اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) مطلب اس کا یہ ہے جب کسی کی اصل اچھی نا ہو تو اس پر ہر طرح کی تربیت بے اثر رہتی ہے۔ آئیے آپ کو ان عالم دین و نفسیات کی باتیں اس سلسلے میں بتاتے ہیں۔ (1)ایک بادشاہ نے اپنا ایک بیٹا کسی ادیب (تہذیب و سلیقہ سکھانے والا) کے حوالے کیا اور کہا کہ یہ تیرا بیٹاہے اس کی تربیت اسی طرح کر جس طرح اپنے کسی بیٹے کی کرتا ہے۔نامور سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے شائع ایک کالم کے مطابق ادیب آداب بجا لایا اور یہ مشورہ قبول کرلیا۔ اس نے چند سال اس کی تربیت کی کوشش کی لیکن کوئی بات نہ بنی، اس شہزادے نے کوئی اثر قبول نہ کیا،
جبکہ ادیب کے بیٹے فضل و بلاغت میں انتہا کو پہنچ گئے۔ بادشاہ نے ادیب کی جواب طلبی کی اور اس پر عتاب کیا کہ تو نے وعدہ خلافی کی ہے اور وفا سے روگردانی کی ہے۔ ادیب بولا اے عالم پناہ! یہ بات چھپی نہ رہے کہ تربیت تو سب کی یکساں ہوتی ہے لیکن طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں (ہر کوئی اپنی اپنی طبیعت کے مطابق اثر لیتا ہے)۔ترجمہ اشعار:اگرچہ سیم و زر پتھر ہی سے نکلتے ہیں لیکن تمام پتھروں میں سیم و زر نہیں ہوتے ستارہ سہیل تمام دنیا پر چمکتا ہے لیکن وہ انبان کی جگہ ادیم کو جگہ دیتا ہے۔ (استعارے میں ادیب کی بات ہے)(2)میں نے ایک مربی پیر کے بارے میں سنا کہ وہ اپنے ایک مرید سے کہہ رہا تھا کہ اے بیٹے! جس قدر آدمی زاد کا تعلق خاطر (دلی تعلق) ظاہر ہے یا خدا سے ہے اگر وہ اظہار دن میں دس مرتبہ ہو (خدا سے بہت تعلق خاطر ہو تو انسان) فرشتوں سے بھی آگے نکل جائے (اسے بڑا بلند مقام حاصل ہو)ترجمہ اشعار:خدا تعالی نے اس حالت میں بھی کہ تو (ماں کے پیٹ میں) ایک نطفہ اور مدہوش تھا تجھے فراموش نہیں کیا اس نے تجھے روح طبع اور عقل و ادراک سے نوازا، نیز حسن و جمال ، زبان رائے و فکر اور دانائی (فہم و فراست) تجھے عطا کی، اس نے تیری ہتھیلی پر دس انگلیاں ترتیب دیں اور تیرے کندھوں پر دو بازو ترکیب دیئے بنائے اے ناچیزِ ہمت! کیا تو سمجھتا ہے کہ وہ اب تجھے کسی روز فراموش کردے گا؟ (خدا تعالی اپنے بندوں کو کبھی فراموش نہیں کرتا اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اس خالق کی طرف توجہ کرتا رہے)(3)حکما (دانائوں) کی کتابوں میں یہ بات (یاحقیقت) تحریر شدہ ہے کہ بچھو کی پیدائش مقرر نہیں ہے، جس طرح دوسرے حیوانوں کی ہوتی ہے (ویسی بچھو کی نہیں ہوتی)۔ وہ (بچھو) اپنی ماں کی آنتیں کھاتے اور اس (ماں) کا پیٹ پھاڑ دیتے اور پھر صحرا کو نکل جاتے ہیں۔ اور بچھو کے دڑبے میں جو چھلکے نظر آتے ہیں وہ اسی کا اثر ہیں۔ ایک مرتبہ میں یہی گہری بات ایک بزرگ سے کہہ رہا تھا۔ (میری بات سن کر) وہ بولا میرا دل اس بات کی سچائی پر گواہی دیتا ہے، اور اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا (اس لئے کہ بچے) اپنی بچپن کی حالت میں اپنے ماں باپ سے ایسا ہی سلوک کرتے ہیں، بلاشبہ یا ضروری طور پر جوانی یا بڑی عمر میں وہ ایسے مقبول و محبوب بن جاتے ہیں۔ ترجمہ اشعار:ایک باپ نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ اے جوان بخت (خوش بخت) یہ نصیحت یاد رکھ کہ، جو کوئی اپنے اہل خانہ (گھر والوں) سے وفا نہیں کرتا وہ (کبھی) دوست رو (عزیز) اور دولت مند نہیں ہوتا (یا نہیں ہوسکتا)۔بچھو سے کسی نے پوچھا کہ تو سردیوں میں اپنے ٹھکانے سے باہر کیوں نہیں آیا؟ اس نے کہا کہ موسم گرما میں میری کون سی عزت و قدر ہوتی ہے جو میں سردیوں میں بھی باہر آجائوں۔(4)ایک درویش فقیرنی حاملہ تھی۔ مدتِ حمل ختم ہوگئی ۔
اس درویش کو ساری عمر بیٹا نہیں ملا تھا (بیوی نے بیٹا نہیں جنا تھا) اب اس کا کہنا تھا کہ اگر خدائے بزرگ و برتر مجھے بیٹا عنایت فرمائے تو میں، سوائے گدڑی کے جو میں نے پہن رکھی ہے، جو کچھ بھی میری ملکیت میں ہے وہ میں درویشوں پر نثار کردوں گا۔ اتفاق سے اس کی بیوی نے بیٹا جنا۔ درویش نے اپنی شرط (یا عہد) کے مطابق درویشوں کا دسترخوان بچھا دیا۔ (اپنی اوقات کے مطابق ان کی دعوت کردی) چند سال بعد میں جب ملک شام کے سفر سے واپس آیا اور اس کے دوست کے محلے سے میرا گزر ہوا تو وہاں میں نے اہل محلہ سے اس کے حال احوال کا پوچھا۔
مجھے بتایا گیا کہ وہ (درویش) کوتوال کی قید میں ہے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو کسی نے بتایا کہ اس کے بیٹے نے (جو اب بالغ ہوچکا تھا) پی رکھی تھی، دنگا فساد کررہا تھا۔ اس نے کسی کو زندگی سے محروم کردیا اور پھر کہیں بھاگ گیا۔ اسی بنا پر اس کے باپ کے گلے میں طوق اور اس کے پائوں پر بھاری بیڑی ہے۔ میں نے کہا کہ اس (درویش) نے اس بلا (مصیبت) کی خواہش للہ سے کی تھی۔ترجمہ اشعار:اے صاحب عقل و ہوش! اگر حاملہ عورتیں ولادت (جننے) کے موقع پر سانپ جنیں تو ایک عقلمند کے نزدیک نامعقول بیٹے جننے سے یہ کہیں زیادہ بہتر ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں