چینی صدر کی امریکہ کو تنبیہ اور نئی عالمی صف بندی
(نیوز ڈیسک)دنیا ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں الفاظ، محض الفاظ نہیں رہے۔۔۔خاص طور پر اگر وہ الفاظ کسی عالمی طاقت کے سربراہ کے ہوں تو وہ پوری دنیا کے سیاسی،اقتصادی اور عسکری نقشے پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں۔۔۔چین کے صدر شی جن پنگ کا حالیہ بیان کہ ”اگر امریکا دنیا کا احترام نہیں کرے گا تو سبق سیکھے گا،دنیا امریکا کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے“صرف ایک تنبیہ نہیں بلکہ ایک پیشگی اعلان ہے۔۔۔”نئی عالمی صف بندی کا اعلان“ نئی جغرافیائی سیاست کا اعلان اور سب سے بڑھ کر عالمی طاقت کے سنگھاسن پر ایک نئے مدعی کی آمد کا اعلان۔۔۔یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ ایک نئی آگ کی لپیٹ میں ہے۔۔۔ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تناو اب ایک محدود تصادم کی حد پار کر چکا ہے۔۔۔ایران کے اندر اسرائیلی تابڑ توڑ حملے اور پھر ایرانی میزائلوں کا براہِ راست منہ توڑ جواب،عالمی سطح پر ہلچل کا باعث بن چکا ہے اور تیسری عالمی جنگ کا بگل بھی بج چکا ہے۔۔۔اگرچہ مغربی میڈیا اس جنگ کو صرف ”دفاعی ردعمل“ کے طور پر پیش کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کشیدگی صرف ایران اور اسرائیل کے درمیان محدود نہیں رہی۔۔۔اس کے پیچھے عالمی قوتوں کے خفیہ عزائم،بالخصوص امریکہ کی غیر متوازن پالیسی،سب پر عیاں ہو چکی ہے۔۔
جبکہ ٹرمپ کی اس دھمکی کے جواب میں ایران کی قومی سلامتی کے ڈپٹی چیئرمین کا بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ”اسرائیل سے زیادہ آسان ٹارگٹ ہمارے لئے مشرق وسطیٰ میں امریکی اڈے ہیں،دو سے چار منٹ میں ہمارے میزائل امریکی اڈے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،امریکا حملہ کرے تو پہلے 50 ہزار تابوت تیار کر لے“۔۔۔اسی بیان کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی ٹرمپ کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ”آگ کو ہوا دینا،اس پر تیل ڈالنا،دھمکیاں دینا اور دباو بڑھانا،یہ تمام اقدامات صورتِ حال کو پرامن بنانے میں مددگار نہیں ہوں گے بلکہ اس تنازع کی شدت میں مزید اضافہ اور اس کے دائرے کو وسیع کریں گے“اس تمام صورتحال اور اس پس منظر میں چینی صدر اور ترجمان وزارت خارجہ کے یہ بیانات، ایران کے موقف کی بالواسطہ تائید اور اسرائیل کے خلاف ایک بالواسطہ تنبیہ بھی ہے۔۔۔چین مشرق وسطیٰ میں طویل عرصے سے”غیر جانبدار ثالث“کا کردار ادا کرتا رہا ہے مگر اب وہ تماشائی بننے کو تیار نہیں۔۔۔۔دوسری طرف، عالمی معیشت بدترین کساد بازاری کی زد میں ہے۔۔۔۔امریکہ،یورپ اور جاپان کی معیشتیں بظاہر مستحکم نظر آتی ہیں مگر اندر سے”کھوکھلی“ہو چکی ہیں۔۔۔افراط زر،بے روزگاری،بینکنگ بحران اور سرمایہ کاروں کا عدم اعتماد ، یہ وہ مسائل ہیں جو”مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے تابوت میں آخری کیل“ ثابت ہو سکتے ہیں۔۔۔اسی دوران چین،خاموشی سے اپنی کرنسی یوآن کو مستحکم کر رہا ہے،سونے کے ذخائر بڑھا رہا ہے اور روس،ایران،سعودی عرب اور دیگر ممالک کے ساتھ ڈالر کے متبادل تجارتی نظام ترتیب دے رہا ہے۔یہ سب کچھ محض اقتصادی سرگرمی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی عالمی حکمت عملی ہے۔۔۔چین کو معلوم ہے کہ امریکہ کو شکست دینا بندوق یا میزائل سے نہیں بلکہ معیشت سے ممکن ہے۔۔۔ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کیے بغیر عالمی نظام میں تبدیلی کا خواب ناممکن ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے ذریعے چین نہ صرف دنیا کے پچاس سے زائد ممالک کو اپنی تجارتی شاہراہ سے جوڑ رہا ہے بلکہ ان کی داخلی معیشتوں میں براہِ راست سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
ٹرمپ کا واضح پیغام ہے کہ وہ نیٹو،اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو امریکہ کے مفادات کے تابع رکھیں گے یا مکمل طور پر ترک کر دیں گے۔۔۔ان کی ”امریکہ فرسٹ“ پالیسی دراصل ”دنیا باقی بعد میں“کی عملی تصویر ہے،جو دنیا کے دیگر ممالک کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ امریکہ کے بغیر مستقبل کا تصور کریں،بالکل وہی بات جو چینی صدر شی جن پنگ نے کی۔۔۔۔چین کا بیانیہ،جس میں باہمی احترام،عدم مداخلت اور کثیر القطبی نظام پر زور دیا جاتا ہے،اب صرف تھیوری نہیں بلکہ ایک عملی ماڈل بنتا جا رہا ہے۔۔۔امریکہ اگر اسی روش پر قائم رہا تو شاید اسے واقعی وہ سبق سیکھنا پڑے جس کی شی جن پنگ نے نشاندہی کی ہے اور وہ سبق صرف سیاسی نہیں بلکہ معاشی،عسکری اور نظریاتی میدانوں میں بھی ہو گا۔۔۔۔وقت آ گیا ہے کہ دنیا اپنی آنکھیں کھولے اور یہ تسلیم کرے کہ اب ایک”عالمی پولیس مین“ کے سائے میں جینے کا دور ختم ہو چکا ہے۔۔۔عالمی برادری کو ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو نہ صرف اپنی قوم بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کے لیے مساوی مواقع اور عزت کا تصور رکھتے ہوں۔۔۔اگر امریکہ نے خود کو نہیں بدلا تو دنیا یقیناً اسے بدل دے گی اور اس تبدیلی کی قیادت بیجنگ سے ہو گی،واشنگٹن سے نہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں