اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی میں اسلام آباد میں بچوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت اور سود کی بنیاد پر کاروباری سرگرمیوں کی ممانعت کا بل منظور کرلیا گیا۔ منگل کو اجلاس کے دور ان اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے تمام اراکین اسمبلی کو ہدایت دی کہ ایوان میں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے رولز کی خلاف
ورزی ہو۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ممبر اپنی نشست سے اٹھ کر دوسرے کی نشستوں پر نہ جائے اور سب قواعد وضوابط کا خیال رکھیں۔ایوان میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے حمایت یافتہ رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے شمالی وزیر ستان میں 4 خواتین سماجی کارکنوں کے قتل کا معاملہ اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں سماجی کارکنوں کو شہید کردیا اور اس معاملہ پر ایوان میں بات تک نہیں کی گئی جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا سے معاملے پر رپورٹ طلب کر لی۔اسد قیصر نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ ایک ہفتے میں واقعہ سے متعلق تمام تفصیلات رپورٹ کی صورت میں جمع کرائیں۔بعدازاں اپوزیشن اراکین اسمبلی نے مہنگائی کے خلاف نعرے لگانا شروع کردئیے اور اجلاس میں پلے کارڈز لے آئے اور اسپیکر ڈائس کے سامنے احتجاج کیا۔علاوہ ازیں حکومتی ارکان نے کراچی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا۔بعدازاں اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس کی کارروائی 10 منٹ ک لیے روک دی۔خیال رہے کہ حلیم عادل شیخ کو صوبائی اسمبلی کے حلقے 88 ملیر میں ضمنی انتخاب کے موقع پر کشیدگی پھیلانے، فائرنگ، اقدام قتل اور دہشت گردی کے الزامات پر گرفتار کیا گیا تھا۔اجلاس کی کارروائی دوبارہ
شروع ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ عنایت اللہ خٹک نے اسلام آباد میں دودھ کی پیداوار اور مارکیٹنگ ریگولیٹ کرنے کا بل پیش کیا۔انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد میں گوالے دودھ ڈبوں میں ڈال کر گھر گھر فروخت کر تے ہیں۔نفیسہ خٹک کے مطابق فروخت ہونے والے دودھ میں صفائی اور معیار کا خیال نہیں رکھا جا رہا اور وہ مضر صحت ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاق میں موجود گوالوں کو ریگولیٹ کر کے باقاعدہ ٹریننگ دی جائے۔رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ دکانوں پر غیر معیاری دودھ فروخت ہو رہا ہے۔بعدازاں مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے اسلام آباد میں بچوں کو جسمانی سزا دینے کے خلاف احکام وضع کرنے کا بل پیش کیا جس پر پاکستان تحریک انصاف کی انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ حکومت بل کی ایک شق میں ترمیم چاہتی ہے۔جس پر حکومتی ترمیم کو بل کا حصہ بنا لیا گیا اور قومی اسمبلی نے بل کی شق وار منظوری دے دی جس کا اطلاق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حد تک ہو گا۔بل کے متن میں کہا گیا کہ سرکاری و غیر سرکاری، کام کرنے کی جگہ، تعلیمی اداروں، مدارس، ٹیوشن سینٹرز میں بچوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت ہو گی۔اس میں کہا گیا کہ بچے کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی میں جسمانی تشدد شامل نہیں ہو گا اور مرتکب افراد کو نوکری سے فارغ
کرنے کی انتہائی سزا دی جا سکتی ہے۔بل کے متن کے مطابق بچوں پر تشدد کی صورت میں جبری ریٹائرمنٹ، تنزلی، تنخواہ میں کٹوتی کی سزا بھی دی جا سکے گی اور جسمانی تشدد کے خلاف شکایات کے لیے وفاقی حکومت طریقہ کار وضع کرے گی۔مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے آئین میں عمر بلوغت درج کرنے کا آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ مختلف قوانین میں بچوں کی عمر بلوغت مختلف ہے۔بعدازاں حکومت کی جانب سے مخالفت نہ ہونے پر بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کی جانب سے تعلیمی اداروں کے طالب علموں کو عربی زبان کی لازمی تعلیم دینے کے احکام وضع کرنے کے بل کی تحریک ایوان میں پیش کی گئی۔حکومت کی تجویز پر بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔علاوہ ازیں رکن قومی اسمبلی ثنا اللہ مستی خیل نے سود کی بنیاد پر کاروبار، نجی رقوم کا لین دین ایڈوانسز اور ترسیلات کی سرگرمیوں کی ممانعت کا بل پیش کیا۔قومی اسمبلی نے مذکورہ بل منظور کرلیا گیا۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں