علامہ ناصر مدنی پر تشدد کرنیوالےنوجوان کس ملک سے علامہ صاحب پر تشدد کرنے پاکستان پہنچے تھے؟ خود ہی ہوشربا انکشافات کر دیئے

گجرات(پی این آئی) چند یوم قبل کھاریاں کے نواحی گاؤں بنوریاں میں نامعلوم مسلح افراد نے ملک کے معروف عالم دین ہر دلعزیز شخصیت علامہ ناصر مدنی کو رات 10بجے سے لیکر سحری تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا، ان کو بے لباس کیا ،اُن سے ساد ہ کاغذات پر دستخط کرائے گئے، نشہ آور مشرو ب پلا کر ایک

عالم دین کی اس قدر توہین کی گئی جس کا تصور کر کے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ گجرات کی سرزمین پر ملک کے معروف عالم دین کے ساتھ اس قسم کی دلیرانہ واردات اور تضحیک آمیز رویہ نہ صرف ناقابل برداشت تھا بلکہ قابل مذمت بھی ہے ۔پورے پاکستان میں اِن پر تشدد کی خبریں وائرل ہوئیں، لوگوں میں شدید غم وغصہ پایا جانے لگا اور ہر شخص کی زبان پر ایک ہی لفظ تھا کہ ملزمان کا تعلق خواہ کسی بھی گروہ یا فرقے سے ہو ؟اُنہیں ایک عالم دین کی اس قدر بے حرمتی اور تشدد کرنے پر سر عام پھانسی دیدی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی، کسی بھی مذہبی یا فرقے سے تعلق رکھنے والے عالم دین کی تضحیک نہ کر سکے۔اس واقعہ کی اطلاع ڈی پی او گجرات سید توصیف حیدر کو فوری طور پر دی گئی،جس پر ڈی پی او نے ڈ ی ایس پی کھاریاں چوہدری اسد اسحاق ، ایس ایچ او تھانہ صدر کھاریاں مجاہد عباس کو حکم جاری کیا کہ ملزمان خواہ آسمان پر ہوں یا زمین کے اندر؟ اُنکی گرفتاری چوبیس گھنٹے میں ممکن بنائی جائے ۔معروف عالم دین علامہ ناصر مدنی نے اس وقوعہ کے بعد لاہور میں سوشل میڈیا اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ اُنکی کسی کیساتھ کوئی دشمنی نہیں مگر میری مقبولیت سے خائف لوگوں نے مجھے تشددکانشانہ بنا کر بزدلی کا ثبوت دیا ہے ،بیرون ملک سے کسی شخص کیساتھ انکا واٹس ایپ پر رابطہ تھا ،انہوں نے مولانا ناصر مدنی کو یہ یقین دلا دیا کہ وہ واقعی ان کے عقیدت مند ہیں اور اپنی بیمار والدہ کے لیے ان سے دعا کرانا چاہتے ہیں مگر یہ ایک سازش تھی۔ مولانا ناصر مدنی نے بتایا کہ مذکورہ اغوا کاروں نے انہیں لاہور سے دھوکہ سے گجرات لے جایا گیا، وہ اپنی گاڑی میں ڈرائیور کے ہمراہ جب گجرات کی تحصیل کھاریاں پہنچے تو کچھ لوگ پہلے ہی ’عجوہ ہوٹل‘ پر موجود تھے جہاں اُنہیں مرغن غذائیں کھلائی گئیں، کھانا کھانے کے بعد اِنہیں کھاریاں ڈنگہ روڈ پر واقعہ دھوریہ گاؤں لے گئے، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا،دس بجے رات کے قریب ہم دھوریہ کے ایک ویران علاقے میں اُن کے ڈیرے پر پہنچے، جہاں جاتے ہی میرے ڈرائیور کو الگ الگ کمروں میں بند کر دیا ،بعد ازاں آٹھ سے دس مسلح افراد نے اسلحہ لیکر وہاں پہنچے اور زبردستی میرے کپڑے اتروائے اور لوہے کے راڈ کیساتھ مجھے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، مسلح افراد نے تشد دکی ویڈیو فلم بھی تیار کی اور ایک سفید کاغذ پر میرے زبردستی دستخط بھی کرائے گئے اور کیمرے کے سامنے یہ بولنے پر مجبور کیا گیا مجھ سے غلطی ہوئی، معافی مانگتا ہوں۔ علامہ ناصر مدنی نے بتایا ان کے زبردستی انکے سوشل اکاؤنٹس کے پاس ورڈ لیے گئے جنہیں اب ہیک کر لیا گیا ہے ۔علامہ ناصر مدنی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مسلح افراد مسلسل تشدد کے دوران کسی سے ٹیلی فون پر رابطہ رکھے ہوئے تھے ،میری گاڑی کی تلاشی کے دوران قیمتی کاغذات ، اے ٹی ایم کارڈز اور شناختی کارڈز وغیرہ چھین لیے، میری جیب میں موجود رقم بھی نکال لی گئی بعد ازاں مجھے میرا شناختی کارڈ واپس کر دیا گیا اور کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے پر قتل

کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ علامہ ناصر مدنی کا کہنا تھا میں نے ہمیشہ محبت کا پرچار کیا ، چھوٹی سطح سے اوپر آیا اور اللہ نے مقبولیت دی جو مخالفین کو ہضم نہیں ہوتی، میں کسی سیاسی اور احتجاجی جماعت کے ہتھے نہیں چڑھا ۔انہوں نے چیف جسٹس، حکومت پاکستان ، افواج پاکستان اور پولیس حکام سے ان کے ساتھ ہونیوالے ظلم کا نوٹس لیں ۔انہوں نے بتایا کہ وہ سائبر کرائم کے تحت کارروائی کیلئے ایف آئی اے حکام سے بھی رابطہ میں ہیں جبکہ تھانہ مزنگ لاہور میں مقدمہ بھی درج کرایا گیا ہے۔ڈی پی او سید توصیف حیدر نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود ملزمان کی گرفتاری کو یقینی بنانے کیلئے پی آر او برانچ کے انچارج چوہدری اسد گجر کو بھی ہدایات جاری کیں کہ وہ نہ صرف میڈیا کو لمحہ بہ لمحہ پیش رفت سے آگاہ کرتے رہیں بلکہ ملزمان کی گرفتاری ہوتے ہی میڈیا کو آگاہ کر دیا جائے۔ اگر خدانخواستہ کھاریاں پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام ہو جاتی تو نہ صرف گجرات کی بدنامی تھی بلکہ پوری پنجاب پولیس کیلئے شرمندگی کا باعث بھی تھی۔ ڈی پی او سید توصیف حیدر نے صرف گجرات پولیس کی لاج رکھ لی بلکہ پنجاب پولیس کو بدنام ہونے سے بچا لیا،گجرات کے باسی جو انتہائی محبت کرنیوالے لوگ ہیں اور اسکے قد آور سیاستدان پوری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں کی عزت کا پاس بھی رہ گیا۔ اس سلسلہ میں ڈی پی او گجرات کی پی آر او برانچ کے سربراہ چوہدری اسد گجر ایڈووکیٹ نے میڈیا کو بتایا کہ گجرات پولیس کھاریاں سرکل کے انچارج اسد اسحاق ڈی ایس پی اور تھانہ صدر کھاریاں کے ایس ایچ او مجاہد عباس نے وقوعہ کے رونما ہونے کے چوبیس گھنٹے کے اندرملزمان کا سراغ لگا لیا کہ ان کا تعلق کس علاقے سے ہے ،عجوہ ہوٹل میں دعوت شیراز سے شروع ہونیوالی اغوا اور تشدد کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔ ایس ایچ او تھانہ صدر کھاریاں مجاہد عباس جو دلیری اور جرات کے حوالے سے اپنی ثانی نہیں رکھتے نے اس کیس کو اپنے لیے ایک چیلنج

تصور کیا اور اسکی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فورا سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ گجرات کے نواحی گاؤں دھوریہ میں ایک ڈیرے پر چھاپہ مار کر تین پاکستانی نژاد برطانوی نوجوانوں سمیت ایک مقامی شخص کے ہمراہ بھاری اسلحہ سمیت گرفتار کر لیا ہے۔اس سلسلہ میں جب ڈی ایس پی کھاریاں اسداسحاق سےرابطہ کیاگیاتوانہو ں نےبتایا کہ گرفتار ملزمان میں غلام ربانی ولد محمد الیاس، علی عباس ولد محمد الیاس ساکنائے دھوریہ،ناظم حسین ولد غلام قادر سکنہ گھنسیہ ، آصف اقبال ولد محمد نور سکنہ ملکووال ضلع منڈی بہاؤالدین شامل ہیں جبکہ ان کے دیگر ساتھیوں میں شہریار سکنہ دیول ،عبد اللہ سکنہ راولپنڈی ، ذیشان سکنہ روات اور عاطف سکنہ راولپنڈی بھی شامل ہیں۔ ملزمان نے انکشاف کیا کہ مولانا ناصر مدنی نے انکے پیرکے خلاف کورونا کے حوالے سے گستاخی کی ہے چونکہ مذکورہ پیر برطانیہ کے دورہ کے دوران ان کے گھر قیام کرتے ہیں اور انہیں ان سے بے پناہ عقیدت ہے مولانا کی کورونا کے بارے ان کے پیر کے حوالے سے جاری ہونیوالی ویڈیو نے انہیں اس امر پر مجبور کیا کہ وہ برطانیہ سے پاکستان آ کر مولانا ناصر مدنی کو سبق سکھائیں ۔ انکا اس دوران واٹس ایپ پر مولانا ناصر مدنی سے رابطہ رہا، اس مقصد کیلئے ہم تین بھائی پاکستان پہنچے اور اپنے پیر کے دیگر عقیدت مندوں کے ہمراہ مولانا ناصر مدنی کو اغوا کر کے اپنے ڈیرے پر لے گئے ،ڈیرے پر جاتے ہی انہوں نے سب سے پہلے مولانا کے کپڑے اتروائے، انہیں بالکل ننگا کر دیا اور ان کے ڈرائیور کو ساتھ والے کمرے میں مرغا بنا کر تشد دکا نشانہ بنایا اور مولانا ناصر مدنی کو تقریبا چھ گھنٹے مسلسل تشد دکا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ملزمان کا کہنا تھا کہ مولانا نے جو بھی پریس

کانفرنس کی ہے وہ حقائق پر مبنی ہے بلکہ ہم نے اس سے بھی بڑھ کر ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ پاکستانی نژاد برطانوی بگڑے ہوئے نوجوانوں نے پولیس کو بتایا کہ حقیقت میں ہم انہیں قتل کرنا چاہتےتھےمگر ان کی زندگی باقی تھی لہذا ہم نے انہیں چھوڑ دیا ۔مولانا کی ویڈیو وائرل ہوتے ہی وزیر اعلی عثمان بزدار،سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی ، انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس شعیب دستگیر ودیگر نے اس کا نوٹس لیا اور ڈی پی او سید توصیف حیدر کو حکم جاری کیا کہ یہ ایک مذہبی مسئلہ بن گیا ہے ،مولانا ناصر مدنی کے لاکھوں عقیدت مند ہیں لہذا سرزمین گجرات میں ہونیوالے اس واقعہ کے ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے ۔صد آفرین ڈی ایس پی اسد اسحاق اور ایس ایچ او مجاہد عباس پر جنہوں نے اپنے کپتان کے حکم پر تمام تر مصروفیات کو ختم کرتے ہوئے چند ہی گھنٹوں میں ملزمان کو فرار ہوتے ہوئے گرفتار کر لیا اور ان کے قبضہ سے بھاری اسلحہ بھی برآمد کیا گیا جن میں ایک کلاشنکوف بھی شامل ہے ۔ملزمان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے پیر مانچسٹر میں ان کے مہمان خصوصی ہوتے ہیں لہذا انکی تضحیک کا بدلہ لینا اُن کے لیے اشد ضروری ہو گیا تھا، ملزمان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جتنا تشدد ہم نے مولانا مدنی پر کیا ہے، اگر وہ کسی اور پر کیا جاتا تو وہ جان کی جازی ہار جاتا ۔ملزمان کی گرفتاری اور اسلحہ کی برآمدگی کے بعد تھانہ مزنگ پولیس کو اطلاع کر دی گئی جنہوں نے ملزمان کو گرفتار کر کے لاہور میں حوالات میں بند کر دیا، گجرات

کے تمام مذہبی حلقوں نے گجرات پولیس بالخصوص ڈی پی او ، ڈی ایس پی کھاریاں ، ایس ایچ او تھانہ صدر کھاریاں اور ملازم کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر خدانخواستہ گجرات پولیس اس میں ناکام ہو جاتی تو ہم تاریخی احتجاج پر مجبور ہو جاتے مگر اب جہاں حکومت پنجاب گجرات پولیس کی حوصلہ افزائی کیلئے شاندار پروگرام ترتیب دیے ہوئے ہے وہاں علمائے کرام بھی ڈی پی او گجرات ، ڈی ایس پی کھاریاں ‘ اور ایس ایچ او تھانہ صدر کھاریاں کی دستار بندی اور انعامات کا اعلان کر چکے ہیں ۔

close