جو درد کے صحرا میں کبھی باد صبا تھی
اب شہر سے تیرے وہ ہوا بھی نہیں آتی
نیوز کاسٹر، صحافی، شاعرہ اور افسانہ نگار ثریا شہاب
تاریخ وفات:13 ستمبر 2019ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(آغا نیاز مگسی کی وال سے منقول)
سنہ 1945 کو کراچی میں پیدا ہونے والی ثریا شہاب نے ریڈیو ،ٹیلی ویژن کی صحافت، ادب اور شاعری میں عالمی سطح پر شہرت حاصل کی انہوں نے پاکستان، جرمنی، برطانیہ اور ایران سمیت 4 ممالک میں اپنی صحافتی خدمات سر انجام دیں۔ ثریا شہاب نے ریڈیو ایران زاہدان، پاکستان ٹیلی ویژن، بی بی سی لندن اور ریڈیو دوئچے ویلے جرمنی میں براڈ کاسٹنگ کی خدمات سرانجام دیں۔ انھوں نے سب سے پہلے ریڈیو پاکستان کراچی کے ڈراموں میں صداکاری سے اپنا کیریئر شروع کیا جس کے بعد انہوں نے اپنے براڈکاسٹنگ کیریئر کا آغاز ریڈیو تہران کے ایک میگزین پروگرام سے کیا تھا، ان کا یہ پروگرام عوام بالخصوص نوجوانوں میں بہت مقبول تھا۔ نوجوان اس پروگرام کا بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ اس پروگرام کا آغاز کچھ یوں ہوا کرتا تھا، ”آواز کی دنیا کے دوستو یہ ریڈیو ایران، زاہدان ہے“۔ بعدازاں ثریا شہاب نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن میں بطور نیوز ریڈر ملازمت کا آغاز کیا، انہوں نے اس شعبے میں بہت اعلیٰ مقام حاصل کیا اور اپنے عہد کی سلیبریٹی بن گئیں۔
1984 میں ثریا شہاب نے بی بی سی اردو سروس میں شمولیت اختیار کی وہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن سے بی بی سی کی اردو سروس کے لیے منتخب ہونے والی خاتون اینکر تھیں 1985 میں وہ لندن منتقل ہوگئیں ان کے شوہر رضی رضوی بھی اسی سال وائس آف امریکہ کے لیے منتخب ہوئے اور وہ واشنٹگن چلے گئے۔ ثریا شہاب نے شاعری بھی کی ناول اور افسانے بھی لکھے۔ ان کی 5 کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں دو ناول، ایک افسانوی مجموعہ ایک شعری مجموعہ’’ خود سے ایک سوال‘‘ اور ” سفر جاری ہے“” کے نام سے ایک سفرنامہ شامل ہے ۔ ثریا شہاب نے پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اسٹاف حقوق کے لیئے بھرپور جدوجہد کی جبکہ انہوں نے راولپنڈی میں ” پاکستان یوتھ لیگ“” کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی تھی جس کے تحت انھوں نے پانی کے متعدد کنویں کھدوائے اور کئی اسکول تعمیر کرائے ۔ ثریا شہاب 2000 میں بریسٹ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے وہ پاکستان واپس آ گئیں اور اپنے وطن میں علاج اور دفن ہونے کو ترجیح دی۔ وہ 13 ستمبر 2019 کو اسلام آباد میں انتقال کر گئیں اور اسلام آباد میں ہی آسودہ خاک ہوئیں ۔ 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا انھوں نے اپنے پسماندگان میں سوگوار چھوڑے۔
ثریا شہاب صاحبہ کی شاعری سے منتخب کلام قارئین کی نذر۔
ماہیے
۔۔۔۔
اک پیار کی ندی تھی
جس کے کنارے پر
آشائوں کی بستی تھی
پھر بدلیں نہ تقدیریں
پڑ گئیں ہاتھوں میں
حالات کی زنجیریں
جب چاند نکل آیا
دھان کے کھیتوں میں
سونا سا پگھل آیا
اک قوس قزح سی تھی
بالی عمریا تھی
اور پینگ تھی جھولے کی
خوابوں کا زمانہ تھا
تتلی پکڑنا تو
بس ایک بہانہ تھا
غزل
۔۔۔۔
اب دل کے دھڑکنے کی صدا بھی نہیں آتی
در بند ہیں ایسے کہ ہوا بھی نہیں آتی
حیراں ہوں دو سہمے ہوئے ہاتھ اٹھائے
کیا مانگوں خدا سے کہ دعا بھی نہیں آتی
پر ہول ہے اس طرح سے سناٹے کا عالم
خود اپنی ہی چیخوں کی صدا بھی نہیں آتی
جو درد کے صحرا میں کبھی باد صبا تھی
اب شہر سے تیرے وہ ہوا بھی نہیں آتی
جس بات پہ ہم تیاگ چکے ہیں تری دنیا
وہ بات انھیں یاد ذرا بھی نہیں آتی
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں