اسلام آباد(پی این آئی)عامر چیمہ 4دسمبر 1977 کی صبح اپنے ننھیال حافظ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے آپ کا نام عامر جبکہ والد نے عبد الرحمٰن تجویزکیا۔ چنانچہ دونوں ناموں کو ملا کرعامرعبدالرحمٰن رکھ دیا گیا۔ لیکن مختصر نام عامر مشہور ہوا۔ عامر چیمہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ان کی تین بہنیں ہیں ۔ آپ نے 1993ء میں جامع ہائی سکول ڈھوک کشمیریاں راولپنڈی سے میٹرک کیا۔ 1996 ء میں ایف جی سر سید کالج مال روڈ راوالپنڈی سے ایف ایس سی کی۔ نیشنل کالج آف انجینرٔنگ فیصل آباد سے بی ایس سی ٹیکسٹائل انجینرٔنگ کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصہ یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہورمیں لیکچرار رہے۔رائے ونڈ کی ایک ٹیکسٹائل مل اور الکریم ٹیکسٹائل ملز کراچی میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ نومبر 2004ء میں جرمنی روانہ ہوئے اور جرمنی کے شہر مونس گلاڈباخ میں واقع اوخشو لے فیڈر یا ئن یوینورسٹی میں ماسٹر آف ٹیکسٹائل اینڈ کلوزنگ منیجمنٹ میں داخلہ لے لیا۔ آپ نے کامیابی کے ساتھ تین سمسٹرز مکمل کر لیے تھے۔ اب ان کا آخری سمسٹر چل رہا تھااور جولائی 2006 ء میں تعلیم مکمل کر کے واپس لوٹنا تھا مذہبی اور تاریخی کتب مطالعہ ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔جب وہ یورپ کے توبہ شکن اور کافر اداماحول میں گئے۔ تو تب بھی اپنے دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا اور نہ ہی اپنی کردار پر کوئی حرف آنے دیا۔30 ستمبر 2005ء کو ڈنمارک کے اخبار جیلنز پوسٹن نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں 12 نہایت توہین آمیز اور نازیبا کارٹون شائع کیے۔ پھر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے ایک منظم سازش کے تحت جنوری 2006ء میں 22 ممالک کے 75 اخبارات و رسائل نے ان کارٹونوں کو دوبارہ شائع کیا۔ رسول اللہ ﷺ کی توہین ہو اور مسلمان خاموش رہیں یہ ہو ہی نہیں سکتا ،یہ در اصل محبت ،عشق ادب اور احترام کی نرالی ہی دنیا ہے ،کوئی انوکھا ہی رنگ ہے ۔ غیر مسلم ، مغرب والے ،یہودی ،عیسائی اور ہندو سمجھ ہی نہیں سکتے ۔ عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ محبت رسول اللہﷺ کے اسی انوکھے رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔ ان کارٹونوں کی اشاعت سے مشتعل ہو کر جرمنی میں مقیم اس پاکستانی طالب علم عامر عبدالرحمن چیمہ نے متعلقہ اخبار کے چیف ایڈیٹر ہینرک بروڈر پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والی مختلف رپورٹوں کے مطابق اپنے پیارے نبی ﷺ کی توہیننے انہیں سخت بے قرار اور بے چین کر دیا تھا۔ ان کی یہ بے قراری اور بے چینی عامر چیمہ کو اس رسوائے زمانہ اخبارکے مرکزی دفتر میں لے گئی ۔ وہ تیز قدموں سے اخبار کے گستاخ رسول ایڈیٹر کے کمرے کی طرف بڑھے ۔عامر چیمہ دوڑتے ہوئے ایڈیٹر کے کمرے میں گھس گئے اور اپنے کپڑوں میں چھپا یا ہوا خاص قسم کا شکاری خنجر نکال کر اس پر پے در پے وار کر کے اسے شدید زخمی کر دیا ۔اتنے میں دفتر کا عملہ اور سیکورٹی گارڈز جمع ہو گئے اور انہوں نے عامر چیمہ کو پکڑ لیا ۔ عامر چیمہ نے مزید وار کر نے کے لئے اپنے آپ کو ان لوگوں کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بہت سے لوگ تھے اس لئے عامر چیمہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے ۔جرمن پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ غازی عامر عبدالرحمن چیمہ کے چیف ایڈیٹر ہینرک بروڈر پر قاتلانہ حملہ کے نتیجہ میں وہ نہایت عبرتناک حالت میں جہنم واصل ہو گیا۔ غازی عامر عبدالرحمن چیمہ گرفتار ہوئے۔ جرمن پولیس اور مختلف حکومتی ایجنسیوں نے برلن جیل میں 44 دن تک عامر چیمہ کو ذہنی و جسمانی اذیتیں دے کر تشدد کیا۔ ؎ایک موقع پرتفتیشی افسر نے عامر چیمہ کو مشروط طور پر رہا کرنے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرمن ٹیلی ویژن پر آ کر اعلان کرے کہ وہ ذہنی مریض ہے، دماغی طور پر تندرست نہیں ہے اور اس نے یہ قدم محض جذبات میں آ کر اٹھایا ہے۔ مزید براں یہ کہ اس فعل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور میں اپنے کیے پر بے حد شرمندہ اور نادم ہوں۔ شہید غازی عامر چیمہ نے نہایت تحمل سے تفتیشی آفیسر کی تمام باتیں سنیں اور پھر اچانک شیر کی طرح دھاڑا اور اس آفیسر کے منہ پر تھوک دیا اور روتے ہوئے کہا۔ میں نے جو کچھ کیا ہے، وہ نہایت سوچ سمجھ کر اور اپنے ضمیر کے فیصلے کے مطابق کیا ہے۔ مجھے اپنے فعل پر بے حد فخر ہے۔ یہ میری ساری زندگی کی کمائی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے ایک تو کیا، ہزاروں جانیں بھی قربان۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اگر کسی بدبخت نے میرے آقا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کوئی توہین کی تو میں اسے بھی کیفر کردار تک پہنچائوں گا۔ بحیثیت مسلمان یہ میرا فرض ہےاور میں اس فریضہ کی ادائیگی کرتا رہوں گا۔ غازی عامر چیمہ کی اس بے باک اور بے خوف جسارت کے بعد جیل حکام آپے سے باہر ہو گئے۔ اور انھوں نے عامر چیمہ پر بہیمانہ تشدد کی انتہا کر دی، اس کے پیچھے سے ہاتھ باندھے گئے۔ پلاس کے ساتھ اس کے ناخن کھینچے گئے۔ پائوں کے تلوئوں پر بید مارے گئے، گرم استری سے اس کا جسم داغا گیا، جسم کے نازک حصوں پر بے تحاشا ٹھڈے مارے گئے، ڈرل مشین کے ذریعے اس کے گھٹنوں میں سوراخ کیے گئے۔ غازی عامر چیمہ نہایت اذیت کی حالت میں اللہ اکبر کے نعرے لگاتا رہا۔ اسی دوران میں اس کی سانسیں اکھڑ گئیں اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ پھر ان بدبختوں نے اس کی شہ رگ کاٹ دی۔ مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا۔ صلہ شہید کیا ہے؟ تب و تابِ جاودانہ۔ غازی عامر چیمہ کی شہادت 3 مئی 2006ء۔ کو ہوئی۔ شہید کا جسد خاکی 10 دن کی تاخیر کے بعد 13 مئی 2006ء کو صبح 9 بجے پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے لاہور لایا گیا۔ بعدازاں شہید کے آبائی گائوں ساروکی (وزیرآباد) میں تدفین ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق جنازے میں 5 لاکھ سے زائد لوگ شریک ہو ئے تھے ۔ کہا جاتا ہے غازی عامر عبدالرحمن چیمہ کا جنازہ لوگوں کی انگلیوں پر تھا کیونکہ لوگ اس جنازہ کو کندھا دینے کے لئے بہت بے تاب تھے۔ اور قافلے در قافلے اس جنازہ میں شرکت کے لئے آرہے تھے حالانکہ ان کا اس میت سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں