اسلام آباد (پی این آئی ) اور اب جنرل (ر) فیض حمید کی باری ہے ، جنرل فیض کوئی کام کرتے وقت کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور عمران خان پر ان کی عنایتوں کا یہ عالم تھا کہ زلفی بخاری کا نام ای سی ایل میں ہونے کے باوجود انہیں سعودی عرب جانے دیا گیا۔
پہلا پتھر اسی زلفی بخاری نے پھینکا ہے اور آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نےاپنے بلاگ میں اہم انکشاف کر دیا ۔اپنے بلاگ میں سلیم صافی نےلکھا کہ 2014 میں عمران خان نے نظریاتی اختلاف کو ذاتی اختلاف میں بدل دیا ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے میری اور میری مرحوم والدہ کی کردار کشی کروائی۔ اور یوں نہ صرف ہماری بات چیت بند ہو گئی بلکہ تعلقات میں تلخی بھی آ گئی۔ گزشتہ9 سال میں کئی لوگ مثلاً پرویز خٹک، جہانگیر ترین، عون چودھری، نعیم الحق، ریحام خان، جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل فیض حمید اور کئی دیگر لوگ کوشش کرتے رہے کہ میری اور عمران خان کی صلح کروا دیں لیکن میں کسی ایک کے کہنے پر بھی ان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہ ہوا۔باقی حضرات تو ایک دو مرتبہ کوشش کر کے باز آ جاتے لیکن جہانگیر ترین صاحب اس حوالے سے بڑے مستقل مزاج واقع ہوئے۔ وہ آخری دم تک مجھے اور عمران خان کو ساتھ بٹھانے کیلئے کوشاں رہے۔
آخری کوشش انہوں نے تب کی جب زلفی بخاری، اعظم خان وغیرہ بشریٰ بی بی کو استعمال کر کے خود ان کی پی ٹی آئی سے چھٹی کروانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ان دنوں انہوں نے اپنے گھر مجھے چائے پر بلایا۔ اس وقت کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ جہانگیر ترین مہذب انداز میں مجھے عمران خان کے ساتھ بٹھانےکیلئے دلائل دے رہے تھے اور میں معذرت کرتا رہا۔ ایک موقع پر میرے منہ سے نکل گیا کہ ترین صاحب! میری عمران خان کے ساتھ صلح چھوڑیں آپ اپنی فکر کریں۔کیونکہ میرے نزدیک صرف 3 محسن رہ گئے ہیں اور مجھے انتظار ہے کہ کس وقت عمران خان ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے اب ایسا لگتا ہے کہ اُن کی اپنی باری آنے والی ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ مجھ سے ملنے سے قبل بھی عمران خان سے ملے ہیں اور ایسے کوئی آثار نہیں کہ انہیں عمران خان سے جدا کرنے کیلئے دشمنوں کی سازشیں کامیاب ہوں۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ وقت ثابت کرے گا کہ کس کا اندازہ درست اور کس کا غلط ہے لیکن میں بہ ہر حال 3 بندوں کی باری کا انتظار کروں گا۔
جہانگیر ترین نے پوچھا کہ صافی بھائی! میرے علاوہ 2کون ہیں تو میں نے بلا توقف جواب دیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید۔ انہوں نے کہا کہ وہ دونوں کیوں؟ تو میں نے جواب دیا کہ وہ دونوں اس لئے کہ انہوں نے بھی نہ صرف عمران خان پر احسان کر کے انہیں وزیر اعظم بنوایا ہے بلکہ ان کی خاطر اپنے ادارے اور کسی حد تک ملک کو بھی داؤ پر لگایا ہے۔اپنے بلاگ میں سلیم صافی نے مزید لکھا کہ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ہماری اس گفتگو کے صرف چند ہفتے بعد وہی جہانگیر ترین مجھے اپنے اسی گھر میں وہ خفیہ کیمرے دکھا رہے تھے جو اسی عمران خان نے ان کی اور ان کی اہلیہ کی نگرانی کیلئے ان کے گھر میں اور اس سے متصل گھروں میں لگا رکھے تھے۔ جہانگیر ترین کے بعد عمران خان کے دوسرے محسن جنرل قمر جاوید باجوہ کی باری تب آئی جب جنرل باجوہ نے ماضی کی طرح غیر قانونی سرپرستی چھوڑ دی اور نتیجتاً ان کی حکومت عدم اعتماد سے گر گئی۔
جنرل باجوہ جیسے محسن کا جو حشر عمران خان نے کیا وہ تو سب کے سامنے ہے لیکن ایک جنرل فیض حمید بچے ہوئے تھے تاہم عمران خان کے ساتھ ہر طرح کی گڑبڑ میں شریک زلفی بخاری کے جنرل فیض کے خلاف انٹرویو سے لگتا ہے کہ اب اس تیسرے محسن کی باری بھی آ گئی ہے۔بلاگ کے آخر میں سلیم صافی نےلکھا کہ اس وقت لوگ الزام لگارہے ہیں کہ نواز شریف کو لانے کیلئے نواز شریف کے حق میں پولیٹکل مینجمنٹ ہو رہی ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عمران خان کے حق میں اور نواز شریف وغیرہ کے خلاف فوج نے یہ پولیٹکل مینجمنٹ 2011ءسے شروع کی تھی۔ 2018ءکے انتخابات سے قبل نواز شریف وغیرہ کو جیلوں میں ڈال کر اور میڈیا، عدالتوں، نیب وغیرہ کو استعمال کر کے پی ٹی آئی میں الیکٹیبلز کو شامل کروایا گیا۔ جنرل فیض کوئی کام کرتے وقت کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور عمران خان پر ان کی عنایتوں کا یہ عالم تھا کہ حکومت سے قبل جب وہ جہانگیر ترین کے جہاز میں سعودی عرب جا رہے تھے تو زلفی بخاری کا نام ان کے مشکوک ماضی کی وجہ سے ایگزٹ کنٹرل لسٹ میں شامل تھا لیکن زلفی کے ساتھ عمران خان کی قربت اور عمران خان پر جنرل فیض کی مہربانی کا یہ عالم تھا کہ ان کا نام ای سی ایل میں ہونے کے باوجود انہیں سعودی عرب جانے دیا گیا۔
عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والوں میں زلفی بخاری شامل تھے بلکہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ تک پیغام رسانی کیلئے ان کے اسرائیل کے سب سے بڑے حامی داماد جیریڈ کروشنر کے ساتھ رابطہ کار بھی تھے۔ آج جنرل فیض کے خلاف پہلا پتھر اسی زلفی بخاری نے پھینکا ہے اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں