کراچی، احتجاجی مظاہرے میں ایم کیو ایم کے کارکن کی ہلاکت،صوبائی وزیر سعید غنی نے واقعے کو سوچا سمجھا منصوبہ قرار دے دیا

کراچی(آئی این پی) وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ گذشتہ روز وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر ہونے والا واقعہ ایک ناپسندید واقع تھا لیکن ہمارے پاس دوسرا کوئی آپشن نہ تھا کہ ہم ملکی سالمیت اور ملک کے وقار کو عالمی سطح پر بدنام ہونے سے بچا یا، سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے حامی ہیں لیکن جو کل ہوا وہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا، جس سے پی ایس ایل کی ٹیموں جس میں انٹرنیشنل کھلاڑی بھی ہیں ان پر منفی اثرات مرتب ہوں، گذشتہ روز کے واقعہ سے ٹیمیں پریکٹس پر بھی نہیں جاسکی تھی۔

نامعلوم کا سب کو معلوم ہے کہ وہ ایم کیو ایم ہے لیکن وہ دن چلے گئے جب وہ چٹکی بجاتے اور سب بند ہوجاتا تھا۔ گھروں پر جاکر احتجاج کی روایت نہ ڈالی جائے، گھر صرف ایک پارٹی کے قیادت کے نہیں تمام پارٹیوں کی قیادتوں کے بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 30 جنوری کو کراچی پریس کلب کے باہر گیس کے بحران، مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف احتجاج پی ایس پی کی جانب سے احتجاج کے باعث موخر کیا ہے اور ممکن ہے کہ ہم اس سے قبل یا اس کے بعد یہ احتجاج کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری وقار مہدی اور علی راشد کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ سعید غنی نے کہاکہ ایم کیوایم لسانیت کی طرف شہرکودھکیلناچاہتی ہے، اگربلدیاتی نظام پرتحفظات ہوں،اگرٹنڈوالہیارکارکن کیس پرتحفظات ہوں تواس کوبھی حل کیاجاسکتاہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ کئی روز سے آفاق احمد، خالد مقبول،عامرخان اوروسیم اخترکے بیانات جو آرہے ہیں وہ اس کا ثبوت ہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ گذشتہ روز ایک واقعہ وزیراعلی ہاؤس پرہوا، ضروری ہے عوام کوحقائق بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم نے پریس کلب احتجاج کااعلان کیاتھااور اس حوالے سے انتظامیہ کاان سے رابطہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی ریلی 1.00 بجے شارع فیصل سے روانہ ہوئی اور 4.00 بجے کے قریب وہ میٹرپول پہنچے اس وقت تک انتظامیہ اس ریلی کو سہولیات فراہم کرتی رہی اور وہاں سے ان کوپریس کلب جاناتھا۔ اچانک ریلی کے شرکاء نے پریس کلب کی بجائے وزیر اعلیٰ ہاؤس کا رخ کیا تو اس وقت ڈی سی ساؤتھ اور دیگر پولیس افسران نے وسیم اختراورخالدمقبول کوبتایا کہ پی ایس ایل کے عالمی کھلاڑی سی ایم ہاؤس سے متصل ہوٹلز میں رہائش پذیرہیں اور اسی وجہ سے ان علاقوں کو ہائی سیکیورٹی زون قرار دیا گیا ہے اور آپ وہاں نہ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے اس وقت بھی کہا کہ آپ کااحتجاج ہوگیا آپ پریس کلب چلے جائیں، لیکن ریلی کے شرکاء نے میٹروپول کے مقام پر پولیس کی رکاوٹوں کو عبور کیا اور سی ایم ہاؤس پہنچ گئے۔

سعید غنی نے کہا کہ اب ہمارے پاس کیاراستہ بچ جاتا ہے۔ برابرمیں ہی ٹیم نے نکلنا تھا اور انہیں پریکٹس پر جانا تھا لیکن وہ اس صورتحال میں نہ جاسکے۔ سعید غنی نے کہا کہ جوواقعہ ہوا وہ ناپسندیدہ ہوا۔ہمیں اس کاسیاسی فائدہ نہیں ہواسب ہمیں ہی برابھلاکہہ رہے ہیں لیکن اس صورتحال میں جب خود وفاقی وزیر داخلہ اس بات کا عندیہ دے چکیں ہوں کہ امن وامان کی مجموعی صورتحال ٹھیک نہیں ہے اور جب انٹرنیشنل کھلاڑی پی ایس ایل کے باعث اطراف ہوٹلز میں موجود ہوں اور خدانخواستہ کسی قسم کی کوئی دہشتگردی ہوجاتی تو اس سے اس ملک کا امیج عالمی سطح پر کیا ہوتا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے ان منتشرکیا، جب منتشرکیاجارہاتھا تب ایم پی اے صداقت حسین نے ساتھیوں کے ساتھ مل کرپولیس کوڈنڈے مارے۔ جو خواتین دکھائی گئی ہیں ان کوخاتون پولیس اہلکارگاڑی میں بٹھارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کااحترام ہم سب پرلازم ہے۔ ایم کیوایم قیادت بھی خیال کرتی خواتین کونہیں لیکرآناچاہیئے تھا لیکن ایم کیو ایم کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ایسے مواقع پر خواتین اوربچوں کوڈھال بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے بعد ٹی وی پرایم کیوایم لیڈر نے کہا بچے کی ہلاکت ہوگئی، پھرکہا گیا ایک کی آنکھ ضائع ہوگئی ہیں، پھرکہا گیا ایک ساتھی دوران علاج چل بسا۔

انہوں نے کہا کہ حنیف سورتی کوآنکھ کے قریب زخم آنے کی بات کی گئی پرکسی اسپتال میں ان کاعلاجنہیں ہوا۔ ان کے ترجمان نے بیان دیاجناح اسپتال میں دوران علاج کارکن چل بسے۔ جبکہ اسلم نامی کوئی شخص اسپتال داخل نہیں ہوا۔ کل رات 8.30 بجے اسلم کو کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ دیزیز جو کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے 15 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اس کو وہاں ان کے اہلخانہ لے کر گئے اور بعد ازاں رات 10.30 بجے این آئی سی وی ڈی لایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی۔ سعید غنی نے کہا کہ اگر اسلم سی ایم ہاؤس میں زخمی ہوا تو اے جناح اورسول اسپتال لیجایا جاتا جو قریب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں محمداسلم کے اہلخانہ سے استدعا کرتا ہوں کہ پوسٹ مارٹم کی اجازت دے تاکہ اس واقعے کی صاف اورشفاف تحقیقات ہوتاکہ ہم ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔ انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق اسلم صاحب تشدد سے نہیں ہارٹ اٹیک سے جاں بحق ہوئے۔ سعید غنی نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اپنے سینکڑوں کارکنان گرفتار اور لاپتہ ہونے کا دعوی کیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف آٹھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا جنہیں بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر رہا کردیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کل جو باتیں کی گئی وہ لسانیت کو ہوا دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ٹنڈوالہیار واقعے کے بعد جو جو مطالبات کیے گئے سندھ حکومت نے وہ سب مانے۔ بلدیاتی انتخابات پر جماعت اسلامی، پی ایس پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی مذاکرات جاری ہیں۔ مسائل پر بات کی جاسکتی ہے مگر بندوق کی زور پر بات نہیں کی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ جس قسم کی گفتگو وسیم اختر، آفاق احمد،خالد مقبول اور دیگر کررہے ہیں وہ نا مناسب ہے۔ اس موقع پر وقار مہدی نے کہا کہ پیپلز پارٹی پرامن احتجاج پر یقین رکھتی ہے لیکن کل جو صورتحال ایم کیو ایم کی جانب سے پیدا کی گئی وہ کسی صورت پرامن نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو جمہوری طور پر احتجاج کی سہولیات فراہم کی ہیں اور گذشتہ روز بھی ایم کیو ایم کی شارع فیصل سے آنے والی ریلی کو سہولیات فراہم کی گئی تھی۔ انہوں نے کہاکہ دنیا کو معلوم تھا کہ کراچی میں پی ایس ایل میچز ہونے جارہے ہیں اور اس حوالے سے ٹیمیں جس میں انٹرنیشنل کھلاڑی بھی شامل ہیں وہ ہوٹلوں میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم کی سیاست اب اس شہر اور صوبے میں دفن ہوچکی ہے، وہ ہمیشہ لسانیت کوہوادیکرسیاست کرتے ہیں اب کراچی کے لوگوں نے ان کومسترد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ پرامن رہیں۔ شہریوں کی جان ومال کاتحفظ سندھ حکومت کریگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جماعت اسلامی سے مذاکرات کئے ہیں، پی ایس پی سے بھی بات چیت ہوئی ہے، بلدیاتی بل کے حوالے سے تمام جماعتوں سے مشاورت بھی کی گئی، ناصرحسین شاہ نے سب جماعتوں کوایک ماہ پہلے خطوط بھی لکھے تھے اور اب بھی ہمارے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے، جہاں بلدیاتی بل اسمبلی میں لایا گیا ہے جبکہ دیگر 3 صوبوں میں یہ آرڈیننس کے تحت نافذ کیا گیا ہے۔

علی راشد نے کہا کہ ایم کیو ایم بحثیت جماعت اب ختم ہوچکی ہے۔ ان کو اپنی موت خود نظر آچکی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب ان کے پاس نفرتوں کی سیاست کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز جو کچھ ہوا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پری پلان کیا گیا تھا کیونکہ ایم کیو ایم کو اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ بلدیاتی بل پر جماعت اسلامی نے میدان مار لیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ وزیراعلی سندھ کے لئے جوزبان استعمال کی گئی وہ نامناسب اورنفرت آمیزتھی۔ کل کا واقعہ یہ عالمی میڈیاکی توجہ حاصل کرنے کے لئے کیا گیا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نامعلوم سب کومعلوم ہے، وہ ایم کیوایم کے لوگ تھے۔ گذشتہ رات شہرکے کچھ علاقوں میں بازاربندکرائے گئے لیکن پولیس اوررینجرزنے پندرہ منٹ میں سب کچھ کھلوادیاتھا۔ انہوں نے کہا کہ اب حالات تبدیل ہیں لوگ ان کے کہنے پرکاروباربند نہیں کرتے جنہوں نے ٹائرجلائے وہ بھاگ گئے تلاش جاری ہے۔ پی ایس ایل کے انعقاد کے سوال پر انہوں نے کہا کہ کراچی میں حکومت سندھ کی کاوشوں سے کرکٹ بحال ہوئی ہے۔ کراچی کے لوگ اب منفی سیاست پر یقین نہیں کرتے۔

اہل کراچی پرْامن رہیں حکومت شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔ 30 جنوری کو پی ایس پی اور پیپلز پارٹی دونوں کے احتجاج کے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ہم نے شہر کے امن کی خاطر 30 جنوری کو مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ نہ کرنے کافیصلہ کیا ہے اور پیپلزپارٹی 30 جنوری کے بعد یا پہلے مہنگائی کے خلاف احتجاج کرے گی تاریخ کا اعلان جلد کریں گے۔بلاول ہاؤس کے باہر احتجاج کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کسی پارٹی کے قائدین کے گھروں کے باہر احتجاج کی روایت نہ ڈالیں تو بہتر ہوگا کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے گھر ہوتے ہیں۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں