لاہور(پی این آئی)جہانگیر ترین اور علیم خان کی زیر قیادت جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 40 سے زائد منحرف اراکین نئی سیاسی جماعت بنانے یا پیپلزپارٹی میں شمولیت جیسے آپشنز پر غور کررہے ہیں۔
یہ پیش رفت مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس واضح پیغام کے بعد سامنے آئی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو پارٹی ٹکٹ دینے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک اور سابق رہنما چوہدری سرور بھی ہیں جو پی ٹی آئی کے دور حکومت میں گورنر پنجاب رہ چکے ہیں، ان کے تعلقات مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دونوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور یہ بھی اپنا مستقبل پیپلز پارٹی یا ترین گروپ میں سے کسی ایک کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ علیم خان سمیت پی ٹی آئی کے کم از کم 25 ارکان صوبائی اسمبلی نے گزشتہ برس پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کی تھی اور وزار اعلیٰ کے لیے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا، بعدازاں عدالتی حکم کے تحت یہ ارکان اسمبلی نااہل قرار پائے تھے۔
مسلم لیگ (ن) نے ان کی اِس ’قربانی‘ کے عوض انہیں گزشتہ برس جولائی میں ضمنی انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ دیا تھا، تاہم ان میں سے تقریباً تمام امیدواروں کو پی ٹی آئی سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کے عہدے سے برطرفی کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔ اسی طرح ترین گروپ میں شامل پی ٹی آئی کے کچھ منحرف اراکین قومی اسمبلی نے مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحاد سے ہاتھ ملا لیا تھا، موجودہ اپوزیشن لیڈر راجا ریاض ان ہی میں سے ایک ہیں، خیال کیا جارہا ہے کہ وہ بھی اپنے سیاسی مستقبل کے لیے آپشنز تلاش کر رہے ہیں۔ یہ اقدام پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے مستقبل کے بارے میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی جانب سے حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کی رائے کے اظہار کے بعد سامنے آیا ہے۔
انہوں نے جولائی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اپنی شکست کا ذمہ دار پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ٹھہرایا تھا اور واضح کیا تھا کیا کہ اگلے عام انتخابات میں ان لوگوں کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا، مسلم لیگ (ن) حلقوں کے کارکنوں کی خواہشات کی بنیاد پر امیدواروں کو ترجیح دے گی۔ پی ٹی آئی کے ایک منحرف رکن اسمبلی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سرد مہری کے اظہار کے بعد گروپ کے اندر یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ انہیں اپنی علیحدہ پارٹی بنانی چاہیے یا دیگر آپشنز پر غور کرنا چاہیے‘۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پہلے ہی الزام عائد کر چکے ہیں کہ الیکٹیبلز کی مدد سے اسٹیبلشمنٹ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو لانے کے لیے پولیٹکل انجینیئرنگ کررہی ہے۔ یاد رہے کہ ایک دہائی قبل سابق وفاقی وزیر جہانگیر خان ترین نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر ’ایماندار سیاست دانوں‘ کی ایک علیحدہ جماعت بنانے کا تصور پیش کیا تھا۔
چیف کوآرڈینیٹر پیپلزپارٹی (جنوبی پنجاب) عبدالقادر شاہین نے بتایا کہ ’چوہدری سرور نے حال ہی میں مخدوم احمد محمود اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی ہے جہاں انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح جہانگیر ترین بھی رابطے میں ہیں اور جلد ہی جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز کا ایک گروپ (جو کہ پہلے پی ٹی آئی سے وابستہ تھا) پیپلزپارٹی میں شامل ہو جائے گا‘۔ عبدالقادر شاہین نے کہا کہ ’اگرچہ ایک نئی پارٹی کی تشکیل بھی زیر بحث آپشنز میں شامل ہے لیکن اس کے امکانات بہت کم ہیں، بالآخر اُن کی منزل پیپلزپارٹی ہی ہو گی‘۔ چوہدری سرور کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ’سابق گورنر پنجاب پیپزپارٹی میں شامل ہونے یا نئی سیاسی جماعت بنانے سمیت تمام دستیاب آپشنز پر غور کر رہے ہیں‘۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں