اسلام آباد ہائیکورٹ، بھٹوں پر جبری مشقت کی شکایت، دل سوز واقعات ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں کمیشن قائم، ایک ماہ میں رپورٹ طلب

اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے بھٹوں پر جبری مشقت کی شکایات روکنے کیلئے ڈپٹی کمشنراسلام آبادحمزہ شفقات کی سربراہی میں کمیشن قائم کرتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔گذشتہ روز منظوراں بی بی کی درخواست پر سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادنیاز اللہ

نیازی، ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات، ایس ایچ او تھانہ نون اور دیگر عدالت پیش ہوئے اس موقع پر بھٹہ سے بازیات کرائے گئے7بچوں2مرداور 2خواتین کو عدالت پیش کیاگیا، لیبر رجسٹریشن سے متعلق استفسارپر ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو بتایاکہ لیبر کا ایک مکمل شعبہ ہے ہدایات جاری کردی ہیں، مکمل تفصیلات اگٹھی کی جارہی ہیں، اسلام آباد میں 80بھٹے ہیں، 20سے25روز میں تمام ریکارڈ اگٹھا کرلیں گے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کریں گے، چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ گھروں میں جوبچے کام کرتے ہیں ان کا کیاہے جس پر ڈپٹی کمشنر نے بتایاکہ یونیسف کے ساتھ مل کر ان کا بھی ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے اور اس سروے کے مکمل ہونے میں 3ماہ لگیں گے، چائلڈپروٹیکشن پر بھی کام جاری ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اکیسویں صدی کا یہ سب سے بڑا مسلہ ہے، یہ بچے کیسے بازیات کرائے، جس پر ڈپٹی کمشنر نے بتایاکہ بھٹے پر چھاپہ مارا تھا، چیف جسٹس نے ڈپٹی کمشنر حنزہ شفقات سے کہاکہ فملیز کی بھی مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن یہ آپ کا کام ہیکہ ایسی جگہ جائیں، انہوں نے کاروبار کرناہے تو ہر ملازم کے ساتھ کنٹریکٹ کرنا ہوگا،مزدوری دینا ہوگی،چیف جسٹس نے ڈپٹی کمشنر سے کہاکہ عدالت کمیشن قائم کرتی ہے جس کے کنوینیئر آپ ہوں گے ایڈووکیٹ جنرل صاحب، بھٹہ یونین سے سیکرٹری جنرل محمد شبیر، دو وکلائ￿ عدنان رندھاوا

اور عمر گیلانی ممبران ہیں، ایک ماہ بعد رپورٹ دیں، جس میں مکمل تفصیل ہو، عدالت آپ کی مدد کرے گی، آپ سے بہت توقعات ہیں ایسا نظام بھی بنائیں کہ اگر کوئی شکایت کرنا چاہے تو وہ باآسانی آپ کو شکایت کرسکے، عدالت نے ایس ایچ او تھانہ نون سے استفسار کیاکہ آپ نے کیا کیا؟ جس پر ایس ایچ او نے بتایاکہ چھاپہ مارا اور ایف آئی آر بھی درج کرلی ہے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ایس ایچ او سے کہاکہ پراسیکیوشن برانچ نہیں ہے آپ ایڈووکیٹ جنرل سے رابطہ رکھیں، چیف جسٹس نیبھٹہ مالک کے وکیل سے کہاکہ آپ کاکاروبار منافع کیلئے ہے، لیکن کسی کو غلام نہیں رکھ سکتے، فیئر ٹرائل ہوگا، عدالت ایک مثال قائم کرے گی کہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرسکے، بچوں کاکیا قصور ہے کہ پہلے والدین کو غلام بنایا جاتا ہے اور پھر بچوں کو، یہ ریاست ہے لوگوں کو ایسے کوئی کاروبار نہیں کرنے دیں گے،چیف جسٹس نے ڈپٹی کمشنر سے کہاکہ ایک مہینے کے بعد آپ آکر عدالت کو بتائیں کہ اب ایک بھی جبری مشقت کا کیس نہیں رہ گیا،لوگوں کے کاروبار بند ہوتے ہیں تو ہو جائیں لیکن جبری مشقت اور انسانی حقوق کی خلاف برداشت نہیں نہیں ہو گی، بازیاب ہونے والے بچوں کی تعلیم اور ویلفئیر کا معاملہ بھی ریاست دیکھے ، عدالت کے استفسار پر ڈپٹی کمشنر نے بتایاکہ بچے شلٹر ہومز میں بھی رہ سکتے ہیں اور ان کے علاوہ بھی انتظامات ہیں، چیف جسٹس نے

کہاکہ بچوں کو اغوا کر کے ان کو جبری غلام کی طرح رکھنا ، اس سے بڑا کوئی ظلم ہو نہیں سکتا ،اس کیس کو ایسی مثال بنائیں گے کہ آئندہ کوئی ایسا ظلم کرنے کی ہمت نہ کرے،بھٹوں والے پہلے بچوں کے والدین کو قرض دیتے ہیں پھر ان کے بچوں کو ہمیشہ یرغمال بنا لیتے ہیں،اکیسویں صدی میں یہ غلامی کی بدترین قسم ہے جس طرح بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے،ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے کہاکہ تمام مدارس اور دیگر جگہوں پر بھی سروے کروا رہے ہیں کہ وہاں بچوں و دیگرملازمین کو کن شرائط پر رکھا گیا ہے،عدالت نیمذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت2فروری تک کیلئے ملتوی کردی۔ دریں اثناء سلام آباد ہائیکورٹ پیشی کے بعد بازیاب بچوں کی والدہ نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ ہمارے بچوں کو زبردستی لے جاتے تھے اور ٹھیکیدار پورادن کام کرواتا تھااور کام کے بعد اندر بند کر دیتا تھا،بچوں کو اور اسکے والد کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں گئیں اور کھانے کو بھی بمشکل کچھ دیا جاتا تھا۔ادھر ڈپٹی کمشنرحنزہ شفقات نے اسلام آباد ہائیکورٹ پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ عدالت نے کمیشن قائم کیا ہے یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے ،کمیشن جائزہلے گا ، بھٹوں کا آڈٹ کریں گے ،1992 کے قانون کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ٹرائل کرتا ہے ،کم از کم جرمانہ 50 ہزار اور سزا اسکے علاؤہ ہے ،ڈپٹی کمشنر نے کہاکہ اسلام آباد میں 80

بھٹے ہیں14کا آڈٹ کر چکے ہیں باقی مکمل کرینگے،عدالتی احکامات کے بغیرکاروائی نہ کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں ڈپٹی کمشنر حنزہ شفقات نے کہاکہ یہی ہمارا مسلہ ہے کہ شکایت کے بغیر کاروائی نہیں کرسکتے اسلام آباد میں پہلے کبھی ایسے کیس کا ٹرائل نہیں ہوا، یہ پہلا کیس ہے،لوگوں کو آگاہی دینا ہو گی،اس سے قبل کوئی شکایت نہیں آئی لیکن اب ہم خود ہر جگہ جائیں گے۔۔۔۔۔

close