میلاد النبی ﷺ منانا بدعت نہیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ کی سنّت ہے۔ تحریر: سید عارف معین بلے

حدیث قدسی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ایک چُھپا ہوا خزانہ تھا اور جب اُس نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو اپنی شناخت کرانے کیلئے اُس نے نورِ محمدی ﷺتخلیق کیا۔
نبی رحمتﷺنےارشاد فرمایا
اَولَ مَا خَلَقَ اللہُ نُورِی

سب سے پہلے میرا نور تخلیق کیا گیا۔اور اسی نورِ محمدی ﷺسے زمین،آسمان،لوح،قلم اور عرشِ عظیم کو بنایا گیا۔
ایک اور حدیث مبارکہ ہے اگر اللہ نے آپﷺ کا نور تخلیق نہ کیا ہوتا تو یہ دنیا ہی نہ ہوتی۔
اسی لئے تو نبی پاکﷺ کو وجہِ تخلیقِ کائنات کہا جاتا ہے۔
کچھ صحابہ کرام نے نبی آخرالزماںﷺ سےسوال کیا حضورﷺ آپ کا نور اللہ تعالیٰ نے کب تخلیق فرمایا تو
حضور علیہ الصلوٰۃ ُ و السلام نے فرمایا جب اللہ نے میرا نور تخلیق فرمایا ، اس وقت آدم علیہ السلام کا خمیر بھی نہیں اُٹھا تھا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا اور جب بنایا اس سے سینکڑوں برس پہلے نورِ محمدیﷺ تخلیق کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جب آدم علیہ السلام تخلیق نہیں پائے تھے، ہمارے رسول ِرحمتﷺ اُس وقت بھی زندہ تھے۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی نافرمانی پر کہ شجرِممنوعہ کے قریب نہیں جانا،جب آدم اور حوا نے اس حکم کی خلاف ورزی کی تو ان دونوں کو جنت سے نکال دیا گیا اور ان کی توبہ بھی اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے قبول فرمالی تھی کہ انہوں نے محمدمصطفیٰ ﷺکے وسیلے سے توبہ کرلی تھی۔حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی رفیقہء حیات حوا کو جیون بندھن کامہر بھی100بار رسول کریم ﷺپر درود پڑھنے کی صورت میں ادا کیا تھا۔

آج ہم محفلِ میلادالنبیﷺ منانےکیلئےاکٹھےہوئےہیں۔اس لئےکہ یہی وہ مہینہ ہے جب حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کا ظہورِ پُرنور ہوا تھا۔اسی ماہِ ربیع الاول میں نبی رحمتﷺ اپنی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ سلام اللہ علیھا کے بطنِ مبارک سے ان کی آغوش میں آئے تھے۔
بخشا ہے انسانیت کو دیکھئے رب نے کمال
وہ خزانہ مل گیا،جو ہےیقیناً بےمثال
ایک ہستی میں سمٹ آیا ہے دُنیا کا جمال
مرحبا صل علیٰ اےآمنہ بی بی کے لال
آپ میں یکجا ہیں بے شک سارے نبیوں کی صفات

السلامُ و الصلوٰۃ ُ و السلامُ و الصلوٰۃ
حضور علیہ الصلوٰۃُ و السلام کی ولادتِ باسعادت بھی اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔جتنے دن اور مہینے نبی رحمتﷺ اپنی والدہ ماجدہ کے شکم ِمبارک میں رہے،انہوں نے مائیں بننے والی دوسری عورتوں کی طرح کوئی بوجھ محسوس نہیں کیا۔دردِ زہ میں بھی مبتلا نہیں ہوئیں بلکہ انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ ان کے شکم مبارک سے اتنا نور نکلا ہے کہ شام کے محلات تک روشن ہوگئے ہیں۔حضورﷺ جب دنیا میں تشریف لائے تو فضائیں خوشبو سے مہک اُٹھیں اور کائنات روشنیوں میں نہا گئی۔
اللہ اللہ لائے ہیں تشریف دنیا میں حضور
آمنہ کے جسم سے نکلا بےشک اتنا نور
چھٹ گئی ہے تیرگی ،پھیلا اُجالا دُور دُور
دیدنی ہے وجہِ تخلیقِ دو عالم کا ظہور
ساری دنیا مستفید ہوگی وجودِ پاک سے
گونج اُٹھی ہیں فضائیں بھی درودِ پاک سے
لائے جب اس دنیا میں تشریف فخرکائنات
کیسے کیسے رونما دیکھو ہوئے ہیں واقعات

حضرت عثمان بن ابی العاص کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں ، جب حضور نبی ء کریم ﷺ کی ولادت ہوئی تواُس وقت میں
حرم شریف کے پاس تھی ۔میں نے دیکھا بیت اللہ شریف نور سے روشن ہوگیا اور ستارے زمین کے اِتنے قریب آگئے کہ مجھے ڈر سالگنے لگاکہ کہیں یہ ستارے مجھ پر نہ آگریں۔
نبی ء رحمت ﷺ کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے
ایک جھنڈا مشرق میں،دوسرا مغرب میں اور تیسراجھنڈا بیت اللہ شریف کی چھت پر لہرا رہاتھا۔اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ ُ و السلام کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی۔
وہ نہائے دھوئے بدن کے ساتھ جلوہ گر ہوئے ۔
ایسے کہ ان کے وجود ِ مسعود کو ان کی والدہ ماجدہ کے جسم ِ مبارک سے الگ کرنے کیلئے ناف کوکاٹنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کیونکہ آپ ناف بریدہ تھے۔
جسم ِ اطہر پر کسی قسم کی آلائش کانام و نشان تک نہیں تھا۔
آپ ﷺ مختون بھی تھے ۔

انہیں جیسے ہی دائی اُم ِ عبدالرحمان بن عوف نے ماں کے قریب لٹایا، وہ سجدے میں چلے گئے اور نظراُٹھا کرآسمان کی طرف دیکھا۔ہر طرف روشنیاں جھلملا تی نظر آئِیں ۔
پورا ماحول نور میں نہاگیا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ میلاد النبی ﷺ پر چراغاں کرنایا روشنیوں کااہتمام کرنا اللہ تبارک و تعالی ٰ کی سنت ہے، کوئی بدعت نہیں۔
مشرق و مغرب میں جھنڈے لہرانا بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی سنت ہے،کوئی بدعت نہیں ۔
یہ تو تھے رسول ِ رحمتﷺ کی ولادتِ باسعادت کے وقت اُن کے گھر کےاندر کے مناظر۔
دوسری طرف ملکی اور عالمی سطح پر بھی غیر معمولی واقعات رونما ہوئے۔
فارس کا وہ آتش کدہ یک دَم بجھ کر رہ گیا،جو ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھا۔
ایران کے بادشاہ کسریٰ کے ایوان میں زلزلہ آگیا اور اس محل کے چودہ کِنگرے ٹوٹ کر زمین پر آگرے۔
دریائے ساوہ یکلخت خشک ہوگیا ،

جو حضور علیہ الصلوٰۃ ُو السلام کی ولادت سے پہلے تند و تیز لہروں کے ساتھ بہہ رہا تھا۔
ولادتِ باسعادت سے پہلے مکہ معظمہ اور آس پاس کے علاقوں میں خشک سالی تھی لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ ُو السلام کی ولادت باسعادت کے بعد ہر طرف بہارآگئی۔
ہریالی اور خوشحالی کا دور دورہ نظرآنے لگا۔
شادابی دھرتی کا مقدر بن گئی۔

حرم شریف میں کفار اور بت پرستوں کی طرف سے رکھے ہوئے 360بت اوندھے منہ آکرزمین پر گرپڑے۔
آپ ﷺ کے جد ِ امجد حضرت عبدالمطلب فرماتے ہیں کہ وہ بت جو کعبۃ اللہ کے گردتھے، وہ سب ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اورسب سے بڑابت بھی منہ کے بل گرپڑا۔
فرشتے قطار اندر قطار آسمان سے اُتر تے رہے۔
حوریں میلاد النبی ﷺ کی خوشی میں بی بی آمنہ سلام اللہ علیھاکے گھر پر حاضری دیتی رہیں ۔
زمین و آسمان ہی کیا؟ کائنات کاذرہ ذرہ فرط ِ مسرت سے جھوم اٹھا ۔
ایسا ہونا ہی تھا ۔ اس لئے کہ حضور نبی کریمﷺ کے ساتھ ہی قحط سالی رخصت ہوگئی۔
یہ دنیا ہی نہیں ، تمام عالمین۔ رحمۃ للعالمین ﷺ کے زیرسایہ آگئے۔
فضائیں خوشبووں سے مہک اٹھیں ۔کلیاں چٹکیں ۔ پھول کھل اٹھے ۔اور ماحول رنگوں سے سج گیا
اسی لئے تو اس مہینے کو ربیع الاول کہتے ہیں۔
ربیع کے معنی ہی بہار کے ہیں۔
دھرتی کے سنگھار کے ہیں۔
ہمارے بہت سے مسلمان بھائی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جس طرح ہم میلادالنبی ﷺ مناتے ہیں۔کیا نبی ء رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں بھی عیدمیلادالنبی ﷺ اسی طرح منائی جاتی تھی ؟

یہ سوال اُٹھانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایسے سوال اٹھانے والے حضرات خود یہ نہیں چاہتے کہ نبیء رحمت ﷺ کا میلاد بڑے پیمانے پر منایا جائے۔
درودیوار کو روشنیوں سے جگمگایا جائے۔
فضاءوں کو درودو سلام کے پھولوں کی خوشبو سے مہکایا جائے
ان تمام سوالوں کاجواب دینے سے پہلے میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آج ہم اسی انداز میں زندگی گزار رہے ہیں ، جیسے نبی ء رحمت ﷺ کے دور میں مسلمان زندگی گزارتے رہے ہیں ؟
کیا اُس دور میں گھر ائیرکنڈیشنڈ تھے ؟
کیا ہم طیاروں اور ٹرینوں میں سفر کرتے تھے؟
کیا اُس دور میں جامعہ کراچی اور پنجاب یونیورسٹی جیسی یونیورسٹیوں میں مسلمان تعلیم حاصل کرتے تھے؟
کیا تاج کمپنی کے چَھپے ہوئے قرآن مجید کے نسخے پڑھے جاتے تھے؟
کیا موٹرویز اور ہائی ویز پر لوگ سفر کرتے تھے؟
اگر ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا تو ہم اِسے تو بدعت نہیں کہتے۔ جدید سہولیات استعمال کرتے ہوئے تو ہم یہ نہیں سوچتے کہ
ہم خلاف ِ سنت کوئی کام کررہے ہیں۔
اگر سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے عمل اور طرز ِ عمل کو خلاف ِ سنت اور بدعت کانام نہیں دیتے تو پھر میلاد النبی ﷺ
مناتے ہوئے ایک خاص طبقے کے پیٹوں میں مروڑ کیوں اُٹھنے لگتے ہیں؟
میرا ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ جب ہم انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ عید ِ میلاد النبی ﷺ مناتے ہیں تو
ہماری بزم آرائیوں میں ایسی کون سے بات ہے ، جو خلاف ِ شریعت ہے ۔
کوئی اس کی نشاندہی تو آج تک نہیں کرسکا ۔

میں نے ایک نہیں کئی بار انتہائی تحمل کے ساتھ میلاد النبی ﷺ کی سجنے والی محفلوں پر غورکیا کہ ہم کرتے کیا ہیں؟
۔اور جو جو کچھ کیاجاتا ہے ، اس پر الگ الگ خود سے یہ سوال اٹھا یا کہ ان میں سے کوئی چیز یا بات خلاف ِ شریعت تو نہیں؟
آئیے، آپ کے ساتھ بھی ہم اس کاجائزہ لیتے ہیں ۔
لیکن مناسب ہوگا کہ میلاد النبی ﷺ منانے والوں کیلئے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی بدعت کے مرتکب ہورہے ہیں ، ان پر پہلے یہ واضح کردیا جائےکہ میلاد النبی ﷺ کی محفلیں سجانے کا عمل مسلمانوں نے شروع ہی نہیں کیا۔میلادمنانے کی پہل بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نےکی ہے اور یہ عمل عرش ِ عظیم پر شروع ہواتھا ۔یہ بات آیت ِ قرآنی کی طرح سچی ہے۔ قرآن حکیم کی سورہ ء آل ِ عمران کی 81 اور 82ویں آیت ِکریمہ اس بات کی گواہ ہے کہ عرش ِ عظیم پر میلاد النبی ﷺ کی پہلی محفل اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود سجائی۔جس میں تمام انبیاء و مرسلین کی ارواح شریک ہوئیں۔ اسی آیت میں خاتم النبیین ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کی بشارت دی اور ان سے یہ عہد بھی لیا کہ جب رحمۃ للعالمین ﷺ کاظہور ہوتو آپ سب نے ان پر ایمان لانا ہے اور ان کی نصرت بھی کرنی ہے۔ جب سب ارواح نے یہ حلف لے لیاتو فرمایا کہ آپ سب ایک دوسرے پرگواہ بن جائیں اور میں آپ پر گواہ بنتا ہوں ۔اب آپ یہ 81اور 82 ویں آیت ِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں۔

وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(۸۱)فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۸۲
ترجمہ: اور یاد کریں جب اللہ نے پیغمبروں سےعہد لیا کہ جب میں آپ کو کتاب اورحکمت دوں، پھر تشریف لائیں، آپ کے پاس وہ رسول ﷺ جو اللہ کی طرف سے اتاری گئی کتابوں کی تصدیق فرمائیں توآپ ضرور ضرور ان پر ایمان لائیں اور ضرور ضروران کی مدد کرنی ہے۔ پھر فرمایاکیا آپ نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا۔ سب نےعرض کیا، ہم نے اقرار کیا۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایاکہ اب ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ سب کے ساتھ گواہوں میں ہوں تو جو کوئی اس کے بعد پھرے تو وہی لوگ فاسق ہیں۔
یہ جان لینے کے بعد کہ میلاد النبی ﷺ کاسلسلہ فرش پر نہیں ،عرش پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے شروع کیا اور اس میں تمام انبیاء و مرسلین کی ارواح بھی شریک ہوئیں اور ان سے نبیء رحمت ﷺ پر ان کے دنیا میں تشریف لانے کے بعد یہ عہد بھی لیا گیا کہ جب حضور ِ پُرنور ﷺ دنیا میں آئیں گے تو وہ سب ان ﷺ پر ایمان لائیں گے اور ان ﷺ کی مددبھی کریں گے۔اب آئیے، ہم دیکھتے ہیں کہ میلاد النبی ﷺ کی محفلیں سجا کر ہم کرتے کیا ہیں ،جو بہت سے مسلمانوں پر گراں گزرتا ہے۔ہم جائزہ لیں گے سجائی جانے والی میلاد النبی ﷺ کی محفلوں میں اُن تمام اشغال اور اعمال کا جو ہمارا معمول بناہوا ہے۔تو اب نمبر وار شروع کرتے ہیں ہم اپنی محافل کاجائزہ لینا۔
ہم محفل ِ عید میلاد النبی ﷺ کا آغاز کرتے ہیں قرآن خوانی سے۔
ظاہر ہے کوئی بھی اِسے خلاف شریعت قراردینے کاسوچ بھی نہیں سکتا۔

قرآن خوانی کے بعدہم سب مل کر درود و سلام کانذرانہ بارگاہ ِ رسالت پناہ ﷺ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔
درود پڑھنے کاحکم تو ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دیا ہے۔ بلکہ یہی تواللہ تبارک و تعالیٰ کا وظیفہ ہےاور سورۃ احزاب کی 56ویں آیت سے پتا چلتاہے اللہ اور فرشتے نبیء رحمت ﷺ پر درود بھیجتے ہیں ۔ یہ بتانے کےبعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ تم بھی ان پر درود بھیجو اور تواتر کے ساتھ سلام بھیجو۔
ظاہر ہے کہ درودوسلام بھیجنا اللہ کے حکم کی تعمیل ہے، اس پر کوئی انگلی اٹھابھی کیسے سکتا ہے؟
ہم میلاد کی محفل کوروشنیوں سے جگمگاتے ہیں اور یہ خلافِ شریعت نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب حضور دنیامیں تشریف لائے توکائنات کو روشنیوں سے جگمگادیا تھا۔ گویا میلاد النبی ﷺ پر گھروں ، عمارتوں ، گلی محلوں ، شہروں ،بازاروں اور راستوں کو روشنیوں سے سجانا بدعت نہیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ کی سنت ہے۔
میلاد النبی ﷺ پر نبی ء رحمت ﷺ کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ سلام اللہ علیھا نے تین جھنڈے فضاءوں میں بلند دیکھے تھے۔ایک مشرق میں دوسرا مغرب میں اور تیسرا بیت اللہ شریف کی چھت پر۔ اگر قدرت بھی سبز پرچم لہرارہی ہے تو مسلمانوں کیلئے سبز پرچم لہرانے کوبدعت کیسے قرار دیاجاسکتاہے؟
نبی ء آخرالزماں ﷺ کی ولادت باسعادت کے وقت زمین سے آسمان تک فضائیں خوشبو سے مہک اٹھی تھیں ۔
اس لئے اگر ہم میلاد النبی ﷺ کی محفل سجاتے وقت پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں یا گلدستےنعت خوانوں کے سامنے اسٹیج پر سجاتے ہیں تو کیا یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی سنت کی تجدید نہیں ،؟ کیا یہ وہی عمل نہیں جو رب العزت نے دنیا میں اشرف الانبیاء ﷺ کی تشریف آوری کے وقت کیاتھا؟
ہم میلاد النبی ﷺ مناتے ہوئے نعتوں کے گلاب بارگاہ ِ رسالت پناہ ﷺ میں پیش کرتے ہیں ۔ یہ نبی ء رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف نہیں بلکہ حضور علیہ الصلوۃ وواسلام کی سنت کی تجدید ہے ۔

نبی ء رحمت ﷺ نے بہت بار مسجد ِ نبوی ﷺ میں نعتیہ محفلیں سجائیں ۔ جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی ٰ عنھہ نعتیں پیش کرتے تھے اور حضور نبی ء کریم ﷺ انہیں داد دیاکرتے تھے۔ بہت سے صحابہ ء کرام نے نبی ء رحمت ﷺ کی موجودگی میں نعتیں پیش کرنے کی سعادت سمیٹی۔مسجد ِ نبوی ﷺ میں نعتیں سُن کر ہی رسول ِ رحمت ﷺ نے حسان بن ثابت کو جنت کی بشارت دی اوروہ یہ بھی دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالی ٰ جبریل ِ امین علیہ السلام کے ذریعے حضرت حسان بن ثابت کی مدد فرمائے۔
حضور نبی ء کریم مسجد ِ نبوی ﷺ میں بھی نعتوں کی محفلوں کیلئے حسان بن ثابت کیلئے خود منبر سجواتے تھے ، اور اگر میلاد النبی ﷺ مناتے ہوئے ہم نعتیں سننے اور سنانے کا اہتمام کریں تو اس پر کوئی غیر مسلم ہی سوال اُٹھا سکتا ہے، کوئی مومن تو نعتیہ محفل سجانے پر اعتراض کرنے یا سوال اٹھانے کاسوچ بھی نہیں سکتا۔
نعت کے حوالے سے بات ہورہی ہے تو سنئیے کہ پہلی نعت مولائے کائنات حضرت علی علیہ اسلام کے والد حضرت ابوطالب یا کسی صحابی نے نہیں کہی۔ نعت گوئی کا سلسلہ بھی رب العزت نے شروع کیا تھا۔
مدح ِ رسول ِ ﷺ رحمت ِ عالم ربّ ِ عُلیٰ نے لکھی ہے
سب سے پہلے نعت ِ محمد ﷺ میرے خُدا نے لکھی ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ کاچلن اپناتے ہوئے حضرت آدم علیہ اسلام کے بعد جتنے بھی انبیاء و مرسلین کسی بھی خطے ،قوم یا دور میں تشریف لائے، وہ حضور نبی ء کریم ﷺ کے اوصاف ِ حمیدہ ، محاسن ِ جمیلہ اور اخلاق ِ حسنہ بیان کرتے رہے۔یہ سب اپنے خطے کے لوگوں کو بتاتے رہے کہ سب سے آخر میں خاتم النبیین ﷺ دنیا میں تشریف لائیں گےاور ان کے کردار اور اطوار میں کیا کیا امتیازی خوبیاں ہوں گی۔

میلاد النبی ﷺ کی محفل سجاکر ہم نبی ء رحمت ﷺ کے فضائل ، شمائل اور خصائل بیان کرتے ہیں ۔نبی ء رحمت ﷺ کے کردار، اطوار،اور گفتارکی امتیازی خصوصیات اور صفات بیان کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی ءرحمت ﷺ کو پوری انسانیت کیلئے نمونہ ء کامل اور اسوہء حسنہ قراردیا ہے۔ سیرت النبی ﷺ کے گوشوں کو اجاگر کئے بغیر ہم ان کے نقش ِ قدم پر چل ہی نہیں سکتے۔اگر ایسا ہی ہے اور اگر کیا؟یقیناً ایسا ہی ہے تو کیا سیرت النبی ﷺ کی روشنی پھیلانے کے عمل کو عبادت اور سعادت کے سوا بھی کوئی نام دیا جاسکتا ہے؟۔
دنیا اور خصوصاً خطہ ء عرب میں حضور علیہ الصلواۃ ُ والسلام کی تشریف آوری سے پہلے قحط سالی کادور دورہ تھا۔اور آپ کی آمد کے ساتھ ہی خوش حالی اور ہریالی بھی آگئی۔ زرعی پیدار انتہائی شاندار رہی۔جہاں بھوک اور افلاس تھی ، وہاں رزق کی فراوانی نظر آنےلگی۔اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قحط سے نجات دلاکرگھر گھر دسترخوانوں پر انواع و اقسام کے کھانے سجوادئیے۔اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنے کیلئے ہم ضیافتوں کااہتمام کرتے ہیں ۔لذیذ پکوان تیار کراتے ہیں ۔ لوگوں کو دعوتوں پر بلاتے ہیں اور باہم بیٹھ کر لطف اٹھاتے ہیں ۔کوئی خوشی ہم دسترخوان سجائے بغیر مناہی نہیں سکتے۔بیٹے یا بیٹی کی سالگرہ ہو،کسی کو امتحان میں کامیابی ملے۔ کوئی اگلے گریڈ میں ترقی پالے تو ہم اپنے دوست احباب میں خوشیاں بانٹنے کیلئے دسترخوان سجا کر ضیافتوں کااہتمام ہی تو کرتے ہیں ۔اگر ہم معمولی خوشیوں میں لوگوں کو شریک کرنے کیلئے دل کھول کر دسترخوان سجانے اور طرح طرح کے کھانے بنوانے کااہتمام کرتے ہیں تو میلاد النبی ﷺ کی خوشی میں اگر دسترخوان سجالئے جائیں ۔ چھوٹوں بڑوں ، بچوں بوڑھوں اور جوانوں کوبلالیں اور انہیں بابرکت محفل میں شرکت کے مواقع دیدیں تو اس پر اعتراض کی کیا بات ہے؟۔

کیا دعوتیں دینا، اورضیافتوں کااہتمام کرنا خلاف ِ شریعت ہے؟
کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں روکا ہے کہ کسی کوخوشی میں شریک کرنے کیلئےدسترخوان سجانے کی ضرورت نہیں۔
عیدِمیلاد النبی ﷺ سے بڑا اور خوشیوں والا دن تو کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لئے کہ نبی ء رحمت ﷺ کی صورت میں اللہ تبارک و تعالی ٰ نےنعمت ِ عظمی ٰ سے ہمیں سرفراز فرمایا ہے۔ اپنے محبوب ﷺ کو ہمارے لئے رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا ہے ۔ ایک ایسی ہستی کو جن کے پیچھے تمام انبیاء و مرسلین ہاتھ باندھےمسجد ِ اقصیٰ میں نظرآئے اورحضور نبی ء کریم ﷺ نے ان کی امامت فرمائی۔بلاشبہ نبی ء رحمت ﷺ ہی وہ واحد ہستی ہیں ، جن کے قدمین شریفین کے صدقے میں ہمیں ان گنت نعمتوں ، برکتوں راحتوں اورعافیتوں سے مالامال کیا گیا۔
ذرا سوچئیے کہ قرآن ِ مجسم ﷺدنیا میں تشریف نہ لاتے تو کیا ہمیں قرآن ملتا
کیا عرفان ملتا؟
کیا ہدایت کاسامان ملتا؟

کیا سال بھر میں دو عیدیں ہم مناپاتے؟ کیا شب ِ قدر کی صورت میں ہمیں ایک ہزار سال سے افضل رات ملتی ؟
کیا پوری امت ِ محمدی ﷺ کوتمام نبیوں کی اُمت سے افضل اور اعلیٰ اُمت بننے کاعزاز حاصل ہوتا؟اگر نہیں تو یہ مانئے کہ رسول ِ رحمت ﷺ کی صورت میں ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو نعمت ِ عظمی ٰ عطا فرمائی ہے، وہ ایسی ہے ،جس کی ہمسر کوئی اور نعمتِ خداوندی نہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہے، اس لئے اس نعمت ِ عظمیٰ کے ملنے کی خوشی میں ہمیں دل کھول کر خوشیاں منانی چاہئیں۔ میلاد کی محفلیں سجانی چاہئیں۔ درودو سلام کا نذرانہ ادب و احترام کے ساتھ بارگاہ ِ رسالت پناہ ﷺ میں پیش کرنے کااہتمام بڑے پیمانے پر صبح و شام کرنا چاہئیے۔سیرت النبی ﷺ کی روشنی پھیلانے کا اہتمام کرنا چاہئیے اور کوشش کرنی چاہئیے کہ جس حد تک ممکن ہو ،نبیءکریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ۔ہم سیرت النبی ﷺ کواپنا شعار بناکر ہی اپنے انفرادی، اجتماعی، ملی، ملکی اور عالمی مسائل سے چھٹکارہ پاسکتے ہیں ۔ ایسا ہوتا ہے تو دنیا اور آخرت میں ہمارے لئے کامیابی اور کامرانی کے دروازے کھل سکتے ہیں اور نبی ء رحمت ﷺ کی شفاعت کی راہیں بھی ہمارے لئے روشن اور ہموار ہوسکتی ہیں

میلاد النبی ﷺ منانا بدعت نہیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ کی سنّت ہے۔

close