آزاد کشمیر پریس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چیئرمین اور وائس چیئرمین کی الوداعی تقریب، جسٹس صداقت حسین راجہ، چوہدری رفیق نیئر اور سردار ذوالفقار علی کا خطاب

مظفرآباد (پی آئی ڈی ) چیف جسٹس آزاد کشمیر ہائی کورٹ جسٹس صداقت حسین راجہ نے کہا ہے کہ قلم کے ساتھ انصاف معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے، جو لوگ قلم کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ہر دو جہاں میں عزت و تکریم ان کا مقدر ہے، فلاح و بہبود کے ادارے معاشرے کے ضرورت مند افراد کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پریس فاؤنڈیشن کی مثال ہم سب کے لیے باعث تقلید ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزاد جموں و کشمیر پریس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چیئرمین اور وائس چیئرمین کی الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، تقریب سے معاون خصوصی برائے اطلاعات چوہدری رفیق نیئر اور وائس چیئرمین سردار ذوالفقار علی نے خطاب کیا۔ اس موقع پر چیئرمین پریس فاؤنڈشن جسٹس سردار لیاقت حسین سیکرٹری اطلاعات محترمہ مدحت شہزاد اور ڈی جی اطلاعات راجہ اظہر اقبال کے ساتھ ساتھ سینٹرل پریس کلب مظفرآباد کے صدر سید آفاق شاہ، سابق وائس چیئرمین محمد امجد چوہدری، سینئر صحافی اور نو منتخب وائس چیئرمین پریس فاؤنڈیشن سید ابرار حیدر، ممبران بورڈ آف گورنرز پریس فاؤنڈیشن سینئر صحافی محمد عارف کشمیری، محمد حیات اعوان، محمود احمد، سردار اعجاز خلیق، بلیغ الرحمن، محمد زاہد بشیر، شوکت علی کھوکھر، خالد محمود، ناصر شریف بٹ، شہزاد احمد راٹھور، شہزاد خان، سینئر صحافی طارق نقاش، سہیل مغل، سیکرٹری جنرل اے کے این ایس راجہ امجد، محمد عارف عرفی، امتیاز احمد اعوان، ملک اظہر اور آزاد کشمیر بھر سے آنے والے دیگر صحافی بھی موجود تھے۔

چیف جسٹس عدالت العالیہ نے پریس فاؤنڈیشن کے لیے خدمات پر سابق بانی وائس چیئرمین سردار ذوالفقار علی، سابق وائس چیئرمین محمد امجد چوہدری کے کردار کی تعریف کی اور بتایا کہ ان کے دور میں جو بھی اچھے اور جاندار اقدامات اٹھائے گئے ان میں بالخصوص سیکرٹری اطلاعات مدحت شہزاد اور ڈائریکٹر جنرل راجہ اظہر اقبال کا مثالی اور معیاری کردار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پریس فاؤنڈیشن کے چیئرمین کے طور پر جو عرصہ میں نے گزارا اس میں کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ بہتر کام کر سکیں اور مجھے خوشی ہے کہ ادارہ اس وقت نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پاکستان کے بہترین اداروں میں شامل ہے۔ اس موقع پر انہوں نے معاون خصوصی برائے اطلاعات چوہدری رفیق نیئر کی جانب سے پریس فاؤنڈیشن کی گرانٹ میں اضافے کی ذمہ داری اٹھانے اور گرانٹ کی رقم کا تعین ان کی صوابدید پر چھوڑنے کے باعث انہوں نے گرانٹ میں 15 لاکھ روپے اضافہ کا بھی اعلان کیا۔ اس موقع پر معاون خصوصی برائے اطلاعات چوہدری رفیق نیئر نے اپنے خطاب میں عدلیہ کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پریس فاؤنڈیشن کے چیئرمین کے طور پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا فیصلہ تاریخی تھا اور اگر چیئرمین اعلیٰ عدلیہ سے نہ ہوتے تو آج یہ ادارہ کرپشن سے پاک اور معیاری نہ گنا جاتا، بلکہ کرپشن اور بد دیانتی کے الزامات ہوتے، مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ادارہ کے پاس اپنے وسائل ہیں اور حکومت کی جانب سے ملنے والی گرانٹ محفوظ رکھ کر اس کے عوض حاصل آمدن سے اس ادارہ کو چلایا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں کہ وسائل ضائع کیے بغیر ان کا استعمال ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ادارے کی کارکردگی دیکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے اور ان کے جتنے بھی رکے ہوئے کام ہیں انہیں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ میں وزیراعظم کی جانب سے سابق چیئرمین پریس فاؤنڈیشن و چیف جسٹس کو یہ اختیار دے چکا ہوں کہ وہ گرانٹ میں اضافے کا اعلان کریں اور انہوں نے ایسا کر بھی دیا ہے۔ جو مطالبات سابق وائس چیئرمین نے پیش کیے ہیں، ان سب سے اتفاق کرتے ہوئے انہیں منظور کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں صحت اور تعلیم کے لیے جو اضافی رقم ضرورت ہو گی وہ بھی مہیا کرینگے، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ یہ ادارہ بالخصوص قرآن پاک کی تعلیم کے حوالے سے گہری دلچسپی رکھتا ہے اور اس وقت تک جتنے کام کاج کیے گئے ہیں وہ ایک مثال ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بانی وائس چیئرمین سردار ذوالفقار علی نے چیف جسٹس، معاون خصوصی برائے اطلاعات کا تقریب میں آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پریس فاؤنڈیشن ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں کام کرنے والا وہ واحد ادارہ ہے جس کی مثال پورے ایشیا میں موجود نہیں، وفاقی حکومت سمیت پاکستان کی تمام صوبائی حکومتوں، پریس کلبوں اور گلگت بلتستان نے ہم سے ایکٹ اور رولز حاصل کیے اور بے شمار اداروں نے ہماری ویب سائٹ سے ہمارے قانون اور قواعد کو اٹھایا اور آج آزاد کشمیر بھر میں مختلف فلاحی ادارے اور تنظیمیں یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ دیگر اداروں کو بھی پریس فاؤنڈیشن کی طرز پر چلایا جائے جو کہ ایک اعزاز ہے، جسٹس صداقت حسین راجہ کے دور میں بہت سے تاریخی کام ہوئے جس میں فاؤنڈیشن کی آمدن میں اضافہ، صحافیوں کی رہائش اور پریس کلبوں کے لیے زمین کا حصول، عمارتوں کے لیے رقم، اے کے این ایس کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت اشتہارات پر 3 فی صد فاؤنڈیشن سیس، ممبر شپ کے لیے ایکٹ میں ترمیم، فاؤنڈیشن کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کے لیے سافٹ ویئر کی تکمیل، فاؤنڈیشن کا آڈٹ، فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹس کو پرائیویٹ سے سرکاری کرنا، صحافیوں کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیمی کارکردگی پر خصوصی انعامات، قرآن پاک حفظ کرنے والے بچوں اور ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک مکمل کرنے والے بچوں اور بچیوں کے لیے خصوصی انعام ایک مثال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے سینئر صحافی جن کا صحافتی تجربہ 15 سال سے زائد ہے اور کسی رجسٹرڈ پریس کلب یا یونین کے ممبر ہوتے ہوئے وفات پا چکے ہیں ان کے لیے بطور ڈیتھ کلیم 3 فی صد کی مد سے ایک لاکھ روپے تک کی خصوصی معاونت ایسے احسن اقدام ہیں جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہ موجودہ چیئرمین کی وساطت سے کرونا کے دوران حکومت سے ایک کروڑ کی خصوصی گرانٹ اور جملہ صحافتی اداروں کے لیے ان کی مساویانہ اور معیاری تقسیم جب کہ فاؤنڈیشن فنڈ سے مستحق صحافیوں کے لیے راشن پیکیج اور چیئرمین کی ذاتی کاوش سے مستحق بچوں کے لیے کتابوں اور فیس وغیرہ کی فراہمی بھی ایک مثال ہے۔ بانی وائس چیئرمین نے کہ کہ میں آج یہ عہدہ چھوڑتے ہوئے اس بات کا حلف اٹھاتا ہوں کہ میں نے عہدہ حاصل کرتے وقت جو حلف اٹھایا تھا اس کی پاسداری کی ہے اور اپنی ذات، گھر یا بچوں کے لیے کسی قسم کا کوئی مالی یا دیگر مفاد حاصل نہیں کیا اور میری خواہش ہو گی کہ ایسے تمام عہدیداران جن کو عوامی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں وہ بھی جاتے وقت ایسا حلف ضرور اٹھائیں، انہوں نے کہا کہ موجودہ چیئرمین سے بڑی توقعات ہیں اور معاون خصوصی اطلاعات ہر دلعزیز انسان ہیں، نیلم ہٹیاں، پلندری پریس کلبوں کی تعمیر کے لیے ایک کروڑ 20 لاکھ کی سکیمیں مکمل ہونے کے بعد لوکل گورنمنٹ میں زیر کار ہیں۔ جن کے لیے فنڈز بھی موجود ہیں، اگر منظوری دے دی جائے تو یہ پریس کلب تعمیر ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ حویلی اور باغ کے لیے جو زمین لی گئی ہے ان پریس کلبوں کو بھی لوکل گورنمنٹ کے بجٹ میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے سیکرٹری اطلاعات محترمہ مدحت شہزاد کے کردار کو سراہا اور کہا کہ ان کا لب و لہجہ اور کام کرنے کا طریقہ کار ہمیشہ مثالی رہا ہے۔ ڈی جی اطلاعات اور سیکرٹری فاؤنڈیشن راجہ اظہر اقبال جیسے لوگ کسی بھی ادارے کی خوش بختی کا باعث ہوتے ہیں، ان کے سب سے بڑے پن کی مثال ہے کہ ان کی دیانتداری سے حکومت آزاد کشمیر کو 6 کروڑ سے زائد کا فائدہ ہوا ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے کمیشن کی مد میں اپنا ایک کروڑ سے زائد کا نقصان کیا ہے، کیوں کہ اگر کوئی اور محکمہ ہوتا تو شاید ایک کروڑ لے کر وہ خزانے سے 6 کروڑ ضائع کرا دیتا۔ انہوں نے کہا کہ نو منتخب وائس چیئرمین ابرار حیدر آزاد کشمیر سینٹرل یونین آف جرنلسٹس اور مرکزی ایوان صحافت کے صدر رہ چکے ہیں اور صحافتی خدمات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، آج ان کی نامزدگی سے قبل آزاد کشمیر بھر کی صحافتی تنظیمیں اور گروپ یکجا ہو چکے ہیں جو کہ ایک مثال ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسی صورتحال میں میرا جانا ناگزیر ہے۔ اور میں اس موقع پر آزاد کشمیر بھر کی صحافی برادری سے کسی بھی قسم کی غلطی پر معذرت خواہ ہوں۔۔۔

close