اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈیپوٹیشن پر آئے اساتذہ کو واپس صوبوں کو بھیجنے سے روک دیا، خواتین اساتذہ نے خوشی سے رونا شروع کر دیا

اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈیپوٹیشن پر آئے اساتذہ کو واپس صوبوں کو بھیجنے سے روک دیاجس کے بعد بڑی تعداد آئی خواتین اساتذہ کمرہ عدالت میں خوشی سے نہال ، خوشی سے رونا شروع کردیا ۔ تفصیلات کے مطابق استاتذہ کو واپس صوبوں میں بھیجنے کا وفاقی نظامات تعلیمات کا فیصلہ معطل کر دیا گیا

،آرڈر معطلی کے بعد استاتذہ کے پاس اسکول جانے کا راستہ کھل گیا،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گیارہ دسمبر 2020 کا فیصلہ معطل کیا۔ عدالت نے کہاکہ بادی النظر میں وفاقی نظامت تعلیمات کا حکمنامہ برقرار نہیں رہ سکتا، عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈی جی وفاقی نظام تعلیمات نو مارچ کو طلب کرلیا اور کہاکہ وفاقی نظام تعلیمات بتائیں کہ ایسا حکمنامہ کیوں جاری کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ڈیڈ لاک پالیسی کے مطابق ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے اساتذہ کل سے اسکول جاسکیں گے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ڈائریکٹر لیگل وفاقی نظامت تعلیمات کو قانون کا کوئی علم نہیں، ڈائیرکٹر لیگل اس عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں، اس طرح کے یکطرفہ فیصلوں سے ااساتذہ ڈی چوک بیٹھنے ہر مجبور ہوئے ۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈی جی ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی آکر وضاحت کرے کہ 2006 یا اسے پہلے سے کام کرنے والی اساتذہ کو کیوں دربدر کیا جارہا ہے۔۔۔۔ حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے کیا ضروری ہے؟ ن لیگی رہنما نے بڑا دعویٰ کر دیا لاہور(پی این آئی) پاکستان مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے ضروری، طاقتور حلقے حکومتی پشت پناہی نہ کریں، اگر طاقتور حلقے حکومت کی پشت پر کھڑے رہے تو مسلم لیگ ق اور ایم کیوایم تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دیں گے، یہ

ہماری خام خیالی ہوگی۔انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک اس صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے جب پاکستان کے طاقتور حلقے نیوٹرل ہوں، چند ہماری سیاسی جماعتیں جو کہ کچھ اشاروں پر جگہ بدلتی ہیں، وہ بھی نیوٹرل ہوجائیں اور آزادی سے فیصلے کرسکیں۔لیکن ہمارا 2018ء میں نظام چلایا گیا، یہ نظام اسی طرح رہا اور طاقتور حلقوں کی اس حکومت کی پشت پر حمایت رہے گی تو یہ توقع رکھنا کہ ایم کیوایم یا ق لیگ اپنی وفاداری تبدیل کرلیں گے اور تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے دیں گے تو خام خیالی ہوگی۔عدم اعتماد نمبرزکے ذریعے آتی ہے، اس لیے پورے نظام میں ہمارا مئوقف اور بیانیہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے پیروں پر نہیں بیساکھیوں پر کھڑی ہے، اگر یہ پیچھے ہٹ جائیں پی ٹی آئی کی حکومت 15 دن بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے یوسف رضا گیلانی کا معاملہ الگ ہے، مخصوص حالات ہیں کہ کچھ ایسے ٹیکنوکریٹس ہیں جن کی یہاں جگہ نہیں ہے، پی ٹی آئی کے اپنے بھی ارکان ان کو ووٹ نہیں دینا چاہتے ، اس لیے اس کو اس طرح نہیں دیکھنا چاہیے کہ ان وک طاقتور حلقوں کی مدد سے جتوایا جائے گا۔دوسری جانب سینیٹ الیکشن میں خفیہ ووٹنگ کے معاملے پر مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ آئین میں ترمیم کے

بغیرالیکشن کمیشن اوپن بیلٹ پر کیسے نظرثانی کرسکتاہے؟ الیکشن کمیشن اس چیز پردوبارہ کیسے غور کرسکتا ہے؟جو آئین میں شامل ہو، اگر آئینی ترمیم کی ضرورت ہے تو اس کیلئے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتنے کی درخواست ہے، کوئی ایسا کام نہ کریں جس پر کسی کے کہنے پر آئین کو بدنما کرنے کا احتمال ہو، الیکشن کمیشن دیگر تمام اداروں کی طرح آئین کے آرٹیکل 226 کا پابند ہے۔ دعا اور امید ہے ایک فرد کی خواہش پر ایک جماعت کو ریلیف دینے اور حکومت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے لیے پوری عدلیہ کی ساکھ کو داؤ پر نہیں لگایا جائےگا۔ آئین کی واضح شق کے ہوتے ہوئے نظریہ ضرورت کو زندہ کرنا ملک، قوم اور خود عدلیہ کے لیے بہت بڑا المیہ ہو گا۔ واضح رہے سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی ہے، الیکشن کمیشن کو جائزہ لے کر نئی تجاویز کے ساتھ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔

close