آپ مجھے نہ دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ مجھے چھونا چاہ رہے ہیں تو میں آپ کی رپورٹ کردوں کیونکہ یہ میرا جسم ہے اور میری مرضی ہے، جب مجھے کوئی مسئلہ نہیں تو میں آپ کو اجازت دے سکتی ہوں۔ماہرہ کے جواب پر توقع کے برعکس وہ مداحوں کی تنقید کا شکار ہوگئیں کیو نکہ مداحوں کا خیال ہے کہ یہ دراصل یہ غیر ملکی آرگنائزیشن کا نظریہ ہے جسے پاکستان میں اداکاراں کے ذریعے تیزی سے پھیلایا جارہا ہے۔اداکارہ کے بیان پر ایک صارف نے کہا کہ ایک طلاق یافتہ اور داغدار عورت کو یہ حق نہیں کہ وہ اخلاقیات کو فروغ دینے کی بات کرے۔ایک صارف کا کہنا تھا کہ دراصل ماہرہ خان یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ چھونے سے قبل پیشگی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔ایک صارف نے اداکارہ کو میرا جسم میری مرضی کی بانی عورتوں میں شامل کرتے ہوئے لکھا کہ ان کا تعلق کینیڈا سے ہے جن کی تشریح اور مطلب کچھ اور ہے ،گوگل کرلیں۔۔۔۔حکومت اکثریت کھو چکی ہے، اراکین اسمبلی کو وزیراعظم پر اعتماد نہ رہا، سینئر صحافی نے پی ٹی آئی

حکومت کےقبل از وقت خاتمے کا عندیہ دیدیا لاہور(پی این آئی)سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی تاریخی فتح کے بعد تحریک انصاف کی حکومت پانچ سالہ مدت پوری کرتے دکھائی نہیں دے رہی ،آج حکومت منیارٹی گورنمنٹ بن گئی ہے اور آج کے بعد حکومت کے پاس میجورٹی نہیں رہی کیونکہ قومی اسمبلی کی اکثریت نے حکومتی امیدوار کو ووٹ نہ دے کر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کردیا ہےاور اب وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کی فتح کے بعد اخلاقی پہلو پر زیادہ گفتگو ہو رہی ہے جبکہ جو فزیکل پہلو ہےاُس پر بات ہونی چاہئے کہ آج اس الیکشن کا مطلب کیا تھا اور آگے اس الیکشن کے نتائج کیا ہوں گے؟پہلی بات یہ ہے کہ آج حکومت منیارٹی گورنمنٹ بن گئی ہے اور آج کے بعد حکومت میجورٹی گورنمنٹ نہیں رہی کیونکہ یوسف رضا گیلانی جیت گئے ہیں اور جو حکومت کا امیدوار ہے وہ قومی اسمبلی میں ہار گیا ہے، یوں قومی اسمبلی کی اکثریت نے ایک طرح سے وزیراعظم اور اُن کےامیدوار پر عدم اعتماد کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کی فتح کے بعد وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی راہ ہموار ہو گئی ہے،اب عمران خان کو اس صورتحال میں ووٹ آف کنفیڈنس

لینا چاہئے ،پہلے یہ خیال تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت آرام سے پوری کر لے گی ،میرا خیال ہے کہ اس الیکشن کے بعد اب ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا ،اس کی وجہ یہ کہ حکومت بہت ہی کمزور وکٹ پر کھڑی ہے۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ اخلاقی پہلو مادی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں،اخلاقی سوال بڑا اہم ہےلیکن سوال تو یہ ہے کہ پاکستان کے اندر جو مارشل لاء ہیں ،ان کے اندر کون سا اخلاقی سوال ہوتا ہے؟پاکستان کے اندر جو آمرانہ حکومتیں ہوتی ہیں اُن کے اندر کون سا اخلاقی سوال ہوتا ہے؟تو جو مادی نتائج ہیں وہ زیادہ اہم ہیں ،مادی نتائج یہ ہیں کہ یوسف رضا گیلانی جیت گئے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اندر لوگوں کی ایک بغاوت تھی اور لوگوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہےاور یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیئے ہیں ،میرا نہیں خیال کہ یہ ووٹ پیسوں کے بدلے دیئے گئے ہیں ،یہ یقینی طور پر اُن کا اظہار ناراضگی ہے،اسی لئے ووٹ مسترد ہوئے ہیں اور اسی لئے ووٹ یوسف رضا گیلانی کو پڑے ہیں ۔

close