کڑے احتساب کا دوہرا معیار؟ سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

بلاامتیاز کڑے احتساب کا دعوی اور نعرہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مقابلے میں شاید ہی کسی اور سیاسی جماعت کی جانب سے سامنے آیا ہو۔ وزیراعظم عمران خان اور اُن کے رُفقاہائے کاربدعنوانی میں ملوث افراد کو صرف جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں۔وزیراعظم چاہتے ہیں کہ کوئی بھی فرد وزیر ہویا بیوروکریٹ، اپوزیشن رہنما ہو یا سرمایہ کار‘جس کسی نے بھی کرپشن کی ہے اس کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان دینی ودنیاوی مثالوں سے ہزار ہا بار قوم کو یہ باور کرواچکے ہیں کہ معاشی ترقی اور عوامی فلاح وبہبود کی راہ میں کرپشن سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔انہی دعووں اور نعروں نے پاکستان تحریک انصاف کے چاہنے والوں کی تعداد میں اندرون وبیرون ملک خاطر خواہ اضافہ کیا مگر اب کڑے احتساب کیساتھ بلاامتیاز احتساب کی راہ میں خندقیں کھود اپنے پیاروں کو بچانے کی سرتوڑ کوششیں شروع کردی گئیں ہیں۔

جن الزامات پر اپوزیشن رہنماؤں کو کڑے احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے اب اُنہی الزامات پر اپنے لوگوں کو جواب طلب سے بچانے کیلئے قانون اور قواعد تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیاہے۔
کورونا وباء کی پہلی لہر کے بعد وزیراعظم عمران خان نے 1200 ارب روپے کے تاریخی ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا جس میں سے 500 ارب روپے مزدوروں اور غریبوں کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے لیے مختص کئے گئے تھے۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے اس پروگرام کا آڈٹ کرکے رپورٹ جاری کی گئی۔ دو سو سے زائد صفحات پر مبنی اے جی پی کی رپورٹ میں این ڈی ایم اے، بی آئی ایس پی، یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن اور دیگر سرکاری محکمہ جات کو کووڈ امدادی پیکج کے تحت دی جانے والی رقوم کی جانچ پڑتال کی گئی جس میں کم از کم چالیس ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آڈیٹر جنرل کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 500 ارب کے کورونا پیکیج کے تحت عوام میں صرف ایک سو سولہ ارب روپے تقسیم کیے گئے جبکہ 314 ارب روپے وزارت خزانہ نے جاری ہی نہیں کئے۔

دیہاڑی دار ملازمین کو 200 ارب کے اعلان میں سے صرف سولہ ارب روپے جاری ہوئے، پناہ گاہوں اور لنگر خانوں میں ایک سو پینتالیس ارب سے ایک سو پچاس ارب روپے تقسیم ہوئے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کو 50 ارب میں سے 10 ارب روپے دیے گئے بجلی اور گیس پر 100 ارب کی سبسڈی میں سے 15 ارب۔روپے دیے گئے۔ آڈیٹر جنرل نے مختلف بدانتظامیوں کی نشان دہی بھی کی ہے جن میں کورونا کے لیے حکومت مشینری کے تیار نہ ہونے،

غلط خریداری، خریداری میں تاخیر، ضرورت کا اندازہ لگائے بغیر خریداری، کمزور معاشی کنٹرول، تمام ریکارڈ کو درست انداز میں نہ رکھنا اور آڈٹ حکام کو تمام ریکارڈ نہ دینا شامل ہے۔رپورٹ میں حکومتی ٹیکسز کی عدم ادائیگی، ویئر ہاؤسز کی درست مینجمنٹ نہ کرنا، سپلائرز کو ایڈوانس ادائیگیاں، آلات کی فراہمی کا ریکارڈ نہ ہونا، ضمانتوں کے بغیر سپلائرز کو ایڈوانس ادائیگیاں، بے نظیر انکم پروگرام میں ریکارڈ نہ ہونے کے باعث ایک ہی خاندان میں کئی افراد کو ادائیگیاں، انشورنس رکھنے والے افراد کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ادائیگیاں، سرکاری ملازمین کو بے نظیر پروگرام کے تحت ادائیگیاں، جعلی بائیو میٹرک کے ذریعے ادائیگیوں کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مختص کیے گئے امدادی پیکیج کی جانچ پڑتال کی رپورٹ میں اربوں روپوں کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کے بعد آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے گرد شکنجہ کسنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس رپورٹ پر اگر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایکشن لیتے ہوئے فوجداری تحقیقات کا فیصلہ کرلیا تو بہت سے پیارے کڑے احتساب سے نہیں بچ پائیں گے لہذا وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اعلی سطحی اجلاس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے کورونا پیکیج میں ہونے والی بے ضابطیگوں کی رپورٹ پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے سسٹم آڈٹ اور فنانشنل آڈٹ میں فرق بارے بتایا اور احساس پروگرام کے آڈٹ میں آڈیٹر جنرل نے رائے کو ناقص قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے آڈٹ پیراز میں وفاقی کابینہ سمیت بورڈ کے فیصلوں پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ وزراء کی رائے کے بعد وفاقی حکومت نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے باعث وزیراعظم عمران خان نے آڈٹ کومزید معنی خیز اور جوابدہ بنانے کے نام پر مشیر خزانہ شوکت ترین کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔

دوسری جانب وفاقی حکومت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹریز کی جانب سے آڈٹ پیرا کا دفاع کرنے پر انتہائی خائف ہے۔ وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ وفاقی سیکرٹری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ماضی کی حکومتوں کے منصوبوں کے خلاف آڈٹ پیراز کو دفاع کررہے ہیں جس کے باعث ماضی کی حکومتوں کی بدعنوانی کے خلاف کاروائی نہیں ہورہی لہذا رولز میں تبدیلی کرکے وفاقی وزراء کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں آڈٹ پیراز پر بریفنگ کی اجازت ملنی چاہئے تا کہ ماضی کی حکومتوں سے وابستہ رہنماؤں کو نیب یا ایف آئی اے کے حوالے کیا جاسکے۔ وزیراعظم عمران نے سیکرٹری کابینہ کی رائے کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان کو خصوصی ٹاسک سونپ دیدیا ہے۔ سیکرٹری کابینہ ڈویژن کی رائے کے مطابق وفاقی وزراء کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کے اختیارات تفویض کئے جاسکتے ہیں۔

وزیراعظم اوراُنکی ٹیم ایک جانب اپنے دور اقتدار میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر مٹی ڈالنے کیلئے آڈٹ کا طریقہ ہائے کار تبدیل کرنے چل نکلے ہیں جبکہ ماضی کے آڈٹ پیراز پر سیاسی رہنماؤں کو جیل میں ڈالنے کیلئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی وفاقی سیکرٹریز کی بجائے وزراء کو بریفنگ کا کردا ر دلوانے چاہتے ہیں۔ آڈٹ کا طریقہ ہائے کار بدلنا چاہتے ہیں تاکہ وزراء اوراپنے پیاروں کے احتسابی گرفت میں آنے کے امکانات ہی ختم ہوجائیں گے یعنی نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔یہ من پسند احتساب کا کیسا معیارہے؟ کیا ماضی میں قومیں ایسے ہی من پسند احتساب کے باعث تباہی سے دوچار نہیں ہوئی تھیں؟

close