بھکاری اپنی بیٹی کو تحفہ دینے کیلئے دو سال تک پیسے جمع کرتا رہا اور پھر کیا ہوا۔۔تحفہ کیا تھا؟

وہ بھکاری جس نے اپنی بیٹی کی پیلے رنگ کے سوٹ کی خواہش پوری کرنے کیلئے دو سال تک پیسے جمع کیے اور اسے سوٹ دلوا کرثابت کیا کہ باپ واقعے ہی بادشاہ ہوتاہے ۔تفصیلات کے مطابق جب ہمیں محسوس ہوتاہے کہ ہمارے پاس کپڑوں کی کمی ہے اور ہمیں تقریب کیلئے نئی کپڑوں کی ضرورت ہے تو ہم کسی بھی قریبی شاپنگ مال میں جاتے ہیں اور کپڑے خرید لیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ ایسا بالکل نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس وسائل موجود نہیں ہوتے ،وہ اپنے بچوںکی معمولی خواہش پوری کرنے کیلئے کئی سالوں کی کمائی لگا دیتے ہیں ۔کوثر حسین نامی شخص جو کہ بھیک مانگ کر گزر بسر کرتا ہے ،اس نے دو سال تک ایک ایک پیسہ جمع کر کے اپنی بیٹی کو نیا سوٹ خرید کر دیاہے ۔حسین اپنے ایک ہاتھ سے معذور ہے جو کہ اس نے ایک حادثے میں کھو دیا تھا ،معذوری کے باعث وہ کوئی کام کاج نہیں کر سکتا تھا تو اس نے بھیک مانگ کر گزر بسر کرنے کافیصلہ کیا ،ایک دن وہ اپنی بیٹی کے ہمراہ ایک دکان میں گیا تاکہ اپنی بیٹی کو نیا سوٹ خرید کر دے سکے جب اس نے کچھ پیسے دکاندار کو دیئے تو دکاندار اس پر چلانا شروع ہو گیا اور اسے دھکے دینے لگا جس پر معصوم بچی اپنے باپ کا ہاتھ پکڑے رونے لگی اور کہنے لگی کہ یہاں سے چلومجھے سوٹ نہیں چاہیے ۔اس نے اپنی بچی کو اس حالت میں دیکھ کر بھی اپنا حوصلہ نہیں کھویا اور ہر دن رات اس کی خواہش پوری کرنے کیلئے سوچتا رہا ۔آخر کار دو سال پیسے جمع کرنے کے بعد اس نے اپنی بیٹی کو نیا سوٹ خرید کر دیا ،جس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے ۔کوثر حسین کا کہناہے کہ جب وہ حادثے کے بعد اپنے گھر پہنچا تو اس کے بیٹے نے اس سے کہا کہ ”بابا آپ اپنا ایک ہاتھ کس کو دے کر آئے ہیں “جبکہ میری بیٹی سمیعہ مجھے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی ہے اور کہتی ہے وہ جانتی ہے کہ ایک ہاتھ سے سارے کام کرنا کتنا مشکل ہے ۔آخر کار میری بیٹی دو سال بعد آج یہ نیا سوٹ پہن رہی ہے اور اسی کے باعث آج میں اسے اپنے ساتھ کھیلنے کیلئے باہر لایا ہوں ،میں آج کچھ بھی خریدنے کی حالت میں نہیں ہوں لیکن اپنی بیٹی کے ساتھ ادھر ادھر گھومنا چاہتاہوںحسین کا کہناتھاکہ میں نے اپنی بیوی سے چھپ کر اپنے ہمسائے سے اس کا موبائل ادھار مانگا ہے تاکہ اپنی بیٹی کی تصاویر بنا سکوں کیونکہ میرے پاس موبائل فون نہیں ہے اور جب میں اپنا موبائل خرید لوں گا تو اپنی بچوں کی خوب تصوریرں بناؤں گا ۔میں اپنے بچوں کی یادیں ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتاہوں ۔اس کا کہناتھا کہ میرے لیے یہ مشکل ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھا سکوں لیکن اس کے باوجود بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلورہاہوں لیکن کبھی کبھار ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے جس کے باعث میرے بچوں امتحانات نہیں دے پاتے اور ان دنوں میں اپنے بچوں کو سمجھاتاہوں کہ زندگی سب سے بڑا امتحان ہے جو ہم ہر روز دیتے ہیں ۔

close