موبائل فون مہنگے ہونے پر غریدہ فاروقی وفاقی حکومت پر پھٹ پڑیں

اسلام آباد(پی این آئی)وفاقی حکومت نے مالی سال 22-2021 ءکےلئے 8 ہزار 487 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کردیا ہے،بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کا شدید احتجاج جاری ہے جبکہ معروف تجزیہ کار اور اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے کہا ہے کہ آئی ٹی میں انقلاب لانے اور نوجوان طبقےکی خودساختہ دعوی دار اور ترجمان حکومت ہر سال موبائل فون مزید سے مزید مہنگےکر کےنوجوان طبقے کیلئے انٹرنیٹ تک رسائی اور آئی ٹی انقلاب کیسے لائے گی؟۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن جاری ہے ، وفاقی حکومت نے8 ہزار 487 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کردیا ہے، بجٹ میں وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 900 ارب روپے، دفاع کیلئے 1373 ارب ، سود کی ادائیگیوں کیلئے 3 ہزار 60 ارب، تنخواہوں اور پنشن کیلئے 160 ارب، صوبوں کو این ایف سی کے تحت ایک ہزار186 ارب، صحت کیلئے 30 ارب اور ہائیرایجوکیشن کیلئے 44 ارب روپے مختص کیے ہیں۔بجٹ میں امن عامہ کیلئے 178 ارب، ماحولیاتی تحفظ کیلئے 43 کروڑروپے، صحت کیلئے 28 ارب، تفریح ،ثقافت اور مذہبی امورکیلئے 10 ارب مختص کیے ہیں۔دوسری طرف معروف صحافی اور اینکر پرسن غریدہ فاروقی کا مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ واضح طور پر شوکت ترین بجٹ تقریر پڑھتے پڑھتے تھک گئے ہیں،آغاز بہت جوش جذبے اور اونچی اونچی آواز میں تیز تیز پڑھنے سے کیا تھا اور اب آواز میں سستی آ گئی ہے۔انہوں نےکہا کہ باہر سےموبائل فون منگوانا اب مزید مہنگا! ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ، نوجوان طبقےکی خودساختہ دعوےدار ترجمان حکومت اور آئی ٹی میں انقلاب لانےکی دعوےدار حکومت ہر سال موبائل فون مزید سے مزید مہنگےکر کےنوجوان طبقے کیلئے انٹرنیٹ تک رسائی اور آئی ٹی انقلاب کیسے لائے گی؟۔اس سے قبل وزیر خزانہ شوکت ترین کا اپنی بجٹ تقریر میں کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ہم معیشت کےبیڑے کو کئی طوفانوں سےنکال کرساحل تک لےآئےہیں،مشکلات تو درپیش ہیں مگر معیشت کو مستحکم بنیاد فراہم کردی گئی ہے،ہم نے ان مشکل حالات کا مقابلہ کیا اور کامیابی کی طرف گامزن ہیں، یہ کامیابی وزیراعظم کی مثالی قیادت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کون سے حالات ورثے میں ملے؟یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بہت زیادہ قرضوں کی وجہ سے ہمیں دیوالیہ پن کی صورتحال کا سامنا تھا،ہمیں ورثے میں 20 ارب ڈالر کا کرنٹ ڈالر کا تاریخی خسارہ ملا،25ارب ڈالرکی درآمدات تھیں،اس عرصےکےدوران برآمدات میں منفی 0.4 فیصد جبکہ درآمدات کا اضافہ 100 فیصد اضافہ ہوا تھا،شرح سود کو مصںوعی طور پر کم رکھا گیا تھا اور تمام قرضے سٹیٹ بینک سے لیےگئےجس کی وجہ سے مالیاتی حجم میں شدید عدم توازن پیدا ہوا، سٹیٹ بینک سے قرضوں کا حجم 70 کھرب روپے کی خطرناک سطح تک پہنچ گیا،بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6 فیصد تھا جو گزشتہ 5 سالوں میں سب سے زیادہ تھا، بیرونی زرِمبادلہ کے ذخائر بڑی حد تک قرضے لے کر بڑھائے گئے تھے جو جون 2013ء میں 6 ارب ڈالر تھے اور 2016ء کے آخر میں بڑھتے ہوئے 20 ارب ڈالر ہوگئے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری 2 سالوں میں بڑی تیزی سے کم ہوکر صرف 10 ارب ڈالر رہ گئے تھے، اس دور میں بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا، مسلم لیگ ن کے آخری دو سال میں جون 2018ء تک 10 ملین ڈالر رہ گئے اس دور میں بیرونی قرضے میں اضافہ ہوا، یہ تباہی کی داستان ہے جس کے بعد معیشت کی بحالی کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوگئی۔

close