اسلام آباد(پی این آئی):نئے وفاقی بجٹ میں امیروں پر کورونا ٹیکس لگانے پر غور شروع، ایف بی آر ذرائع نے تصدیق کر دی، فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے آئندہ بجٹ میں امیر افراد پر کورونا ٹیکس عائد کرنے پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ایف بی آر کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نجی نیوز کو اس بات کی تصدیق
کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح دولت ٹیکس زیر غور ہے، یہ ٹیکس امیر افراد پر عائد کیا جائے گا تاکہ کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے آمدنی میں اضافہ کیا جا سکے اور غریبوں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ اس طرح کی ایک تجویز زیرغور ہے کہ زیادہ آمدنی والے تمام افراد پر سپر کورونا ٹیکس عائد کیا جائے، اس میں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار افراد شامل ہوں گے۔تاہم ایف بی آر کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایف بی آر آئندہ بجٹ تک 51 کھرب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے، ایسا اسی صورت ممکن ہوگا جب آئندہ مالی سال کے آغاز سے ہی معاشی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہو جائیں، اگر کورونا وائرس طول اختیار کرتا ہے تو پھر دولت ٹیکس کی طرز پر کورونا ٹیکس کی تجویز زیر غور لائی جائیگی تاکہ امیر افراد پر عارضی طور پر یہ ٹیکس عائد کیا جا سکے۔عالمی بینک کے سابق عہدیدار اور معروف ماہر اقتصادیات عابد حسن نے اپنے حالیہ آرٹیکل میں تجویز بھی دی ہے کہ دو طبقات پر دولت ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔، یعنی گھریلو اور کمرشل رئیل اسٹیٹ جس کی مالیت 2 کروڑ روپے سے زائد ہو یا پاکستان میں رجسٹرڈ 30 لاکھ کار مالکان خاص طور پر 1000 سی سی کار کے حاملین پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ماہر اقتصادیات عابد حسن نے اپنے کالم میں مزید کہا کہ اسی طرح 30 سے 40 ہزار شیئرز مالکان پر ٹیکس عائد کیا جائے جو کہ پی ایس ایکس کے ٹیکس ہیون سے گزشتہ دو دہائیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 70 کھرب روپے کے قریب ہے، حکومت ان پر یک بارگی 10 فیصد دولت ٹیکس عائد کرسکتی ہے، یہ افراد ممکنہ طور پر اپنے شیئرز فروخت کردیں گے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوگا اس کا معیشت پر یا 20 کروڑ افراد پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا جب کہ اس سے پاکستان کو 500 سے 600 ارب روپے مل سکتے ہیں۔ایف بی آر کے سابق رکن اور ٹیکس ماہر شاہد حسین اسد کا کہنا تھا کہ پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کی سخت ضرورت ہے، اس صورت حال میں برآمدات میں اضافہ بہت مشکل ہے لیکن حکومت نیوٹیک /ٹیوٹا جیسے اداروں کا استعمال کرکے نوجوانوں کو 3 ماہ سے 6 ماہ کی تربیت فراہم کرکے دنیا بھر کے تمام کمرشل اتاشیوں کو یہ ذمہ داری دے سکتی ہے کہ ان تربیت یافتہ افراد کو بیرون ممالک بھجوائے، اس کے ذریعے مختصر مدت میں ہماری غیر ملکی ترسیلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔شاہد حسن۔ کا کہنا ہے دوسرا یہ کہ 17 فیصد جی ایس ٹی بہت زیادہ ہے، اگر حکومت آئندہ سال سے یہ ریٹ کاروباری طبقے کے لیے 15 فیصد کردے تو وہ اس سے خوش ہوجائیں گے، تیسرا یہ کہ سیلز ٹیکس کا ان پٹ اور آؤٹ پٹ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے آسان ہے مگر عام تاجروں کے لیے آسان نہیں ہے، ان کے لیے ریٹ میں مزید 5 فیصد کمی کی جائے جس میں کوئی ایڈجسٹمنٹ یا ریفنڈ نا ہو اور چوتھا یہ ہے کہ کاروبار پر کم از کم ٹیکس شرح 1.5 فیصد بہت زیادہ ہے، جسے کم کرکے اعشاریہ 5 فیصد کیا جانا چاہیے۔آخر میں ٹیکس امور کے ماہر شاہد حسین کا کہنا تھا کہ ودہولڈنگ ٹیکس میں بھی بڑی کمی کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں