لاہور(پی این آئی) سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججزجو صورتحال پیدا کررہے اس سے مسائل بڑھیں گے، ججز میں اختلافات ہیں تو پبلک کرنے کی کیا ضرورت؟ بنچ میں نہیں بیٹھنا تو جج کو چیمبر میں ہی بتا دینا چاہیئے۔
انہوں نےکہا کہ اس وقت جو سپریم کورٹ کے ججز کررہے ہیں وہ انتہائی غیرمتوقع ہے، ججز بڑا نشانہ لے کر جب اس طرح کی صورتحال پیدا کریں گے، ایک جج کہتا میں بنچ میں نہیں بیٹھ سکتا، لیکن وہ بنچ میں بیٹھنے کیلئے عدالت میں آتا ہے تو وہاں آکر کہتا نہیں بیٹھتا، بنچ میں نہیں بیٹھنا ہوتا تو جج کو چیمبر میں ہی جواب دے دینا چاہیے۔قاضی فائز عیسیٰ ایک دن پہلے 184تھری سے متعلق ایک آرڈر دیتے ہیں، قاضی فائز عیسیٰ کا آرڈر کسی جج کوکیس کی سماعت روکنے کیلئے پابند نہیں کرتا۔مثال کے طور پر قاضی فائز عیسیٰ کا آرڈر کہ کوئی 184تھری سے متعلق پٹیشن نہیں سنے گا، جب کہ میرے پاس اگر کیسز لگے ہوں تو مجھے بتایا جائے گا کہ قاضی فائز عیسیٰ کا آرڈر ہے تو میں کہوں گا کہ قاضی صاحب میرے کوئی سپیریئر نہیں ہیں، کیونکہ جتنے وہ جج اتنے ہی دوسرے بھی جج ہیں۔عدالت میں اب جو کینہ پروری آگئی ہے، اب تو اختلافات کو اجاگر کیا جارہا ہے، چیف جسٹس کو چاہیئے کہ جو ججز حق میں ہیں ان کو بٹھا کر فیصلہ دیں، ان کے کہنے پر کیوں فل کورٹ بٹھائی جائے۔ ججز کا اعتراض کرنا کھل کر اختلافات سامنے آگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف نظریہ ضرورت اور ایک طرف آئین ہے، یہ ججز جو کہتے ہیں آپ اکتوبر تک لے جاؤ ، اب لائن کھینچ دی گئی کہ الیکشن آگے جائیں، جبکہ آئین کہتا کہ 90روز میں الیکشن ہوں۔
یہ وہی عمر عطا بندیال ہیں جو عمران خان کی حکومت کے خلاف رات کو عدالت میں چلے گئے تھے، وہ تو ٹھیک تھا ، اب ٹھیک نہیں ہورہا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کے تحت ہورہا ہے۔ اس وقت کچھ لوگ الیکشن سے فرار ضروری سمجھتے ہیں بجائے آئین بچانے کے، یہ حالات مارشل لاء کی طرف ہی لے کر جانا چاہتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں