بلاول بھٹو یا مریم نواز، سیاسی جماعتیں کن عہدوں، وزارتوں کی منتظر؟

کراچی(پی این آئی)بلاول بھٹو یا مریم نواز، سیاسی جماعتیں کن عہدوں، وزارتوں کی منتظر؟ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یہ تو چند روز میں واضح ہوگا، اس وقت جتنے منہ اتنی باتیں ہیں تاہم سیاست ایک اہم صورت اس وقت اختیار کرسکتی ہے جب دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما ملکی قیادت اپنی نئی نسل کو سونپ دیں۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے حامی امیدواروں کی تعداد اس وقت سب سے زیادہ ہے اور ان ہی کو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے حکومت بنانی چاہیے مگر سیاست کتابی باتوں سےنہیں زمینی حقائق کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ آزاد کی حیثیت سے لڑنا مجبوری سہی مگرآزاد کوپارٹی مانے گا کون؟نتیجہ واضح ہے کہ مسلم لیگ ن کی کارکردگی کتنی ہی خراب سہی، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اب بھی ن لیگ ہی ہے اور کامیاب انتخابی مہم چلانے والے بلاول بھٹو نے پیپلزپارٹی کو دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طورپر ابھارا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہم ترین سوال یہ ہےکہ وزیراعظم کون بنے گااورکیوں؟ عام صورتحال ہوتی تو شاید یہ بالکل واضح تھا کہ میاں نوازشریف ہی وزیراعظم ہوتے اور بلاول بھٹو ایک بار پھر وزیرخارجہ بنتے، کچھ اوراہم وزارتیں بھی پیپلزپارٹی کو مل جاتیں،وفاق میں چند وزارتیں ایم کیوایم اور جے یوآئی ایف کو دے کر کام چلالیا جاتا۔اب صورتحال مختلف ہے۔ وجہ یہ ہےکہ پیپلزپارٹی جو کنگ میکر کے طورپر ابھری ہےاس کی پوری انتخابی مہم نوازشریف کے خلاف رہی تھی۔ ن لیگ اگر نوازشریف ہی کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کرتی ہے تو بلاول بھٹو کے لیے ان کا وزیر بننا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔بلاول بھٹو سیاسی ایڈجسٹمنٹ پر تیار ہوکرلاکھ کہیں کہ یہ نوازشریف وہ نوازشریف نہیں رہے، اب ان کی پالیسیاں مختلف ہوں گی مگر اس کی اہمیت نہیں ہوگی۔یہ سوشل میڈیا کا دورہے۔ لمحوں میں میمز کاطوفان آجائےگا جو پیپلزپارٹی کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچائےگا،انتخابی مہم میں کی گئی ساری محنت اکارت جائےگی۔کہتے ہیں ساکھ برسوں میں بنائی جاتی ہے اورمٹنے میں ایک لمحہ لگتا ہے۔

شاید اسی لیے پیپلزپارٹی کے کئی سرکردہ رہنما بلاول بھٹو کو یہ تجویز پیش کررہے ہیں کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیں، جارحانہ اور مؤثر اپوزیشن کرکے پیپلزپارٹی کی ساکھ مزید بہتر بنائیں تاکہ پی ٹی آئی کوکمزور کیا جاسکے اور اگلے الیکشن میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن کے قریب پہنچا جائے۔یہ رہنما شاید بھول گئے ہیں کہ سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا۔سیاست کا مطلب اقتدار بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواربھی اب ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کی تگ ودو میں ہیں۔ پہلا قطرہ گرچکا ہے، اب انتظار ہے کہ کب بوندا باندی اورپھربارش شروع ہوجائےگی۔آزاد جانتےہیں کہ حکومت جانے کے بعد سے پی ٹی آئی کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ ان میں سے کتنے ہیں جو ممکنہ طورپر اگلے پانچ سال یہ سلوک بھگتنے کو تیار ہوں گے؟ایسے میں جو الیکشن کی معروضیت پرسوال اٹھارہےہیں۔ان کے دلائل بھی نظراندازنہیں کیے جاسکتے۔ آخر ایسا کیوں ہوا کہ ایم کیو ایم جس کی انتخابی مہم بھی بھرپور طورپر نہ چلی ہو، اسے سترہ نشستیں مل گئی ہوں، کراچی کا میدان مارلیا ہو اور پی ٹی آئی کے حامیوں کا صفایا ہوگیا ہو۔مثل مشہور ہے کہ مارتے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے، کہتے کا منہ نہیں پکڑا جاتا۔الیکشن نتائج پر اعتراض توہوں گے کیوں کہ الیکشن سے پہلے جو کچھ کیا جارہا تھا،اسی سے واضح تھا کہ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟اب پیپلزپارٹی پانچ سال اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتی ہے تو کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔اس عرصے میں کتنے ہی ہوں گے جنہیں ضرورت آگئی ہوگی اور وہ کسی نہ کسی کے ہو لیے ہوں گے۔ آخر الیکشن اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تونہیں، وزارت یا عہدہ لینے ہی کی خاطرلڑا جاتا ہے۔یہ بھی کہ اگلے الیکشن سے پہلے کیا ماحول بنایا گیا ہوگا اور وہ نتائج پر کس طرح اثرانداز ہوگا؟اس مخمصہ کا آسان حل یہ ہوسکتا ہے کہ میاں نوازشریف قائدانہ کردار اداکرتے ہوئے اور بے نظیر بھٹو سے تاریخی میثاق جمہورت کا پاس رکھتے ہوئے بلاول بھٹو کو وزیراعظم نامزد کردیں۔

یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا موقع ہوگا جو شاید سنہری حروف میں لکھا جائےگا۔ساتھ ہی آصف زرداری کو چاہیے کہ وہ میاں نوازشریف کے اس غیرمعمولی اقدام کا لحاظ کرتے ہوئے مرکز میں اہم ترین وزارتیں ن لیگ کو سونپیں تاکہ میاں شہباز شریف کو بھی ان کی محنت کا پھل مل سکے۔ساتھ ہی مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی تجویز پیش کریں۔ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ نصف مدت کے لیے ن لیگ اوربقیہ مدت کیلیے پیپلزپارٹی لے لے۔ اس صورت میں اگر بلاول بھٹو پہلے وزیراعظم بنتےہیں تو دوسری مدت کیلیے نوازشریف وزیراعظم بن سکتے ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی معاہدے کے تحت اس پرعمل کی پابند ہوگی۔ان پہلے ڈھائی برسوں میں مریم نوازکو وزیراعلی پنجاب بناکر انکے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر میاں نوازشریف نہ صرف صوبے بلکہ ملک میں اپنی پارٹی کی ساکھ کو پوری طرح مضبوط کرسکیں گے، اگر وہ چاہیں تو نصف مدت کے بعد خود وزیراعظم بنیں۔ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ نوازشریف کی طرح اب آصف زرداری آگے بڑھیں اور مریم نواز کو بقیہ مدت کیلیے وزیراعظم نامزد کردیں۔اس صورت میں میاں نوازشریف یا شہبازشریف صدر کے عہدے پر بھی فائز ہوسکتےہیں یا اس پر بھی ایک مدت تک رہنے کا سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے۔آصف زرداری کی دوراندیشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے ہ پیچھے ہٹ کر بلاول بھٹو کو جگہ دے چکے ہیں۔ ن لیگ کا مطلب ہی نوازشریف ہے، انکے لیے انتخابی مہم کےدوران پیچھے ہٹنا مناسب نہیں تھا، شاید سیاسی بساط پرمریم نواز کوآگے بڑھانے کا یہی وقت ہے۔ویسے بھی مریم کوئی بھی فیصلہ نوازشریف کی مرضی کے مطابق ہی کریں گی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close