پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عمران خان نے نواز شریف کو خود لندن بھیجا تھا، اب وہ قوم کے سامنے جھوٹ نہ بولیں۔لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ موجودہ حکومت نے سول سوسائٹی کو بھی محدود کردیا جبکہ ایک سازش کے تحت
غیرسرکاری تنظیموں (این جی اور) اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (آئی این جی اوز) کے لیے ایک قواعد و ضوابط کا فریم ورک راتوں رات کھڑا کردیا جس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ریاست کی کوشش ہے کہ ہماری میڈٰیا، این جی اوز، آئی این جی اوز، سول سوسائٹی کو کنٹرول کرے اور دکھائیں کہ ہم کتنے طاقت ور ہیں، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ تعمیری تنقید سے ریاست کو طاقت ملتی ہے۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ آزاد تنظیموں کے تحت کام کرتے ہوئے جو رپورٹ بناتے ہیں اور آپ کی پالیسیز پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آپ کی مخالفت کر رہے، آپ سے بغاوت یا غداری کر رہے بلکہ یہ آپ کے عوام اور ریاست کے لیے بہتری چاہتے ہیں جس کی وہ تجویز دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں ہم سب محب وطن پاکستانی ہیں، جو ملک اور عوام کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں اور ریاست کو مختلف رائے کو برداشت کرنا چاہیے اور انہیں دبانا نہیں چاہیے۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اس وقت ہر پاکستانی کا مسئلہ مہنگائی ہے جو پی ٹی آئی-آئی ایم ایف ڈیل کی وجہ سے جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے تاہم اس ڈیل کو بے نقاب کرنے کے لیے پیپلزپارٹی اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی کی تعریف کرتے ہیں جو ہر موقع پر اس پی ٹی آئی-آئی ایم ایف گٹھ جوڑ کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔دوران گفتگو سوالات کا جوابات دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ پاکستان کے عوام کی بات کی، جب نواز شریف حکومت میں تھے اور اگر ان کے انتخابی عمل کے دوران مسائل تھے تو ہم اس کے خلاف بھی آواز اٹھاتے۔انہوں نے کہا کہ جب نواز شریف حکومت میں تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ پارلیمان کو اہمیت نہیں دی جارہی تھی تو ہم نے آواز اٹھائی تھی، اسی طرح اس وقت کی معاشی پالیسی پر بھی ہم اپنی آواز اٹھا رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت نواز شریف حکومت میں نہیں ہیں اور مجھے کوئی فائدہ نہیں کہ میں ان کی مخالفت کروں، اس وقت ایک پی ٹی آئی کی حکومت ہیں اور ہم اس کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ کام کرنا چاہیں گے تاکہ ہم ایک موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرسکیں۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے جس وقت ملکی معیشت چھوڑی تھی تو اس وقت کی صورتحال کے تناظر میں ہماری حکومت نے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا تھا، تاہم اس حکومت نے کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے بلکہ خودکشی کرلیں گے۔چیئرمین پیپلزپارٹی نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اور آئی ایم ایف ڈیل کو پھاڑ دیا جائے اور اس پر نظرثانی کی جائے اور عوام کے حق کی معاشی پالیسی لائی جائے جو پاکستان کی خودمختاری پر سودا نہ کرے۔دوران گفتگو سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو آئی ایم ایف، عالمی بینک کے نمائندے بننے کے بجائے عوام کا نمائندہ بننا چاہیے، اس وقت پاکستان کی معیشت کا مقصد یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو کس طرح رقم واپس کرنی ہے جبکہ ہمارے نزدیک یہ مقصد ہونا چاہیے کہ عوام کو روزگار، مکان اور کپڑے کیسے دیے جائیں۔بلاول بھٹو زرداری نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان نے نواز شریف کو خود لندن بھیجا تھا، اب وہ قوم کے سامنے جھوٹ نہ بولیں، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجرم ہیں اور اگر مجرم تھے تو پھر انہیں کیوں جانے دیا، اپنے مفاد اور حکومت بچانے کے لیے این آر او کرکے باہر بھیج سکتے ہیں تو پھر یہ ڈرامے بازی نہیں چلے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کسی کو کرپشن کیسز میں کوئی دلچسپی نہیں، عمران خان کی صرف ایک ہی توجہ ہے کہ ان کا ‘کٹھ پتلی راج’ برقرار رہے اور اس کے لیے وہ جو بھی ہتھکنڈے اپنانا چاہیں اپنائیں گے چاہے اس کے لیے انہیں میڈیا یا سول سوسائٹی کا گلا گھونٹنا پڑے یا ملک کے عوام کا معاشی قتل کرنا پڑے وہ کرتے ہیں۔رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر کے مبینہ طور دیے گئے ‘متنازع بیان’ سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے ایسا کوئی بیان نہیں سنا، اگر میں سنتا تو اس پر بیان دیتا، تاہم کسی غیرملکی طاقت کو اپنے ہی ملک پر حملے کی دعوت دینے کی کوئی تک نہیں اگر ایسا کوئی بیان دیا گیا ہے تو اس کی مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘تاریخ میں کافی لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ دہشت گردی کی پناہ گاہ پر حملے ہوں، جہاں بھی وہ دہشت گردی کی پناہ گاہیں ہوں گی چاہے راولپنڈی میں ہوں یا فاٹا میں ان کے خلاف بلکل کارروائی کرنی چاہیے لیکن میں کسی دوسرے ملک یا امریکا’ اس کارروائی کے لیے نہیں کہوں گا۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اتنی بڑی فوج ہے اور ہم ہر خطرے کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور کہیں بھی پناہ گاہ موجود ہیں تو ان کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔لاپتہ افراد سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی پہلے روز سے ان کے لیے آواز اٹھا رہی ہے، 2007 سے 2018 تک کے منشور میں ہماری واضح پالیسی رہی ہے لیکن ہم نے حکومت میں آکر اس پالیسی اور مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی اور لاپتہ افراد کمیشن سمیت کافی ترمیم لائے۔ان کا کہنا تھا کہ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ جان بوجھ کر اس ادارے کو کمزور کیا گیا اور اس معاملے کو صحیح طریقے سے نہیں دیکھا جارہا، تاہم ہم آواز اٹھا رہے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ‘کسی بھی ریاست کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے ہی شہریوں کو لاپتہ’ قرار دے اور پاکستان کو بھی دنیا کے باقی ممالک کی طرح ایک صفحے پر آنا پڑے گا کہ ہمارے شہری ایسے تو غائب نہیں ہوسکتے۔
پاکستان نیوز انٹرنیشنل (پی این آئی) قابل اعتبار خبروں کا بین الاقوامی ادارہ ہے جو 23 مارچ 2018 کو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں قائم کیا گیا، تھوڑے عرصے میں پی این آئی نے دنیا بھر میں اردو پڑہنے، لکھنے اور بولنے والے قارئین میں اپنی جگہ بنا لی، پی این آئی کا انتظام اردو صحافت کے سینئر صحافیوں کے ہاتھ میں ہے، ان کے ساتھ ایک پروفیشنل اور محنتی ٹیم ہے جو 24 گھنٹے آپ کو باخبر رکھنے کے لیے متحرک رہتی ہے، پی این آئی کا موٹو درست اور بروقت اور جامع خبر ہے، پی این آئی کے قارئین کے لیے خبریں، تصاویر اور ویڈیوز انتہائی احتیاط کے ساتھ منتخب کی جاتی ہیں، خبروں کے متن میں ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتا جاتا ہے جو نا مناسب ہوں اور جو آپ کی طبیعت پر گراں گذریں، پی این آئی کا مقصد آپ تک ہر واقعہ کی خبر پہنچانا، اس کے پیش منظر اور پس منظر سے بر وقت آگاہ کرنا اور پھر اس کے فالو اپ پر نظر رکھنا ہے تا کہ آپ کو حالات حاضرہ سے صرف آگاہی نہیں بلکہ مکمل آگاہی حاصل ہو، آپ بھی پی این آئی کا دست و بازو بنیں، اس کا پیج لائیک کریں، اس کی خبریں، تصویریں اپنے دوستوں اور رابطہ کاروں میں شیئر کریں، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، ایڈیٹر
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں