روایت ہے کہ ایک دن حضرت جبرائیل علیہ اسلام ایک پیالہ آبِ حیات حضرت سلیمان علیہ اسلام کے نزدیک لائے اور کہا کہ حق سبحان تعالیٰ نے تجھے اختیاردیاہے کہ تو یہ جام نوش کرے تو قیامت تک نا مرے۔ سلیمان علیہ اسلام نے جن و انس وحیوانات سے اس بات کی مشاورت کی، سب نے یک زبان ہو کر کہا مبارک ہے پیجئے اور حیاتِ ابدی حاصل کیجئے ۔ تب سلیمان علیہ السلام نے اندیشہ کیا کہ کوئی اس مشاورت سے خالی تو نہیں رہا،ایک خارپشت باقی رہ گیا سو خیال میں گزرا اْسے بھی بلانے کے واسطےبلانے کے واسطے گھوڑے کو بھیجا گیاوہ اس کے ساتھ نہ آیا۔ تب حضرت سلیما ن علیہ السلام نے کتے کو بھیجا خارپشت اْس کے ساتھ چلا آیا. سلیمان علیہ اسلام نے کہا مجھے تیرے ساتھ کچھ مشاورت منظورہے لیکن یہ تو بتا کہ گھوڑے سے زیادہ کونساجانور شریف ہے؟ جو تواْس کے بلانے سے نہ آیا اور کتا جو کہ سب جانوروں سے نجس وناپاک ہے اس کے ساتھ چلاآیا اس کا کیا سبب ہے؟ خارپشت بولا گھوڑا اگرچہ شریف ہے لیکن بے وفاہے یہی چاہتا ہے کہ کسی طرح سوار کو گرادے ۔ دوسرایہ کہ دشمن کو بھی اپنے اوپر سوار کرالیتا ہے اور کتا ہرچند کہ ناپاک ونجس ہے لیکن وفادار ہے ایک لقمہ کسی کا کھائے تو ساری عمراِس کا احسان نہ بھولے۔ تب سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ جامِ آبِ حیات میرے پاس بھیجا گیا ہے اوراس کے پینے یا نہ پینے کا مجھے مختارکیا ہے، سب نے مجھے اس کے پینے کی رائے دی ہے بھلا تیری اس میں کیا صلاح ہے پیوؤںیا رد کروں؟ پوچھا یہ آبِ حیات صرف آپ ہی کہ لئے آیا ہے یاسب عیال واطفال وعزیز بھی اسے پئیں گے۔فرمایا مجھ اکیلے کو اس کے پینے کا حکم ہے خارپشت بولا، تو اس کا پینامناسب نہیں کیونکہ ہرایک عزیز تمہارے روبرو جب مرے گا تو ان کے غم وماتم پر یہ جانِ شیریں تمہیں تلخ ہوگی ۔عزیز دوست جب کوئی نہ رہا تو زندگانی حیف ہے یہ بات حضرت سلیمان علیہ اسلام کو پسندآئی اور وہ آبِ حیات واپس کردیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں