لاہور(پی این آئی) سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے دعویٰ کیاہے کہ افواہیں چل رہی ہیں معیشت میں بہتری کے بعد فروری الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے کیونکہ یہ سوچا جا رہاہے کہ اگر فروری میں الیکشن ہو گیا تو معاشی بہتری میں ایک وقفہ آ سکتا ہے ، یہ بھی کہا جارہاہے کہ ابھی تحریک انصاف کے سیاسی ابھار کا مکمل تدار ک نہیں ہو سکا ہے ۔
اپنے کالم میں سہیل وڑائچ کا کہناتھا کہ کہا جا رہا ہے کہ انتخابات فروری سے اگست ستمبر تک لے جائے جا سکتے ہیں۔ انتخابات کی تاخیر کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا تو دو رکاوٹیں سامنے آسکتی ہیں پہلی عدالتی اور دوسری سیاسی۔ سننے میں آیا ہے کہ ابھی تک عدالتی رکاوٹ برقرار ہے اور اس سے ڈیل کرنے کی کوشش جاری ہے، سیاسی رکاوٹ کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں کو اس تاخیر پر اعتراض نہیں ہوگا۔ سہیل وڑائچ نے لکھا کہ یہاں تک تو افواہ تھی، اب اس افواہ کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔ اگر واقعی انتخابات ملتوی ہوئے تو جمہوری عناصر کو شدید مایوسی ہوگی، فاضل جج صاحبان پہلے ہی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ نوے دن سے زیادہ تاخیر کی گئی۔ انہوں نے 8 فروری کو بھی طوعاً وکرہاً قبول کیا ہے وہ مزید تاخیر کیسے قبول کر سکیں گے؟۔
معاشی بحران سے نکلنے اور خلیجی ممالک سے اربوں ڈالر ملنے کی خبریں بڑی خوش آئند ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ معاشی بحران، سیاسی بحران سے جڑا ہوا ہے اگر ہم معاشی بحران سے نکل گئے اور سیاسی بحران بدستور رہا تو ملک عدم استحکام کا شکار ہی رہے گا۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی خوشحالی کا راز یہ ہے کہ عوامی حمایت سے دیرپا معاشی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں دیریا اور دور رس معاشی چارٹر پر متفق ہوں تاکہ اگر کوئی سیاسی بحران آ بھی جائے تو اس سے معیشت متاثر نہ ہو۔نون ہو یا پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ہو یا پی ڈی ایم کی دوسری جماعتیں، انہیں اپنے سیاسی مفادات کے ساتھ ساتھ اپنے مخالف کھلاڑی خان کے مستقبل کے بارے میں بھی فیصلہ کرنا ہوگا۔ ان کا یہ کہنا کہ یہ مقتدرہ اور کھلاڑی کی آپس کی لڑائی ہے، درست موقف نہیں ہے کیونکہ کھلاڑی خان کےساتھ عام لوگ بھی ہیں، ایک بڑی جماعت بھی ہے۔
اس کے مستقبل پر سب کو رائے دینی چاہئے۔دوسری طرف تحریک انصاف کو بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان میں صرف مقبولیت کافی نہیں قبولیت بھی ضروری ہوتی ہے، اس لئے وہ فوری طور پر انتخابات کے لئے اپنی پالیسی وضع کرے اپنےصلح پسندلیڈروں کو آگے کرے تاکہ وہ مقتدرہ اور دوسری سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرکے کھلاڑی خان اور تحریک انصاف کے لئے راستہ کھولیں۔ تحریک انصاف کو سیاسی جماعت بن کر سیاست کرنا ہوگی وہ اب طاقت میں نہیں ہے، اسے اس بات کا ادراک کرنا ہوگا اور اپنی سیاست اور پارٹی کو بچانے کے لئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ اسے کچھ نہ کچھ قبولیت تو حاصل ہو جائے ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں