جنوبی ایشیا اور عالمی طاقتیں

خاندانوں، قبیلوں اور گروہوں سے ہوتا ہوا ریاست کا تصور westphilia treaty کے بعد 1648ء میں شروع ہوا جو ابھی تک کامیابی سے جاری ہے۔ عالمی سیاست میں ریاست بنیادی جز ہے۔ فرد اور اداروں کا عالمی سیاست میں کردار بہت بعد میں آیا۔ ریاست معاشروں کی تشکیل کیلئے بہترین نظریہ تھا۔

ریاستیں کسی مرکزی نظام کے تحت نہیں بلکہ اپنے اپنے سماجی نظام اور علاقائی محلے وجودکے اعتبار سے وجود میں آئیں۔ صنعتی انقلاب نے یورپ کو ترقی کی نئے مراحل سے روشناس کروایا اور یورپ نے اس ترقی کے بل بوتے پر باقی دنیا میں دو صدیوں سے زائد اپنا راج قائم کئے رکھا۔ برطانیہ، سپین اور پرتگال نے دو سو سال سے زائد دنیا پر حکمرانی کی اور ریاست کے اس تصور کو یرغمال بنائے رکھا، جس کی وجہ سے وہ تمام ریاستیں جن پر برطانیہ ، سپین اور پرتگال کا تسلط رہا وہ معاشرتی اور معاشی طور پر بہت پیچھے رہ گئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے قریب یورپی راج سے دنیا کو آزادی ملی تو برصغیر پاک وہند کا معاشرہ کسمپرسی کی تصویر نظر آتا تھا۔ اس سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی بدحالی کی تصویر آج بھی وطن عزیز میں عیاں ہے۔مغربی دنیا سے شروع ہونیوالا ترقی کا عروج اب آہستہ آہستہ مشرق کی طرف سمٹ آیا ہے۔ عالمی تجارتی منڈیوں پر چین کا غلبہ ہے۔ البتہ سائبر سپیس اور ملٹری ٹیکنالوجی پر امریکہ اور دوسرے چند مغربی ممالک ہی کا کنٹرول ہے۔
ریاست کے وجود میں آتے ہی طاقت کے حصول کیلئے جدوجہد شروع ہو گئی تھی کہ حکمرانی کون کریگا، کس کے پاس کتنی طاقت ہو گی اور وہ کیسے استعمال کریگا۔ اصول تو وضع ہو گئے اور حکمرانی کے طریقے بھی وجود میں آگئے‘ لیکن طاقت کے استعمال میں توازن پیدا نہ ہو سکا۔ طاقت کا حصول بقول مارگنتھاؤجو کہ ایک سیاسی مفکر ہے، انسان کی جبلت میں ازل سے شامل ہے۔ انسان اپنی حفاظت اور پیٹ پوجا کے بعد سب سے پہلا کام اپنی طاقت بڑھانے کیلئے سعی کرتا ہے۔ اور یہیں سے پھر فسادات کاآغاز ہوتا ہے۔ طاقت ہی وہی بنیادی نقطہ ہے جس کیلئے انسان اور ریاستیں جنگ و جدل کرتی ہیں۔ طاقت، آسان ترین الفاظ میں وسائل کی تقسیم اور نظم وضبط کیلئے کئے جانے والے فیصلوں کا حتمی اختیار ہے۔ انصاف کیلئے گو کہ عدلیہ ہے لیکن اس کی ذمہ داری بھی بالواسطہ حکومت کی ذمہ داری تصور ہوتی ہے۔
سیاست عرف عام میں حکومت سازی کیلئے کئے گئے تمام اقدامات کو کہتے ہیں جس میں تمام معاشرہ مل اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ ریاست کے قیام کے بعد جمہوریت کا تصور اب تک کا بہترین طرز حکومت ہے۔ انسانوں کی بھلائی کیلئے جمہوریت کی شکل میں انسانی معاشرے کی تشکیل اپنی انتہا کو پہنچ چکی۔ پاکستان بحیثیت ریاست تو وجود میں آگیا‘ لیکن سیاست کے پیچ وخم ابھی ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سیاسی مفکرین جن میں فوکویاما پیش پیش تھا کا یہ دعویٰ تھا کہ جمہوریت سے بہتر نظام حکومت ہو ہی نہیں سکتا۔ سویت یونین کی تقسیم کو کمیونزم کی شکست قرار دیا گیا۔ البتہ2008ء کے امریکہ میں معاشی بحران نے کیپیٹلزم کی بہتری پر بہت سے سوال کھڑے کر دیئے۔ اور ساتھ ہی ساتھ چین کی معاشی میدان میں حیرت انگیز ترقی نے دنیا کو وطیرہ حیرت میں ڈال رکھا ہے کہ کون سا نظام ،انسانی معاشرے کی فلاح کیلئے بہتر ہے۔ حال ہی میں چین نے اپنے ملک سے غربت کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا ہے، جبکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت سمیت دنیا بھر میں وسائل کی کمی اور بے روزگاری کے باعث غربت دن بدن بڑھ رہی ہے۔
طاقت کا یہی فلسفہ انسانوں میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ریاستوں کے درمیان کشمکش کی شکل بھی میں نظر آتا ہے، جو کہ دنیا بھر میں کشیدگی کا باعث ہے۔ طاقتور ملک عالمی امور میں اپنی من ماری کرتے ہیں۔ معیشت پر بھی انہی کا قبضہ ہے۔ معاشی طور پر غریب ممالک ، طاقتور ملکوں کے آگے سرنگوں رہتے ہیں۔ میکائولی جو کہ سیاست کے میدان کا مانا ہوا مفکر گردانا جاتا ہے ، نے کہا تھا کہ حکمران کو اپنی ریاست کی طاقت بڑھانے کیلئے تمام طریقے استعمال کرنے چاہیں۔ یہاں بنیادی نقطہ ریاست کی طاقت ہے۔ عالمی سیاست میں اپنے ملک کا حصہ وصول کرنے کیلئے یھی حربہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ دو عالمی جنگیں ، ایٹم بم کا استعمال ، افغانستان اور ایراق کے علاوہ شام، لیبیا اور یمن میں بیس سال تک جاری رہنے والی بے نتیجہ دہشتگردی کی جنگ بھی طاقت کے ناجائز استعمال کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ عالمی جنگ دوئم کے بعد دنیا کو سمجھ آیا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں اس لئے امن اور ریاستوں کے تعاون کے بارے میں بھی سوچ بچار کرنی چاہئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی بڑی جنگ تو نہیں ہوئی‘ لیکن امریکہ اور روس نے چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر اپنے مفادات کے حصول کیلئے اپنے ہاتھ سیدھے ضرور کئے ہیں۔ افغانستان میں دو دہائیوں تک بغیر مقصد کے لڑی جانیوالی جنگ نے عالمی نظام پر بے انتہا سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ کیا عالمی نظام چند بڑے ممالک کے چند امیر ترین لوگوں کے رحم وکرم پر ہی رہے گا یا استحصالی قوتوں کے خلاف بھی کوئی ادارہ یا قانون عمل میں آئیگا۔ یو این، بری طرح عالمی قوتوں خاص طور پر امریکہ کے سامنے بے بس ہے۔
اب جبکہ معاشی طاقت مغرب سے مشرق کی طرف تیزی سے منتقل ہو رہی ہے تو مغرب میں ایک تلاطم برپا ہے۔ امریکہ جب دہشت گردی کے خلاف افغانستان، عراق، شام اور لیبیا میں بم گرا رہا تھا تو چین اپنی صنعت اور تجارت کو بڑھانے کیلئے کوشاں تھا۔کرونا نے عالمی معیشت اور معاشرتی تبدیلیوں کی شکل میں جو دھچکا پہنچایا ہے‘ اس سے نکلنے کیلئے دنیا کو طویل وقت لگے گا۔ چین اور کسی حد تک پاکستان وہ دو ملک ہیں جو کرونا کے اثرات سے کافی حد تک بچے ہوئے ہیں۔
یورپ سمیت ، مڈل ایسٹ اور جنوب ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا میں تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد خطے میں حالات بے یقینی کا شکار نظر آتے ہیں۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور امریکی انخلا سے بھارت کو براہ راست دھچکا لگا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں پاکستان کیخلاف ایک بہت بڑا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں سمیت ایک منظم پروپیگنڈا مہم پاکستان کیخلاف چلائی جا رہی تھی۔ بھارت ایک عرصے سے پورے خطے میں عدم توازن کیلئے کوشاں ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ممبر بننے کیلئے بھارت کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت امریکہ کے فرنٹ مین کا کردار کرتا رہا ہے اور پس پردہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کافی حد تک بھارتی چالیں پچھلے دو سال میں آشکار ہوئی ہیں۔ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیلئے بھارت نے یورپ اور امریکہ میں ایک وسیع جال بن رکھا ہے۔ پاکستان کیخلاف امریکہ میں Lobbying کیلئے بھارت سب سے آگے ہے۔ پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا کیلئے بھارت اور امریکہ باہم ایک ہی نقطے پرہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ کا خاتمہ بھی ہے اور خطے میں عدم استحکام کا طبل جنگ بھی۔ افغانستان وسائل کی عدم دستیابی کے بعد شدید بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ ان حالات میں ایس سی او ممالک کے اجلاس میں عالمی سربراہان کی افغانستان اور خطے کیلئے پریشانی باعث تشویش ہے۔ خاص طور پر چینی صدر نے بغیر نام لئے امریکہ کو ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہنے کی تنبیہ کی ہے۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے کہ چین اب برملا امریکی ہٹ دھرمیوں کا تذکرہ کر رہا ہے۔ خطے میں امن کیلئے روس اور چین کا اشتراک ایک اہم پیش رفت ہے جس سے امریکہ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آنیوالے چند ماہ، جنوبی ایشیا، ایران، وسطی ایشیائی اور جنوب مشرقی ایشیائی خطوں کیلئے بہت اہم ثابت ہوں گے جس کے اثرات براہ راست چین اور پاکستان کی شراکت داری کے منصوبے سی پیک پر مرتب ہونگے۔ ان حالات میں پاکستان کی اندرونی سیاست اور یکجہتی ایک اہم کردار ادا کریگی۔ استحصالی قوتوں کے ہاتھوں عالمی چیرہ دستیاں ہمیشہ سے جاری ہیں اور رہیں گی۔ ان کا مقابہ کرنے کیلئے ریاستوں کو اندرونی محاذ پر مضبوط ہونا پڑیگا۔۔۔۔۔

close