کیا عمران خان بھٹو کی راہ پر گامزن ہیں، تیسری دنیا کے لیڈروں کا امریکہ کے ساتھ ٹکر کا انجام کیا ہوا؟

اعظم سواتی اور شہباز گل پر مبینہ تشدد کی باز گشت عالمی انسانی حقوق پر امریکی انتظامیہ کی سالانہ رپورٹ میں بھی سنی گئی ہے۔۔۔۔ پاکستان کے حوالے سے امریکی انتظامیہ نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ پاکستان میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رہیں، انسانی حقوق کے نمائندے ادریس خٹک کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی گئی اور سابق وزیر اعظم کے قریبی ساتھیوں نے ٹارچر کا دعویٰ کیا۔۔۔۔یہ معمولی جملہ نہیں ہے۔۔۔

امریکی انتظامیہ کی انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں اتنا ذکر بھی کافی سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔

عمران خان دعویدار تھے کہ ان کی حکومت کا خاتمہ امریکہ کی مدد اور خواہش کے مطابق کیا گیا ہے۔۔۔ جس کسی نے بھی انہیں یہ مشورہ دیا ۔۔۔ وہ کوئی بہت کی جہاندیدہ شخص تھا۔۔۔ جو پاکستانیوں کی نفسیات سے واقف تھا۔۔۔ امریکی گرین کارڈ کی خواہش رکھنے والے کروڑوں پاکستانیوں کو جب بھی کوئی خرابی اپنے ملک میں نظر آتی ہے تو وہ اسے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر ۔۔۔ اور بقول وزیر اعظم شہباز شریف۔۔۔ کوئی دقیقہ فروگذاشت کیے بغیر۔۔۔ اسے امریکہ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ چورن اس میں سب سے زیادہ بکتا ہے۔۔۔ امریکی اسلحہ سے جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کرنے والی قوم۔۔۔ امریکی گندم امداد کے طور پر وصول کرنے والی قوم۔۔۔ ڈالر وصول کرنے ہمسایہ ملک میں سالہا سال تک اپنے بیٹو ں کا جوان خون بہانے و الی پاکستانی قوم کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگانے میں دیر نہیں کرتی۔۔۔ وقت نے ثابت کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو امریکی سازش کا شکار ہوئے۔۔۔

لیکن ان کا جرم بہت بڑا تھا۔۔۔ عربوں کا تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کا آئیڈیا دینا کوئی چھوٹا جرم تھا۔۔۔ تیسری دنیا کا نعرہ لگانا کوئی چھوٹا جرم تھا۔۔۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے پروگرام کی بنیاد رکھنا ناقابل معافی جرم تھا۔۔۔ بھٹو کو عبرت کی مثال بنانے کی دہمکی آن ریکارڈ دی گئی تھی۔۔۔ اس کے دور کے سب لیڈر ایسے کی انجام کا شکار ہوئے۔۔۔سعودی عرب کے شاہ فیصل پہلا شکارتھے۔۔۔لیبیا کے کرنل قذافی۔۔۔ عراق کے صدام حسین۔۔۔ سب عبرتناک انجام کا شکار کیے گئے۔۔۔۔یاسر عرفات بچ گئے کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ کیا کرنا چاہیے اس لیے وہ ان کی راہ پر چل پڑے۔۔۔جنرل ضیاء الحق جب تک ان کی پالیسی پر گامزن رہے ۔۔۔۔ تب تک ستارہ عروج پر تھا۔۔۔ لیکن جب ٹریک بدلا تو سی ون تھرٹی گر ا دیا گیا۔۔۔۔ مصر کے محمد مرسی نے ان کی لائن اختیار نہ کی توتختہ الٹے جانے کے بعد جیل میں سڑتے رہے۔۔۔۔اب کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے Absolutely NOT بولا تو ان کے برداشت نہیں کیا گیا۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ ایسی فرمائش ہی کب کی گئی جس کے جواب میں یہ کہا جاتا ۔۔۔۔ اور اگر اس سارے کا کریڈٹ لینا مقصود ہی ہے تو پھر۔۔۔۔ امریکی پارلیمنٹ کے ارکان سے علیحدگی میں ملاقات کی درخواست کیوں کی گئی۔۔۔ جس میں اپنی پارٹی کے امریکہ سے آنے والے ساتھیوں کو بھی الگ کر دیا گیا۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زلمے خلیل زاد کو بولنے پر کس نے مجبور کیا؟ کچھ بھی ہو جائے معاملات امریکہ میں بھی اسٹیبلشمنٹ ہی چلاتی ہے۔۔۔ اور یہی پتے کی بات ہے۔۔۔ جو سمجھ سکتے ہوں ۔۔ وہ سمجھ جائیں۔۔۔

close