سابق وزیر اعظم نے تنخواہ دار طبقے کے حق میں دبنگ بیان جاری کر دیا

راولپنڈی(پی این آئی)سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس کٹ جاتا ہے جبکہ ٹیکس نیٹ سے باہر موجود لوگ موجیں کر رہے ہیں۔اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا ہم نے تعمیر پاکستان تو کی لیکن تکمیل پاکستان میں پیچھے رہ گئے، ہمارے لئے روز نئے نئے چیلنج پیدا ہو رہے ہیں۔سینیٹر انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا ہمارا مسئلہ یہ ہے ہمارا ایکسپوژر کم ہو گیا ہے، قومیں جتنا کماتی ہیں اتنا ہی خرچ کرتی ہیں، ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح معیشت کا تعین کرتی ہیں، ہمارے ہاں ہمیشہ رونا رویا جاتا ہے کہ تعلیم پر 2 فیصد خرچ ہوتا ہے،

میرا یہ سوال ہے آپ حکومت کو کتنا کما کر دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا ہماری 80 فیصد معیشت بغیر دستاویز کے ہے جبکہ مغرب میں جوس کی خریدی جانے والی بوتل بھی ڈاکومینٹڈ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس تو کٹ جاتا ہے لیکن ٹیکس نیٹ سے باہر لوگ موجیں کررہے ہیں، ہمارے ہاں ریٹیلر اور زراعت ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں، ہم لائیو اسٹاک پر ٹیکس نہیں لگاتے، ٹیکس لگانا اور جمع کرنا ریاست کا حق ہے، معیشت کے سائیکل کوچلانے کیلئے ٹیکس جمع کرنا ضروری ہے، ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی 10 فیصد سے کم ہے۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا پاکستان کی معیشت کو ریونیو جنریشن کا بڑا چیلنج درپیش ہے، 70سال میں ایف بی آر میں اصلاحات کا کوئی خیال نہیں آیا، اپنے دور حکومت میں ایف بی آر میں اصلاحات لائے۔

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا مجھ پر الزام لگا کہ میں نے گندم چرائی، اگر گندم چوری کا الزام مجھ پر ثابت ہوا تو میں حاضر ہوں، بنائیں جوڈیشل کمیشن اور فیصلہ کریں، ایف بی آر میں ریکارڈ موجودہے، 7 سے 8 کمپنیوں نے گندم درآمد کی، ان کمپنیوں کا فارنزک کرا لیں ثابت ہو جائے گا۔انہوں نے کہا مجھ پر یہ الزام ہے کہ ریاستی اداروں کی وجہ سے مجھ پر ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا، کیوں حکومت یا کوئی پرائیویٹ ایجنسی تحقیقات نہیں کرا رہی۔سینیڑ انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پر سب متفق ہیں لیکن ہمارے رویے درست ہوں گے تو ہماری ترجیحات بھی درست ہوں گی، ہمارے ہاں مسائل ہیں لیکن ہمارے پاس وسائل بھی بے شمار ہیں، ہماری یونیورسٹیوں سے پڑھے نوجوان امریکا اور دیگر ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں، دنیا بدلنے کیلئے سب سے پہلے ہمیں خود کو بدلنا ہے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں