پشاور کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کا منشیات ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ

پشاور (آئی این پی ) صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے تمام سرکاری و نجی سکولوں، کالجز اور جامعات میں منشیات کا ٹیسٹ(ڈوپ ٹیسٹ)کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔طلبہ کا ڈوپ ٹیسٹ ستمبر میں شروع کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں طلبہ سے رضاکارانہ طور پر ٹیسٹ کروانے کا کہا جائے گا جس کے بعد دوسرے مرحلے میں سب طلبہ کے لیے ڈوپ ٹیسٹ کرانا لازمی ہوگا۔ کمشنر پشاور ڈویژن ریاض محسود نے غیرملکی ویب سائیٹ کو بتایا کہ اس اقدام کا مقصد تعلیمی اداروں کو نشے کی لعنت سے پاک کرنا ہے کیونکہ آج کل کے نوجوان آئس اور نت نئے ناموں کی منشیات کے عادی ہوچکے ہیں۔کمشنر نے کہا کہ سب سے پہلا ٹیسٹ میں اپنا کروا رہا ہوں تاکہ تمام والدین اور طلبہ کو اس مہم کی سنجیدگی کا اندازہ ہوجائے۔

پہلے مرحلے میں پشاور اور پھر ضلع خیبر میں یہ سکریننگ ہوگی۔ تعلیمی اداروں میں ٹیسٹ کے لیے محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم سے تعاون حاصل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ڈوپ ٹیسٹ کی رپورٹس کو خفیہ رکھا جائے گا۔ اگر کسی طالب علم کی رپورٹ مثبت آئی تو اس کے والدین کو بلا کر اس کی بحالی پر کام شروع کیا جائے گا۔پشاور ڈرگ فری مہم 25 مئی سے شروع ہے جس کے تحت ہم نے باہر سڑکوں سے منشیات کے 1200 عادی افراد کو اٹھا کر بحالی مراکز میں داخل کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 25 اگست کو نشے سے متاثرہ افراد کو ان کے گھر بھیج دیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں ستمبر سے تعلیمی اداروں پر ترجیحی بنیادوں پر مہم شروع کررہے ہیں۔دوست بحالی فائونڈیشن کی پروگرام مینیجر اور کنسلٹنٹ شائستہ ناز نے بتایا کہ پشاور انتظامیہ کا یہ فیصلہ قابل تعریف ہے۔ تعلیمی اداروں میں نشے کا خاتمہ ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔انہوں نے بتایا کہ ڈوپ ٹیسٹ میں شراب کے علاوہ باقی تمام ڈرگز کا پتا چل جاتا ہے۔ اگر نشے کو زیادہ دن گزر گئے ہوں تو پھر رپورٹ منفی آتی ہے۔

شائستہ ناز کے بقول ٹیسٹ کے عمل کی کامیابی کے لیے والدین اور سکول انتظامیہ کی رضامندی ضروری ہے۔ اگر اساتذہ رضاکارانہ طور پر اس عمل میں شریک ہوں تو سکریننگ کے لیے طلبہ بھی آگے آجائیں گے۔ رپورٹ آنے کے بعد متاثرہ طلبہ کے نام اور شناخت چھپائی جائے تاکہ ان کو سامنے لائے بغیر ان کا علاج ممکن ہوسکے۔کمشنر پشاور کے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے طالب علم نعمان نے عرب ویب سائیٹ کو بتایا کہ ڈوپ ٹیسٹ کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔ ہمارے کچھ کلاس فیلوز نشہ کرتے ہیں۔

اگر ان کا علاج ہوجائے تو بہت اچھا ہوجائے گا۔نجی کالج کے ایک اور طالب علم نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ اگر طلبہ کے نشے کے بارے میں والدین کو پتا چلا تو ہوسکتا ہے کہ گھر کے معاملات بگڑ جائیں۔یہ خدشہ ہے کہ ٹیسٹ رپورٹس غلط ہوں اور وہ طالب علم نشہ بھی نہ کرتا ہو پھر اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔طالب علم نے مزید کہا کہ سکریننگ ٹیسٹ سے بہتر کہ کمشنر اور پولیس نشہ بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں