نیلہ بٹ اور تحریک آزادی جموں و کشمیر تحریر: مہر النساء

مسلم کانفرنس کو ریاست جموں وکشمیر کے اندر سواد اعظم جماعت کا اعزاز حاصل ہے ۔ یہ ریاست کی پہلی سیاسی جماعت تھی جو1932میں پتھر مسجد سیرینگر میں قائم ہوئی اور اس کے بانیوں میں شیخ عبداللہ ، چوہدری غلام عباس، میر واعظ، مولانامحمد یوسف شاہ سمیت دیگر سرکردہ شخصیات شامل تھیں ،مسلم کانفرنس کا بنیادی منشور مسلمانان جموں کشمیر کے حقوق کا تحفظ ٗ ملازمتوں میں حصہ ٗ اور آبادی کے تناسب سے حکومت میں باوقار انداز سے شمولیت تھی ٗ مسلم کانفرنس کی کاوشوں سے ریاست کے اندر 1934میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے جو آگے چل کر ریاست کے اندر سیاسی شعور کو پختہ کرنے کا باعث بنے ٗ

مسلم کانفرنس نے اپنے قیام سے ہی ریاست کے اندر شخصی راج کے خلاف جدوجہد کو اپنا محور و مرکز پنائے رکھا ،تمام تر سازشوں کے باوجود مسلم کانفرنس نے مارچ 1947میں متحدہ ریاست جموں کشمیر کے آخری عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی تقسیم بر صغیر کے اعلان کے ساتھ ہی ریاست کے اندر اندرونی خلفشار نے سر اٹھانا شروع کر دیا،جبکہ ریاست میں 1946سے ہی کشمیر چھوڑ دو تحریک بھی چل رہی تھی تا ہم مسلم کانفرنس اس ایسی کسی بھی تحریک کا حصہ نہیں بنی ٗ تقسیم بر صغیر کے اعلان سے 20روز قبل مسلم کانفرنس نے ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے فیصلہ کیا تا ہم مہا راجہ ہری سنگھ نے ریاست کا پاکستان سے الحاق کرنے کے بجائے ہندوستان کی طرف جھکائو رکھا جس پر ریاست کی اکثریتی آبادی کے اندر شدید رد عمل پیدا ہوا 23 اگست 1947کو پونچھ کی تحصیل باغ کے ایک گائوں نیلہ بٹ میں مقامی عمائدین کا نمائندہ اجتماع منعقد ہوا جس میں گرد و نواح کے لوگوں کی بڑی تعدا د نے شرکت کی اس اجتماع میں نوجوان مقرر سردار عبدالقیوم خان نے انتہائی جذباتی تقریر کی اور مہاراجہ کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا

جس پر انہوں نے مجاہد اول کا خطاب دیا گیا ،اپنی تقریر میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کریں گے اور مہاراجہ نے اگر عوام کی رائے کے خلاف کوئی فیصلہ کیا تو بذور قوت ریاست کی آزادی کی جنگ لڑی جائے گی ان کے اس اعلان کے بعد ریاست بھر میں ڈوگرہ فوج کے خلاف عوام ہھتیار بند ہو کر نکل آئے مجاہد اول نے اپنے چیدہ چیدہ ساتھیوں کے ساتھ متعدد مرتبہ دریائے جہلم عبور کرتے ہوئے گولہ ،بارود سمیت دیگر ضروریات فراہم کی اور مجاہدین دستوں کی قیادت کرتے ہوئے ڈوگرہ فوج پر حملہ آور ہوئے ،23اگست کے اس اجتماع کے بعد پونچھ ڈویژن کے اندر عوام اور ڈوگرہ فوج کے درمیان مسلح جھڑ پیں ہونے لگیں جن میں کئی ایک مجاہدین شہید اور زخمی ہوئے اور دشمن کو مار بگایا،نیلہ بٹ کے تاریخی مقام پر گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان و آزاد کشمیر سمیت دنیا بھر کی مقتدر شخصیات اس اجتماع میں شرکت کر چکی ہیں جن میں سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق ، امام کعبہ ،سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ٗ پیر پگارہ ٗ سمیت کئی وفاقی وزراء پاکستان کے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ گورنر ،فوجی و سول آفیسران شامل ہیںجو اس مقام ،تاریخ اور جدوجہد کی اہمیت کے گوا ہ ہیں ،نیلہ بٹ سے شروع ہونے والی تحریک آج بھی شد و مد سے جاری ہے ، جب تک ریاست جموں کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت نہیں مل جاتا س وقت تک ہماری یہ جدوجہد جاری و ساری رہے گی ،جذبہ ایمانی کے ساتھ بے سر و سامانی کے عالم اور شوق شہادت سے سرشار مجاہد ین نے اپنے سے کئی گناہ منظم مادی وسائل جدید جنگی سامان سے لیس فوج کا مقابلہ دیسی طرز کی بنی ہوئی چھرے دار بندوقوں ٗ لاٹھیوں ،کلہاڑیوں ،برچھیوں اور ڈنڈوں سے کر کے ریاست کا 32ہزار مربع میل کا رقبہ آزاد کروایا جہاں 24اکتوبر 1947کو آزاد کشمیر کی انقلابی حکومت قائم کی گئی ،نیلہ بٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس مقام پر کھڑے ہو کر پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے پاکستان کی ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا تھا ،تحریک حریت میں جہاں سرینگر کو مرکز کی حثیت حاص ہے وہاں نیلہ بٹ کا مقام بھی تحریک حریت میں ایک اپنا مقام رکھتا ہے ،بلا شبہ مسلم کانفرنس کے اکابرین کا یہ اقدام ریاست کی وحدت ٗ سالمیت تشخص ،اور شناخت کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ٗنیلہ بٹ سے شروع ہونے والی تحریک منزل مقصود تک ضرور پہنچے گی اور کشمیری شہدا کا خون ضرور رنگ لائے گا۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں