قرض چُکانے کا وقت، سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

سیلاب سے تباہ حال علاقوں کے دورے، فنڈز ریزنگ اور متاثرین کو طفل تسلیاں دینے کے بعد حکمران اور چئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان ایک مرتبہ پھر سیاسی دنگل میں گتھم گتھا ہیں۔ عمران خان نے تو قوم کے پرزور مطالبے کے باوجود سیلاب متاثرین کی امداد کیساتھ آزادی کے نام پر حصول اقتدار کیلئے سرتوڑکوششیں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر ہے وزیر اعلی خیبرپختونخواہ کیساتھ ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کی ویڈیواور شاندار تصاویر آئندہ کچھ دنوں کیلئے کافی فائدہ مند رہیں گی۔

وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی بھی سندھ میں تباہ حال خاندانوں اور انکے بچوں کیساتھ تصویری نمائش قومی خدمت کا ثبوت پیش کرتی رہیں گی۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق دل دہلا دینے والی ویڈیوز اور عوامی مطالبے نے حکمرانوں اور جلسوں میں جشن منانے والوں کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے پر مجبور کیا تھا۔ عظیم قوم اورملک کی تشکیل جلسوں کے بغیر آخر ممکن ہی کب ہے۔ حکومتی اور اپوزیشن رہنماوں کے دوروں کایہ ثمر ضرور ملا ہے کہ ملکی اور عالمی میڈیا نے بھی سیلاب سے تباہ حال علاقوں پر رپورٹنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں عالمی دنیا اور دوست ممالک بھی متحرک ہوگئے۔ بیرون ممالک سے امدادی سامان کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا مگر حکومتی اور اپوزیشن رہنما ان علاقوں سے غائب ہوگئے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق کہ بارشوں سے آنے والے سیلاب سے ملک بھر کے 154 میں سے 116 اضلاع متاثر ہوئے جبکہ صحت کے کم از کم 888 مراکز کو نقصان پہنچاہے۔ سیلاب میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور 15 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوچکے ہیں، ان میں سے 64 لاکھ افراد کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے جن میں سیلاب سے بے گھر ہونے والے 4 لاکھ 21 ہزار افراد بھی شامل ہیں۔ تباہ حال علاقوں میں صحت کے 888 مراکز کو نقصان پہنچ چکا ہے جن میں سے 180 مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔پاکستان پہلے ہی کورونا سمیت متعدد وباں سے لڑ رہا ہے۔

صحت کی سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹ ہوئی تو موجودہ صورتحال میں بیماری کے پھیلا میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔ پاکستان میں ڈائیریا، ڈینگی بخار، ملیریا، پولیو اور کورونا جیسی بیماریوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، یہ اضافہ خاص طور پر متاثرین کے کیمپوں اور ان علاقوں میں دیکھنے میں آرہا ہے جہاں پانی اور صفائی کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بالخصوص بلوچستان میں بجلی،گیس اور مواصلاتی نظام تاحال بحال نہیں ہوسکا۔ پاک فوج، این ڈی ایم اے،عالمی ادارے اور فلاحی تنظیمیں متاثرین کو خوراک اور امدادی سامان پہنچانے میں مصروف ہیں مگر متعلقہ سرکاری ادارے ان علاقوں میں بجلی،گیس اور مواصلاتی نظام کی بحالی کیلئے متحرک دکھائی نہیں دے رہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے گذشتہ روز نوٹس لیتے ہوئے پاور ڈویژن کو بجلی بحال کرنے کی ہدایات جاری کیں ہیں مگر واپڈا کا عملہ ان علاقوں میں کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق بظاہر جو عوامل نظر آرہے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی یہ سطح غیر معمولی ہے۔

یہ صرف ایک برا مون سون کا موسم نہیں ہے، یہ اس سے بڑھ کر ہے جو آنے والے سالوں میں مزید تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ کاربن کے اخراج کے سبب عالمی سطح پر آلودگی کے بڑے حصہ دار ممالک کو موسمیاتی خطرات سے دوچار پاکستان جیسے ممالک کی مالی مدد کے لیے اخلاقی دباو محسوس کرنا چاہیے جو عالمی سطح پر کاربن کے اخراج کے 0.5 فیصد سے بھی کم کے ذمہ دار ہیں۔

پاکستان جیسے ممالک جنہوں نے گلوبل وارمنگ میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے وہ اکثر اس کے بدترین اثرات سے متاثر ہوتے ہیں۔ یونین آف کنسرنڈ سائنٹسٹس کی پرنسپل کلائمیٹ سائنس دان کرسٹینا ڈہل نے کہا کہ پاکستان نے صنعتی انقلاب کے بعد سے ماحول میں تپش کے اخراج میں 0.5 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالا ہے جبکہ امریکا 25 فیصد کا ذمہ دار ہے۔ تیزی سے پگھلنے والے گلیشیئرز برفانی جھیلوں کے سیلاب کا سبب بن سکتے ہیں۔ لہذا ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر منصوبہ بندی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کی اشد ضرورت ہے لیکن سیاسی دنگل اور اقتدار کی جنگ ٹلنے کیبعد ہی ایسی منصوبہ بندی اور مانیٹرنگ ممکن ہوسکتی ہے ایسے حالات میں تو بہتری کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کی مترادف ہوگا۔

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سمیت حکومتی ٹیم آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے بعد خاصی خوش ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے کی سازش سے ناصرف بچالیا گیا ہے بلکہ معاشی بہتری کے سفر کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔ عوام بھی قدرے مطمئن تھے کہ ڈالر کی قدرمیں مسلسل کمی مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کیساتھ اب ریلیف کی راہ بھی ہموار کرے گی۔ ایسے میں 31اگست کی شب جب پیٹرول 15 روپے 43 پیسے فی لیٹر سستا ہونے کی امید تھی، مفتاح اسماعیل صاحب نے وزیراعظم کو قائل کیا کہ پٹرول سستا کرنیکی بجائے 2روپے 7پیسے فی لیٹر مہنگا کردیا جائے تاکہ پیٹرول پر 37روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی وصول ہوسکے۔ اس اقدام سے آئی ایم ایف تو یقینا خوش ہوگا مگر تباہ حال سیلاب متاثرین اور مہنگائی کے ستائے عوام کا کسی نے نہیں سوچا۔

اس مرتبہ تولندن اور جاتی امرا سے پیٹرول کی قیمت بڑھانے کے خلاف احتجاج اور واک آوٹ کی خبر بھی نہیں آئی۔حیران کن طور پر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 31اگست کو اعلان کیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے کہ اگست میں 9 فیصد اضافے کیساتھ کر 4 کھرب 89 ارب ٹیکس جمع کیا ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی دو ماہ میں ریونیو کی وصولی 9 کھرب 26 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 9 کھرب 48 ارب روپے رہی۔ یہ کلیکشنز اگست میں اب تک کی سب سے زیادہ وصولیاں ہیں۔بہت آچھی بات کہ ایف بی آر نے اپنے ہدف کے مقابلے میں بھی زیادہ ٹیکس جمع کیا ہے تو پھر پیٹرول 15روپے لیٹر سستا کرنے کی بجائے پیٹرولیم لیوی بڑھانا عوام کیساتھ ظلم نہیں توکیاہے۔اگرپندرہ حکومت عوام کو ریلیف دے دیتی تو اضافی ٹیکس جمع ہونے کے بعد خزانے پر کونسابوجھ پڑنا تھا۔ قومی خزانے کے تحفظ کا پرچار کرنے والوں کا حال بھی جان لیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس انکشاف ہوا ہے کہ حکومت سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی سیکیورٹی پر سالانہ 24 کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔

تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو اوراجڑے لوگوں کی بحالی یہ دوچار دنوں کا نہیں بلکہ مہینوں کا کام ہے۔ یہ کام نعروں اور جلسوں سے نہیں،خلوص دل سے انتھک محنت اور جذبے سے مکمل ہوگا۔ لہذا خداراسیلاب سے تباہ حال علاقوں کی تعمیرنو اورریلیف سرگرمیوں کیلئے کم ازکم ایک ماہ تو سیاست اور شعبدہ بازی دونوں ترک کر دیجئیے۔یہ سیاست نہیں خدمت اور قرض چکانے کا وقت ہے۔(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت)۔۔۔

close