ہائر ایجوکیشن کمیشن کے باہر دھرنا، 97 سرکاری یونیورسٹیوں کے 40 ہزار اساتذہ کا یکم مارچ سے ملک گیر احتجاج کا اعلان

مظفرآباد(آئی این پی)پاکستانی جامعات کے اساتذہ کا یکم مارچ سے ملک گیر احتجاج کا اعلان، 97پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے 40ہزار سے زائد بی پی ایس اساتذہ مطالبات کی عدم منظوری پر کلاسز کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے باہر احتجاجی دھرنا دیں گے،حکومت کو صورت حال سے آگاہ کر دیا کہ نقصانات کی تمام تر ذمہ داری ایچ ای سی اور حکومت پر عائد ہو گی، پچھلے 17مہینوں میں ایچ ای سی سے 17میٹنگز ہوئیں لیکن بے سود نکلیں،اساتذہ کو اب تعلیمی اداروں سے نکال کر سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا جا رہا ہے،

آزادکشمیر سمیت ملک بھر میں مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رہے گا۔ان خیالات کا اظہار آل پاکستان یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن(اپوبٹا)کی مرکزی نائب صدر ڈاکٹر ریحانہ کوثر،نائب صدر آزادکشمیر چیپٹر ڈاکٹر بتول عطا،جنرل سیکرٹری آزادکشمیر چیپٹر سید مدثر گردیزی نے مرکزی ایوان صحافت میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ آل پاکستان یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن(اپوبٹا) ملک بھر میں بی پی ایس ٹیچرز کا واحد نمائندہ فورم ہے جس کا مقصد یونیورسٹیوں میں تدریس اور تحقیق کے معیار کو بلند کرنا اور یونیورسٹیوں میں بی پی ایس اساتذہ کے جائز حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہے،کچھ حقائق ارباب اختیار کے سامنے رکھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پچھلے بیس سالوں میں پاکستان کے اندر یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ تو ہوا لیکن نتائج تشویش ناک ہیں،ملک میں اعلیٰ تعلیم کا معیار گر رہا ہے،فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی سالانہ رپورٹس گواہ ہیں کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کا معیار بہت گر چکا ہے،

امیدواروں کے پاس ہونے کی شرح 12فیصد سے کم ہو کر محض 2فیصد رہ گئی ہے،خیبر پختونخواہ میں تناسب صرف ایک فیصد رہ گیا ہے،جو ہمارے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے، آل پاکستان یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن(اپوبٹا) کے راہنماؤں نے کہا کہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں بی پی ایس اساتذہ کے قانونی و بنیادی حقوق کا استحصال بھی معیار تعلیم گرنے کی بڑی وجہ ہے،ملک بھر کی جامعات میں سالانہ بڑی تعداد میں تحقیقی مقالے لکھے جاتے ہیں لیکن اس تحقیق کا سماج پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا،ہائیر ایجوکیشن کمیشن شاید جواب نہ دے پائے لیکن جامعات کے بی پی ایس اساتذہ یہ سمجھتے ہیں کہ تحقیق کا معیار اس لیے گر رہا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات کے اساتذہ کو بی پی ایس اور ٹی ٹی ایس میں تقسیم کر دیا،ایچ ای سی فیکلٹی کی تقرری اور پروموشن کیلئے کم از کم معیار اور اہلیت فراہم کرنے کا اختیار دیتا ہے،اس حوالے سے ایچ ای سی آرڈیننس 2002کے سیکشن 10-Qمیں ساری وضاحت موجود ہے لیکن بد قسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا،آرڈیننس کی خلاف ورزی انتہائی تشویش ناک ہے، جامعات میں بی پی ایس فیکلٹی مکمل نظر انداز ہو رہی ہے،

اس وقت تناسب کے مطابق بی پی ایس فیکلٹی 88فیصد جب کہ ٹی ٹی ایس محض 12فیصد پر مشتمل ہے،ٹی ٹی ایس خالصتاً ریسرچ ٹریک ہے لیکن اب یہ لوگ زیادہ تر انتظامی ذمہ داریوں پر قابض ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے تحقیق پر مبنی تقرریوں اور ترقیوں کا منظر نامہ مزید خراب ہو گیا ہے،عوام کا پیسہ بھی مسلسل ضائع ہو رہا ہے،ٹی ٹی ایس فیکلٹی کی ترقیاں بغیر اشتہارات اور بغیر ملک گیر مقابلے کے ہو رہی ہیں جب کہ بی پی ایس پر تعینات سینئر،قابل اور تجربہ کار فیکلٹی کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں،پیچیدہ قوانین بنا کر ہائیر ایجوکیشن کمیشن جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے،جونیئر اور کم عمر ٹی ٹی ایس فیکلٹی ممبرز کو بی پی ایس پر فوقیت دی جارہی ہے،بی پی ایس اساتذہ کیلئے کوئی پروموشن پالیسی نہ ہے جس کی وجہ سے اساتذہ کی کارکردگی سمیت جامعات کا تدریسی معیار شدید متاثر ہورہا ہے،ایک جانب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے جعلی تحقیق کا پول خود کھولا اور دوسری جانب بی پی ایس اساتذہ کے ساتھ امتیازی سلوک سمجھ سے بالاتر ہے،جامعات میں 60فیصد سے زائد فیکلٹی ممبران نان پی ایچ ڈی ہیں،یونیورسٹیوں میں ان کی اہلیت بہتر بنانے کیلئے کوئی نظام موجود نہیں،

اس امتیازی سلوک اور قانونی خلاف ورزی نے سنیارٹی کے سنگین مسائل پیدا کرنے کے ساتھ سازگار ماحول کو بگاڑ دیا،قوم کے معماروں میں شدید احساس محرومی پیدا ہو چکا ہے،راہنماؤں نے مزید کہا کہ جامعات میں بی پی ایس اساتذہ کے ساتھ امتیازی سلوک کو روکنے کی اشد ضرورت ہے،سنیارٹی کے خود ساختہ مسائل کو حل کیا جائے،بی پی ایس فیکلٹی نے پروموشن پالیسی تجویز کی لیکن یہاں بھی تاخیری حربے اختیار کیے جا رہے ہیں،ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو28فروری تک بی پی ایس فیکلٹی کیلئے پروموشن پالیسی کی منظوری دینی چاہیے کیوں کہ یکم دسمبر 2021ء سے ملک کی تمام جامعامات میں بی پی ایس فیکلٹی ممبران نے احتجاج شروع کر رکھا ہے،اب اگر 28فروری تک جامعات کے بی پی ایس اساتذہ کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو یکم مارچ2022 سے ملک بھر کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے40ہزار اساتذہ ملک گیر احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے،پھر حالات کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔۔۔

close